تنقید پر کوئی زیادہ کام نہیں ہو رہا

یہ تحریر 2587 مرتبہ دیکھی گئی

س:          والد اور والدہ کا نام۔

ج:           والد گرامی کا نام قاضی نذیر احمد اور والدہ محترمہ کا نام آمنہ بی بی۔

س:          سال اور تاریخ پیدائش ۔

ج:           تاریخ پیدائش 9 جنوری 1944 بمقام موضع شام نگر ضلع امرتسر (بھارت)

س:          کیا خاندان میں پہلے بھی کسی کو ادب یا تعلیم سے لگاؤ تھا۔

ج:           والد ، بھائی ، ماموں ، کزنز سب محکمہ تعلیم سے منسلک تھے۔ والد اورئینٹل ٹیچر اور فارسی کا اچھا ذوق رکھتے تھے ، ماموں، ماموں زاد اور بھتیجا شاعر ۔۔۔بہنوئی عربی کے اچھے عالم اور کئی دینی و مذہبی کتابوں کے مصنف۔

س:          آپ نے لڑکپن میں کبھی سوچا تھا کہ آپ شعبہ تعلیم سے وابستہ ہوں گے یا ادب شناس بنیں گے۔

ج:           الحمد للہ گھر کا ماحول علمی و ادبی تھا اس لیے ادبی رجحان بچپن سے ہی تھا اور حکم ابی کے تحت اسکول کے علاوہ گھر میں بھی فارسی پڑھنی ضروری تھی۔۔۔۔ ذہن میں یہ احساس کہیں جا گزیں ضرور تھا کہ شعر و شاعری کی وراثت سے کچھ حصہ میری قسمت میں ضرور ہو گا۔جہاں تک محکمہ تعلیم سے وابسطگی کا تعلق ہے تو یہ میری شدید خواہش ضرور تھی مگر والد کی اچانک جدائی کے باعث مجھے میٹرک کرنے کے فورا بعد  محکمہ زراعت کے ایک ذیلی ادارے  میں چھوٹی سی ملازمت کرنا پڑی باقی تعلیم پرائیویٹ طور پر حاصل کی پہلے پنجابی میں ماسٹرز اور  پھراردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور شعبہ اردو میں بطور لیکچرر تعینات ہوا۔

س:          کیا ابتدائی دور میں ایسی شخصیات کے پاس اٹھنے بیٹھنے کا موقع ملا جن کی وجہ سے آپ کے دل میں ادب شناسی کا جزبہ بیدار ہوا۔

ج:           جی نہیں میرا تعلق ایک چھوٹے سے قصبے عارف والا سے تھا ۔۔۔کسی ادبی شخصیت سے کوئی خاص رابطہ نہ تھا البتہ اس چھوٹے سے شہر میں مشاعروں کا خوب رواج تھا ۔۔ادبی انجمنیں بھی ہمیشہ موجود رہیں اور یہاں کی لائیبریری میں بہت سے ادبی رسائل یعنی نقاد ،قندیل،سبد گل ، لیل و نہار ، اوراق اور ادبی دنیا وغیرہ آتے تھے اور میں ان کا باقائدہ قاری رہا جس کے باعث طبیعت میں ادبی انشراح جنم لیتا رہا۔

س:          شعبہ تعلیم سے آپ کی کیا یادیں وابستہ ہیں۔

ج:           شعبہ تعلیم میری دلی تمنا اور میرا passion تھا اس لیے پڑھانے کے علاوہ کالجز کی لائیبریریوں سے حتی المقدور استفادہ کرنے کا شوق رہا نیز جس جس کالج میں رہا اچھے دوست ملے جو آج بھی دل و جان کے قریب ہیں۔

س:          جو اردو نصاب کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے کیا آپ اس سے مطمئن ہیں۔

ج:           اب کا تو مجھے کوئی خاص علم نہیں لیکن جس زمانے میں میں کالج سے منسلک تھا میرے نزدیک وہ نصاب میرے اطمینان کے مطابق نہیں تھا ۔۔۔یہ وہ نصاب تھا اور شاید اب بھی ایسا ہی ہو کہ اسے صرف ڈگری کے حصول اور نوکری حاصل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور اس سے زیادہ کچھ حاصل حصول بھی نہیں ۔۔۔علم کا جو اصل مقصد ہے کہ اس سے ایک مہذب اور صاحب علم انسان پیدا ہو ایسا بہت کم ہوتا ہے ۔۔۔امتحانی نظام انتہائی ناقص اور رٹو توتے پیدا کرنے والا ہے ۔۔۔ ریسرچ ورک نہ ہونے کے برابر ہے ۔۔ایم فل کے مقالے تک غیر معیاری اور ڈنگ ٹپاؤ قسم کے ہیں ۔۔یونیورسٹیاں دھڑا دھڑ سکالرز اور علامہ پیدا کرتی چلی جا رہی ہیں اور شاید ہی کوئی یونورسٹی ہو جس کا نام انٹرنیشنل رینکینگ میں احترام سے لیا جاتا ہو ۔۔۔مجموعی طور پر ہم من حیث القوم تعلیمی میدان میں زوال آمادہ ہوئے ہیں۔۔۔۔مگر خدا سے اچھی امید رکھنا ضروری ہے۔

س:          اگر نصاب میں تبدیلیاں ضروری ہیں تو ان کی نوعیت کیا ہونی چاہیے۔

ج:           نصاب تعلیم ایسا ہونا چایئے جو صرف ڈگری ہولڈر نہیں بلکہ اچھے اور تعلیم سے آراستہ نوجوان پیدا کرے جس کے لیے نیچرل سائینز اور سوشل سائینسز کا بہترین نصاب از بس ضروری ہے تالہ اچھے سائینسدان ، اچھے ریسرچرز ،اچھے انجنئیرز اور اچھے دانشور پیدا ہو سکیں جن میں نوکری کے ساتھ ساتھ ملک و ملت کی خدمت کا جذبہ بھی موجود ہو اور وہ فلاح انسانیت کا کام کر سکیں۔

س:          معاصر ادبی صورت حال پر آپ کی نظر ہے. کیا آفسانے، ناول، شاعری اور تنقید کے میدان میں ہمارے قدم آگے بڑھے ہیں یا رکے ہوئے ہیں۔

ج:           شاعری ، افسانے  میں ضرور کچھ اچھی چیزیں پرھنے کو ملتی ہیں مگر ناول کا کینوس چونکہ بہت وسیع ہے اس لیے اس میدان میں کام کرنے کی ضرورت ہے جب کہ تنقید پر کوئی زیادہ کام نہیں ہو رہا۔۔۔اس پر مزید توجہ درکار ہے۔

س:          کوئی نیا ادیب یا شاعر جس نے آپ کو چونکایا ہو۔

ج:           بہت سے ادیب اور شاعر اچھا لکھ رہے ہیں ۔۔۔ اس دور میں  ظفراقبال ،خورشید رضوی ، محمد سلیم الرحمن ، احمد مشتاق ، معنن نظامی ،ڈاکر ابرار احمد ، رفیق سندھیلوی ، فطرت سوہان اور ایک ابھرتا ہوا ادیب اور شاعر عرفان شہود سبھی چونکاتے ہیں ۔

س:          تیزی سے بدلتی دنیا میں، جہاں مصنوعی ذہانت کا بہت چرچا ہے،کیا ادب کی گنجائش رہ جائے گی۔

ج:           خاطر جمع رکھیں مصنوعی ذہانت کے پہلو بہ پہلو ادب زندہ رہے گا۔

س:          کیا اخباری زبان، جو وبا کی طرح پھیلتی جا رہی ہے، زبان کے حق میں زہر ثابت ہو گی.

ج:           نہیں میں اخباری اور صحافتی زبان سے دلبرداشتہ نہیں یہ بھی زبان کا حصہ ہی ہے ۔۔ادبی اور صحافتی زبان دونوں کے اپنے اپنے دائرہ ہائے کار ہیں۔

س:          اس کے علاوہ اگر آپ کسی معاملے پر اظہار خیال کرنا چاہیں تو خوب ہو گا۔

ج:           ملک عزیز

 پاکستان اللہ کی خاص عنایت ہے مگر بدقسمتی سے لوگوں میں عدم برداشت بہت بڑھتی جا رہی ہے ۔ خاص طور پر مذھبی عدم بداشت۔   ۔۔۔میرا خواب ایسا معاشرہ ہے جس میں لوگ ایک دوسرے کو برداشت کریں اور دلیل کے ساتھ اختلاف کریں۔وما توفیقی الا باللہ۔