توجہ طلب مآخذ

یہ تحریر 1933 مرتبہ دیکھی گئی

انیسویں صدی کے برصغیر پاک و ہند کی معاشرتی زندگی اور اس کے متعلقات اور خارجی مناظر کے دو اہم مآخذ ہیں۔ اتفاق سے دونوں سے کوئی خاص فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ ایک اعتبار سے یہ مآخذ ایک دوسرے کا الٹ ہیں۔ ایک کو تمام تر داخلی قرار دیا جا سکتا ہے اور دوسرے کو تمام تر خارجی۔ داخلی میں ان اردو داستانوں کو شمار کرنا چاہیے جو انیسویں یا بیسویں صدی عیسوی کے اولین عشروں میں لکھی گئیں۔ معاشرتی یا مجلسی زندگی کی عکاس یا واقعیت نگاری سے داستانوں کو براہِ راست سروکار نہیں لیکن اس کے باوجود ہر داستان میں معاشرے کے مختلف طبقوں اور پہلوؤں کی تصویریں ضرور مل جاتی ہیں۔ ثبوت کے لیے “طلسم ہوش ربا” کے اس انتخاب پر نظر ڈالنی کافی ہوگی جو محمد حسن عسکری کی مساعی کا نتیجہ ہے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ عسکری صاحب کی تقلید میں باقی مطبوعہ داستانوں کو بھی کھنگال کر ایسے حصے الگ کر لیے جاتے جو معاشرتی زندگی سے متعلق ہیں۔ اس طرح اردو داستانوں ہی کے حوالے سے ایک اور جامع انتخاب سامنے آ سکتا تھا۔
غیرمطبوعہ داستانوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ ان کو کبھی کسی نے پڑھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ اس لیے کہا نہیں جا سکتا کہ ان کے اوراق میں معاشرتی زندگی کی کیا کیا تصویریں پنہاں ہیں۔ ان میں سے کتنی ہی داستانیں ضائع ہو چکی اور اگر بے اعتنائی کا یہی انداز برقرار رہا تو باقی ماندہ کا پرسانِ حال بھی کوئی نہ ہوگا۔
دوسرا ماخذ وہ سفرنامے اور یادداشتیں ہیں جو برصغیر آنے والے یورپی افراد نے قلم بند کیں۔ ان میں معتد بہ تعداد انگریزوں کی ہے۔ یہ برصغیر کی معاشرتی زندگی کا گویا خارجی عدسہ ہے۔ مطبوعہ سفرناموں اور یادداشتوں کی صحیح تعداد کا، جو سیکڑوں ہی ہوگی، اندازہ لگانا مشکل ہے۔ غیرمطبوعہ یادداشتوں اور برصغیر سے لکھے گئے خطوط کی تعداد بھی کم نہ ہوگی۔ ان سفرناموں اور یادداشتوں کے بعض مندرجات ہمیں شاید ناگوار معلوم ہوں اور بعض ناقابل اعتبار بھی ہوں گے۔ غیرملکیوں سے ہر معاملے کو صحیح تناظر میں دیکھنے اور ہر بات کی باریکیوں کو سمجھنے کی توقع عبث ہے اس کے باوجود یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ ان کے متجسس ذہن نے برصغیر کو بالکل نئی نظر سے دیکھا۔ چناں چہ یہ ماخذ بھی کچھ کم وقیع نہیں۔ لیکن اس سے بھی کوئی فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی گئی۔
ذیل میں پہلے ایک انگریزی سفرنامے کے بعض اجزا کا ترجمہ اور بعدازاں ایک غیرمطبوعہ داستان سے ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے۔ سفرنامے کا عنوان Wanderings of A Naturalist in India ہے اور یہ ایڈنبرا سے 1867ء میں شائع ہوا تھا۔ مصنف اینڈریو لیتھ ایڈمز ہے جو برطانوی فوج کی بائیسویں رجمنٹ میں سرجن تھا۔ ایڈمز آئر لینڈ کے مقام کوئنز ٹاؤن سے 29 جون 1849ء کو ہندوستان کے لیے روانہ ہوا تھا۔
٭
1849ء میں کراچی کا منظر کسی بہت دل پذیر پہلو کا حامل نہ تھا۔ ریتلے ویرانے اور چٹیلی ساحل کے طویل قطعات۔ ہر چیز، خواہ جاندار ہو یا بے جان، ایسی دکھائی دیتی جیسے ابھی ابھی کسی پُرغبار آندھی کے بعد نمودار ہوئی ہو۔ جھاڑیاں، درخت اور مکان دھولے نظر آ رہے تھے جیسے ان پر انگلستان کے کسی جاڑے کا پالا چھایا ہو۔ گھاس کا ایک تنکا بھی کہیں نہ تھا اور تاڑ، ناگ پھنی اور چند ایک مرنڈا سی جھاڑیوں کو چھوڑ کر اردگرد کا علاقہ اجاڑ اور دل اچاٹ کرنے والا بیابان تھا۔ (ص32)
٭
جو قبرستان بھی ہندوستان میں میری نظر سے گزرے ہیں وہ، جہاں تک رقبے کے پھیلاؤ کا تلعق ہے، سقوطری اور قسطنطیہ میں واقع ترکی گورستانوں کے مقابلے میں قابلِ ذکر نہیں۔ تاہم کراچی شہر کے باہر کے گورستان کا طول و عرض بہت متاثرکن ہے۔ مشرقی شہروں کی قدامت کو جس قدر ان کے قبرستان اجاگر کرتے ہیں کوئی اور چیز نہیں کر سکتی۔ اور تاریخ کی شہادت کے بغیر بھی کراچی کے گرد و نواح میں یہ قبرستان گو اہی دیتے ہیں کہ شہر کتنی ہی صدیوں سے موجود ہے۔ قبروں کی الواح پر سفیدی پھری ہوئی ہے اور سرخ رنگ کے نقش و نگار بنے ہوئے ہیں اور اس طرح وہ اس میدان میں، جو صحرا کے سوا کچھ نہیں، دور سے نمایاں نظر آتے ہیں۔ کہیں کہیں بَلیّاں گڑی ہیں جن سے رنگ برنگی تکونی جھنڈیاں لہرا رہی ہیں۔ (ص33)
ریت کے مسلسل ادھر سے ادھر ہوتے رہنے کی وجہ سے زیریں سندھ میں باقاعدہ سڑکوں کے نام کی کوئی چیز نہیں۔ دوپہر کے وقت، جب پچھوا چلنی شروع ہوتی ہے، ریت کے رواں دواں بادل پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ریت چھوٹی سے چھوٹی درزوں اور رخنوں کے راستے اندر آتی رہتی ہے۔ بگولے بہت عام ہیں۔ وہ فضا میں پورے دو سو فٹ بلند ہو جاتے ہیں اور دور سے یوں لگتا ہے جیسے دھویں کے بادل بل کھاتے چلے جا رہے ہوں۔ (ص34)
٭
کم ہی ملک قدرتی حسن سے سندھ جتنے محروم ہوں گے، منظر کو مصری رنگ دینے کے لیے بظاہر صرف اہراموں کی ضرورت ہے۔ کسی بلند جگہ سے مشاہدہ کیا جائے تو کراچی کے قرب و جوار کس طور دلکش معلوم نہیں ہوتے۔ شمال کی طرف، جہاں تک نگاہ کام کرتی ہے، ریت کا ایک وسیع و عریض میدان ہے جس میں جا بجا جھاڑیاں یا ساحل پر پائے جانے والے کنکروں کے ڈھیر ٹنکے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مغرب میں، بہت دور، بلوچستان کے اجاڑ اور دھوپ جلے پہاڑ دکھائی دیتے ہیں۔ سمندر کی طرف دیکھیں تو عمارتیں صف بہ صف کھڑی نظر آتی ہیں۔ یہ یورپی بارکیں اور رہائشی مکان ہیں جو تھوہر اور مدار کی باڑوں کی وجہ سے پوری طرح دکھائی نہیں دیتے۔ تھوہر اور مدار کی یہ باڑیں باغوں کے گرد کچھی ہوئی ہیں جہاں جانے پہچانے استوائی پھل دار درخت اور ترکاریاں خود کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہیں (ص34، 35)
مقامی کشتیاں بالکل ان گھڑ وضع کی ہیں: پیندا چپٹا جو اگلے پچھلے سرے پر ابھرا ہوتا ہے۔ یہ کشتیاں پرانے وقتوں کی برطانوی گیلیوں (Galleys) سے کچھ کچھ مشابہ ہیں۔ ایک بڑے چوکور بادبان کے علاوہ ان پر پال قسم کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ایسی متعدد انتہائی دقیانوسی کشتیوں کو دریا میں ہر طرف ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ دریائے سندھ سب سے بھلا اس وقت لگتا ہے جب آفتاب اپنے تمام آتشیں جمال کے ساتھ غروب ہو رہا ہو، حواصل کے لمبے لمبے پرے سطح دریا کو تقریباً چھوتے ہوئے سپاٹے بھر رہے ہوں، دریا کی سطح، حدِنظر تک مقامی کشتیوں سے سجی ہوئی ہو اور جہاں تہاں کسی کسی چَر پر مرغانِ دریائی صف در صف کھڑے ہوں۔ سوئے ساحل کسی نخلستان یا کیکڑوں کے جھنڈ کے سوا، جو بہرحال منظر کے حقیقی مشرقی رنگ کو چھوکھا کر دیتے ہیں، کچھ بھی قابلِ دید نہیں ہوتا۔ (ص48)
٭
فیروز پور کا منظر کسی بھی اعتبار سے نظرنواز نہیں۔ فیروز پور سے مشرق کی طرف چلیں تو کئی منزل تک یہی عالم ہے۔ چند زیرِ کاشت قطعات کو چھوڑ کر، جو کبھی کبھی دکھائی دے جاتے ہیں، پورے علاقے پر نیچی نیچی چُرمُر جھاڑیوں، ریتلے ویرانوں یا جھاؤ، ببول، تھوہر اور آکھ کے جنگلوں کا قبضہ ہے۔ (ص59)
٭
ایک پہاڑی شکاری: کندھے پر توڑے دار بندوق دھری ہوئی۔ موٹے جھوٹے سرمئی اونی کپڑے پہنے۔ وضع قطع اور پہناوا ہو بہو کسی ہمالیائی شکاری جیسا۔ لمبی لہرائی داڑھی، بڑا سا پگڑا، چھوٹا کرتا جیسے کمر کے گرد سانبھر کی کھال کی ہلکی کتھئی پیٹی سے کس لیا گیا تھا۔ پیٹی سے سینگڑا اور تھیلیاں لٹکی ہوئیں۔ پھولی پھولی شلوار گھٹنوں تک جس کے پنڈی ٹخنوں تک اونی پیٹیوں میں جکڑی۔ پانؤ میں گھاس کی چپلی، چپلیوں کے کئی اور پوری طرح تیار جوڑے پیٹی سے آویزاں۔ (ص103)
٭
ہندوستان میں کسی پڑاؤ کے بڑھائے جانے کا منظر مصور کے لیے عمدہ موضوع ثابت ہوگا۔ فرض کیجیے کہ پچھلے پہر کے تین بجے ہیں۔ جیسے ہی بگل بجتا ہے گزری ہوئی ساعتوں کا سکوت درہم برہم ہو جاتا ہے اور موگریوں کی کھٹ کھٹ اور اونٹوں کے برّانے کی آواز ہمیں سوتے سے جگا دیتی ہے۔ خیمے گویا جادو کے زور سے گرتے نظر آتے ہیں۔ راڑٹیوں کی سفید سفید قطاریں ایک ایک کرکے غائب ہوتی جاتی ہیں۔ انسانی آوازوں کی بھنبھناہٹ اور چل پکار میں اونٹ پہلے سے بھی زیادہ زور زور سے بلبلاتے سنائی دیتے ہیں۔ پڑاؤ کی آگوں کی روشنی میں اونٹوں کی چمرخ شکلیں، یا کبھی کبھار کوئی ہاتھی کی صورت جس پر خیمے اور بھاری سامان لدا ہو، قطار باندھ کر سامنے سے گزرتی جاتی ہیں۔ ابھی ابھی بستر سے اٹھے افسروں کی اندھیری صورتیں زور شور سے جلتی ان آگوں کے گرد جمع ہیں جنھیں پھوس جلا کر روشن کیا گیا ہے۔ ایک بار پھر بگل کی “ہتھیار تیار” کہتی ہوئی تیکھی اور پاٹ دار آواز بلند ہوتی ہے اور سب لوگ اندھیرے میں لپکے چلے جاتے ہیں۔ بینڈ ایک چونچال سی دھن بجانی شروع کرتا ہے۔ دو ہندوستانی شعلجی آگے آگے ہیں تاکہ ہمیں وہاں روشنی دکھا سکیں جہاں نہ کوئی لیک ہے نہ ڈھرا۔ دس منٹ کے اندر اندر رجمنٹ دوبارہ قرینے سے کوچ کرتی نظر آتی ہے۔ اور اس منظر کا، جو آدھا گھنٹا پہلے اتنی گہما گہمی اور رونق سے عبارت تھا، آگ کے بجھتے انگاروں، کسی پچھڑے ہوئے ہندوستانی یا ازکار رفتہ اونٹ کے سوا کوئی بھی نشان باقی نہ رہنا۔ (ص118۔119)
٭
راستے میں واقع ایک ڈھوک میں مجھ سے کسی کی ٹوٹی ہوئی بانہہ کے بارے میں مشورہ طلب کیا گیا۔ بانہہ کو جس طریقے سے جوڑا گیا تھا اسے دیکھ کر میں اچھی دیسی جراحی سے متاثر ہوا۔ اہر کے بک کے ایک کھوکھلے ٹکڑے کو، بہت ملایم چھڑیلے کا استر دینے کے بعد، بانہہ پر دونوں طرف باندھ دیا گیا تھا۔ بکل درخت سے تازہ تازہ اتار کر چڑھایا گیا تھا اور وہ بانہہ کی ناہمواری سے مطابقت اختیار کرنے کے بعد سخت ہوا۔ اس سے زیادہ مؤثر کھپچی باندھی نہ جا سکتی تھی۔ (ص161)
٭
آں جہانی گلاب سنگھ کا ظلم و ستم اُن دنوں میں یقین سے باہر تھا۔ اس کا ثبوت وہ اجڑے گاؤں اور ٹوٹے پھوٹے مکان تھے جو ہمیں راستے میں ملے۔ دن رات چھین جھپٹ کا دور دورہ تھا۔ حکمراں سے لے کر سپاہی تک سب کے سب کاشتکاروں کو دھڑی دھڑی کرکے لُوٹنے پر تلے رہتے تھے۔ گلاب سنگھ کی موت کے بعد بھی حالات میں بہتری کی کوئی صورت پیدا نہیں ہوئی۔ (ص163)
٭
ترا ہال کی چھوٹی سی وادی میں قیام کے دوران میں اسکردو کا سابق راجہ، مرزا شاہ، جس کا شمار گلاب سنگھ کے سرکاری قیدیوں میں ہوتا ہے، ہم سے ملنے آیا۔ اسے بارہ برس پہلے جلاوطن کر دیا گیا تھا اور وہ نزدیک کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں مفلسی کی زندگی بسر کر رہا تھا۔ حالاں کہ اس کی عمر صرف تیس برس تھی لیکن بیچارہ غم و اندوہ سے بالکل ہی نڈھال ہو چکا تھا۔ وہ قدآور، چھریرا اور خوش شکل تھا اور اس سنے سفید پگڑی اور نیلا چوغہ پہن رکھا تھا۔ ایک ترجمان کی مدد سے اس نے ہمیں بتایا کہ گلاب سنگھ نے اس کا ملک کس غیرمنصفانہ طریقے سے ہتھیا لیا تھا۔ لیکن جب ان دوستانہ روابط کا زکر آیا جو کسی زمانے میں اس کے والد اور برطانوی حکومتک کے درمیان قائم تھے تو اس کی بجھی بجھی آنکھوں میں چمک آ گئی اور آخر میں اس نے وہ دعا دہرائی جو ہر کشمیری مانگتا ہے کہ “کاش وہ دن زیادہ دور نہ ہو جب وادی پر فرنگیوں کی حکومت ہو جائے اور اس کا کوہستانی وطن اسے واپس مل جائے۔” بہرحال، ایسالگتا تھا کہ مرزا شاہ کو وہ دن دیکھنا شاید ہی نصیب ہو۔ ہماری ہمدردیوں سے ممنون ہو کر اس نے اپنی راہ لی مگر جلد ہی چٹانی بلور کا ایک ٹکڑا اٹھائے لوٹ آیا۔ ہم نے یہ ظاہر کیا جیسے ہماری نظر میں وہ بلور پارہ قیمتی ہو۔ بدلے میں ہالکیٹ نے ایک قلم تراش اس کی نذر کیا جو اسے کوئی شاہانہ تحفہ معلوم ہوا۔ جو کبھی عظمتوں کے امین تھے وہ کس طرح خاک بسر ہیں؛ مرزا شاہ Cylfos کے شاہی خانوادے کا آخری فرد تھا جس نے کئی صدیوں تک لداخ اور تبت پر راج کیا تھا۔ (ص183)
٭
حکمرانوں کے جبر و تعدی کے پیش نظر کشمیریوں کو خواہ کتنے ہی رعایتی نمبر دیے جائیں یہ محسوس کیے بغیر رہا نہیں جا سکتا کہ کشمیری بالطبع بلغمی اور بے حوصلہ ہوتے ہیں۔ کشمیر میں جدھر دیکھو وہاں کے باشندے حد درجہ آرام طلب، غلیظ عادتوں والے، گھٹیا، بزدل، چکٹ، ڈھلمل یقین اور اصلاح اور ترقی کے تمام تصورات سے لاتعلق نظر آتے ہیں۔ (ص295۔296)
(الزامات کی یہ فرد خوب ہے۔ سوال یہ ہے کہ 1850ء کے لگ بھگ کشمیریوں کے سامنے اصلاح اور ترقی کے کون سے پروگرام رکھے گئے تھے جن کی طرف انھوں نے آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا؟ ایڈمز نے خود ہی کشمیر کے حکمراں ٹولے کے غیرمعمولی جابرانہ رویے اور بدنیتی کا ذکر کیا ہے۔ اس کے بعد اسے یہ سمجھنے میں دقت نہ ہونی چاہیے تھی کہ وہ کون سے عوامل تھے جنھوں نے کشمیریوں کو اس حالتِ زار تک پہنچا دیا تھا۔ محمد سلیم الرحمٰن)
٭
اس میں کوئی کلام نہیں کہ وادیِ کشمیر کو ٹھکانے لگا دینے کا عمل اپنے زمانے کی عظیم ترین سیاسی غلطیوں میں شامل ہے اور اس غلطی کو ہم اس وقت تک محسوس کرتے رہیں گے جب تک پنجاب ہمارے قبضے میں ہے۔ کشمیر کو ہاتھ سے نہ دیا جاتا تو برطانوی منصوبہ افزائیوں کے لیے ایک شان دار میدان وا ہو جاتا اور اس کے نتیجے میں ہمارے مشرقی محاصل میں خطیر اضافہ ہوتا۔ یہ بات تو خیر الگ رہی، علاوہ ازیں کشمیر عسکری نقطہء نظر سے عظیم ترین اہمیت کی بعض سہولتیں فراہم کرتا۔ وہاں ایک ایسی ریزرو فوج کے لیے عمدہ اور صحت افزا مقامات دستیاب ہو جاتے جسے، مختصر ترین اطلاع پر، شمال مغربی صوبوں میں کسی بھی ہنگامی حالت سے نمٹنے کے لیے روانہ کیا جا سکتا تھا۔ لیکن اس کے بجائے کشمیر کے پُرشکوہ مرغزار، میدان اور جنگل، جن کی مثال کسی اور ملک میں مشکل ہی سے ملے گی، ایسے حکمرانوں کے ہاتھ بیچ دیے گئے جن کا واحد مقصد اور نیت یہ ہے کہ فصل تو کاٹتے رہو مگر بیج کبھی نہ بوؤ۔ (ص302)
٭
(مندرجہ ذیل اقتباس مہدی علی ذکی کی داستان “طلسم حکیم اشراق” کے قلمی نسخے سے لیا گیا ہے۔ ذکی کو، جن کا انتقال 1865ء میں ہوا تھا، مشّاق اور خوشگو شاعر خیال کیا جاتا تھا۔ وہ رامپور کی سرکار سے بھی وابستہ رہے۔ رامپور ہی میں انھوں نے “بوستان خیال” کے بعض طلسمات کو اردو میں تحریر کیا۔ “طلسمِ حکیم اشراق” بھی “بوستانِ خیال” ہی کا حصہ ہے۔)
٭
اس چالاک دست نے نکل کر صورت پیادوں کی سی بنائی: ایک نیلا لے انگرکھا اور کس کا رنگا طوسی پائے جامہ اور کھیس سے کمر بندھی ہوئی اور آں کی رنگی ہوئی سرخ پگڑی، توڑا لپٹا ہوا اس پر؛ توڑے دار بندوق باندھے پر، سینگڑا کمر سے بندھا ہوا، ایک تیغا کمر سے لگا ہوا اور ایک خنجر گریبان میں چھپا ہوا؛ ایک ڈھال کب دار پس پشت لگی ہوئی، سانگ لوہے کی ہاتھ میں اور “ہمتِ مرداں جان دارو” تکیہء کلام ہر بات میں۔ اپنے کام کی گھات میں نکلا۔ ڈھاٹا جو منھ پر بندھا ہوا تھا تو کوئی صورت پہچان بھی نہیں سکتا تھا۔
الغرض پاس جمعدار کے آیا جو مع جماعہ پاس دار تھا شہزادہ مہران کا۔ سامنے آن کے جمعدار کے، جھک کر باآدابِ تمام سلام کیا اور ہاتھ باندھ کر کہا کہ “ہمتِ مرداں جان دارد! غلام بھی آدھ سیر آٹے کے ٹھکانے کا امیدوار ہے۔”
جمعدار سراپا دیکھ کر، جوان جو اچھا سجا ہوا پایا تو پسند فرمایا۔ بولا کہ “اچھا، حاضر رہو۔” سامنے پہرے پر جو کھڑا تھا اس سے کہا کہ “او میاں دتین خاں، اپنے بھائی فیروز خان دفعدار کو تو یہ آواز دینا۔” اس نے وہیں سے پکارا کہ “بھائی فیروز خاں ہوت!” اس نے ڈیرے میں سے جواب دیا۔ اس نے کہا کہ “اکفر خاں جمعدار بلاتے ہیں۔”
بارے فیروز خاں آئے۔ سج ان کی یہ کی ڈاڑھی بیچ میں سے منڈی ہوئی، مونچھیں بڑی بڑی، نیلا رنگرکھا پہنے ہوئے۔ لوٹا ہاتھ میں۔ دودھ لینے کو گھوسی کے گھر جانے کا تہیہ تھا۔ جمعدار کے صاحب سلامت کی۔ پھر کان میں ان کے کہا کہ “کٹی خان میواتی جو نام کٹوا گیا اس کی اسامی تو خالی ہے غول میں۔” فیروز خان نے کہا کہ “آپ نے پرمول خان کو بھرتی کرنے کا حکم دیا ہے۔” جمعدار نے کہا: “پھر کمیدان تک تو ابھی خبر نہیں پہنچی؟” وہ بولا کہ “ہاں، ہنوز کمیدان سے تو ابھی نہیں کہا۔”
جماع دار نے کہا کہ “بس تو خیر! پرمول خان کاہل الوجود ہے۔ یہاں کی نوکری کے لائق نہیں ہے۔ یہ جوان اچھا ہے۔ اسے لے جائیو۔ اپنی دفعہ میں کمر اس کی کھلوائیو اور نام اس کا بخشی کے پاس لکھوا دو۔ کل پرسوں تک چہرہ اس کا لکھوا کر دستخط ہو جائے گا۔ اور، میاں، تمھارا نام کیا ہے؟”
اس نے کہا: “نام تو میرا جان باز خاں ہے پر جس سرکار میں پہلے میں نوکر تھا آقا نے خطاب مجھے جان مار دیا تھا۔ اس عرصے سے خلقت مجھے جان مار کہتی ہے۔ “جماعہ دار ہنسا اور کہنے لگا: “بس آج ہی سے تم نوکر ہو۔ کمر کھولو، چین اڑاؤ۔”
الغرض جان مار خاں گئے ساتھ فیروز خاں دفعدار کے اور کمر کھول اور کام میں چوکی پہرے کے اور خدمت گزاری میں دفعدار اور جمعدار کی کمال چستی اور چالاکی سے مصروف ہوئے۔ جب کہ تھوڑا دن باقی رہا تو جماعہ دار اور دفعدار سے ہاتھ باندھ کر کہا کہ “حکم ہو تو میں بستر اپنا لے آؤں؟” جمعدار اور دفعدار نے کہا: “بہت اچھا!”
الغرض جان مار خاں گئے اورپھر رات پڑے آئے بستر اپنا، دری اور دوہر لے کر اور ایک رومال میں مٹھائی بہت سی تازہ بنوا کر لیتے آئے۔ آ کر جماعہ دار اور دفعدار سے کہا کہ “میں نے نذر مانی تھی کہ میری نوکری ہو جائے تو یاروں کو مٹھائی کھلاؤں۔ پس اس نذر کو میں بجا لایا کہ روزگار خاطر خواہ ہمراہی میں قدر دانوں کے پایا۔” جمعدار نے کہا: “بھائی، تو غریب آدمی۔ ٹکے کا پیادہ ہے۔ عبث نقصان کیوں گوارا کیا؟ سوا پیسے کی ریوڑیاں لے آیا ہوتا۔” اس نے کہا: “صاحب، میں دم نقد ہوں۔ جورو بچے نہیں رکھتا کہ عاقبت اندیشہ چاہیے۔” وہ سب ہنسے اور وہ شیرینی سب حاضرین پر تقسیم کی۔