تہذیب کے فلک کا ستارہ ہے لکھنؤ

یہ تحریر 916 مرتبہ دیکھی گئی

کیوں ہم کہیں کہ وقت کا مارا ہے لکھنؤ
جیسا بھی ہے جناب، ہمارا ہے لکھنؤ *
ورنہ تو یہ اجاڑ زمینوں کا شہر تھا
شاہانِ شہرِ گل نے سنوارا ہے لکھنؤ
ہے جس کی آیتوں میں رواں سیلِ رنگ و نور
ماہ و نجوم کا وہ سپارہ ہے لکھنؤ
بندے کی کیا مجال کہ پیدا ہو یہ کمال
اللہ نے زمیں پہ اتارا ہے لکھنؤ
پڑھیے تو سیکھ لیجیے شائستگی کے طور
آدابِ زندگی کا شمارہ ہے لکھنؤ
حوریں فریفتہ ہیں فرشتے نثار ہیں
سب آسماں نشینوں کو پیارا ہے لکھنؤ
روشن جہاں میں سب ادب آداب اسی سے ہیں
تہذیب کے فلک کا ستارہ ہے لکھنؤ
صبحیں ہیں خوشگوار تو شامیں ہیں خوب رنگ
جنت کے منظروں کا اشارہ ہے لکھنؤ
پوچھا گیا ہے اْن سے ٹھہرنے کا جب مقام
خوش رنگ موسموں نے پکارا ہے، لکھنؤ
خوباں کرے ہیں اِس کی تلاوت بہ ذوق و شوق
بوے گلِ شگفتہ کا پارہ ہے لکھنؤ
رہتا ہے یوں تو نرم دمِ گفتگو مگر
ہو گرمیِ سخن تو شرارہ ہے لکھنؤ
یوں تو کیے ہیں فتح بہت معرکے مگر
لشکر کشانِ حسن سے ہارا ہے لکھنؤ
کیا آ کے اِس کی زلف سنوارے گا کوئی اور
پروردہ جمال، خود آرا ہے لکھنؤ
اِس جا ہے نہر پھول وہاں ہیں یہاں پرند
باغِ بہشت تیرا نظارہ ہے لکھنؤ
لاریب اْن کی فہم سے بالا ہیں اِس کے بول
ناخواندگاں کے حق میں خسارہ ہے لکھنؤ
سچ ہے، نہیں ہے اس میں زرا بھی مبالغہ
علم و کمال و فن کا ادارہ ہے لکھنؤ
دریا میں جن کو موجِ بلا خیز کا ہے خوف
اُن سب کی کشتیوں کا سہارا ہے لکھنؤ
سب تیری وسعتیں یہیں ہوتی ہیں خیمہ زن
اے آسمان تیرا کنارہ ہے لکھنؤ
حاصل ہے میرے عرصہء ایّام کا انیس
جو وقت تیرے ساتھ گزارا ہے لکھنؤ

* اساتذہ کی تقلید میں اس نوع کے ایطا کو میں نے خود پر جائز کر لیا ہے۔
مثال:

ہزاروں ہم نے گل کھائے بدن پر
فدا جب سے ہوئے اس گلبدن پر