تماشا مرے آگے

یہ تحریر 2347 مرتبہ دیکھی گئی

باہر جانے سے پہلے میں نے آخری بار قدِّ آدم آئینے میں اپنا جائزہ لیا۔ سیر سے میرا جو مقصد تھا اس کے پیشِ نظر میں ہمیشہ ایسا لباس پہنتا تھا جو صاف ستھرا ہو مگر بہت امیرانہ یا فیشن ایبل نہ ہو۔ معمولی لباس پہنے آدمی کو کم لوگ غور سے دیکھتے ہیں۔

میں نے بٹوے کا جائزہ لیا۔ رقم کافی تھی۔ نوکر کو یہ بتانے کے بعد کہ دوپہر کے لیے کیا کھانا تیار کرنا ہے میں باہر نکل گیا۔ موسم خوشگوار تھا۔ دھوپ بُری نہ لگ رہی تھی۔ کبھی کبھار ہوا کا خنک سا جھونکا آجاتا تو طبیعت بشاش ہوجاتی۔

گھومتے گھامتے جس آدمی کو میں نے سب سے پہلے تاکا وہ سڑک سے ذرا ہٹ کر کھڑا گزرنے والوں سے کہہ رہا تھا: ”ایک روٹی کا سوال ہے، میاں صاحب، حاجی صاحب۔“ لباس میلا کچیلا، شیو تھوڑا بڑھا ہوا۔ میں نے لو مبروسو کی کتاب کا بغور مطالعہ کیا تھا اور میں خراب اور بگڑے ہوے آدمی کا چہرہ دیکھتے ہی اس کے خبثِ باطن کا اندازہ لگا لیتا ہوں۔ اس بھیک مانگنے والے کے خدوخال سے عیاں تھا کہ وہ مجرمانہ ذہنیت کا مالک ہے۔

میں اس کے پاس جا کھڑا ہوا اور کہا: ”ہاں بھئی، کبھی سوچا ایک روٹی کا جواب کیا ہوتا ہے؟“

یہ سن کر وہ سٹپٹایا اور میری طرف دیکھنے لگا۔

”کیا چاہیے؟“ میں نے پوچھا۔

”میاں صاحب، دو دن کا فاقہ ہے۔ پانچ دس روپیے، حضور، مل جائیں تو گزارا ہوجائے۔“

میں نے کہا: ”ابے اس سے زیادہ تو تیری جیب میں موجود ہوں گے۔ جھوٹ موٹ فاقہ زدہ بنا ہوا ہے۔ شام تک ہزار دو ہزار پِیٹ لے گا۔“

”نہیں، حضور،“ وہ مسکین سی آواز میں بولا، ”غریبوں کو کون پوچھتا ہے۔ کبھی کوئی سخی مل جائے تو“

میں نے اس کی بات کاٹتے ہوے کہا: ”مجھے فقرے نہ دے۔ یاد کر، ہم دونوں جیل میں ساتھ تھے کہ نہیں؟“

تیر نشانے پر بیٹھا۔ اس کے چہرے پر گھبراہٹ طاری ہوگئی۔ اب تک اس نے مجھ پر توجّہ نہ دی تھی۔ جیل کا ذکر سن کر غور سے میری طرف دیکھنے لگا۔

میں نے کہا: ”اب مجھے یاد نہیں تُو کس جرم میں وہاں تھا۔ میں ڈکیتی کے الزام میں اندر تھا۔“

اس کے انداز سے مسکینی، چہرے سے مصنوعی نقاہت، سب غایب ہوگئی۔ پریشان ہوکر مجھے دیکھنے لگا اور بولا: ”میں نے تمھیں نہیں دیکھا۔ یاد نہیں آتا۔“

”مجھے یاد ہے۔ اتنا کافی ہے۔ مجھے یہ بھی پتا ہے شام کو تو گھر جائے گا۔ شیو کر کے، نہا دھوکر، صاف ستھرے کپڑے پہن کر، چرغے یا کڑھائی گوشت پر ہاتھ صاف کرے گا۔ صحیح کہتا ہوں نا؟“

”چھوڑو جی۔ تمھیں کیا، میں کیا کرتا ہوں، کیا نہیں۔ اپنی راہ لو۔“

”آج شام تک تیرے ساتھ رہوں گا۔ دیکھوں کتنی کمائی ہوتی ہے۔ ڈکیتی سے یہ کام اچھا معلوم ہوتا ہے۔“

”چلو بھی۔ کہاں سے آکے چِپک گئے!“

”روپیہ کہاں رکھتا ہے؟ بنک میں یا گھر میں؟“

”جاﺅ بھی۔ دفع ہو۔“

”میں بھی تیرے ساتھ کھڑے ہوکے بھیک مانگتا ہوں۔ مقابلہ ہوجائے۔ دیکھیں، کون زیادہ کماتا ہے۔“

وہ خوف زدہ ہوکر مجھے دیکھنے لگا۔ اتنے میں ایک بزرگ، عمدہ لباس پہنے ہوے، چھڑی ہلاتے، پاس سے گزرے۔ میں نے کہا: ”حضور، بات سنیے۔ یہ میرا بڑا بھائی ہے۔ گوانتاناموبے سے چھوٹ کے آیا ہے۔ اس کی مدد کرنا چاہتا ہوں تاکہ اپنے پانو پہ کھڑا ہوجائے۔ آپ بھی کچھ ہاتھ بٹائیں تو بھلا ہوگا۔“

ویسے تو بڑے میاں کیا رکتے لیکن گوانتاناموبے کا نام سن کر ان کے کان کھڑے ہوگئے اور لگے فقیر کو غور سے دیکھنے: ”تمھیں امریکی اٹھا کے لے گئے تھے؟ بڑا ٹارچر کیا ہوگا۔ ہاں، تمھاری حالت سے ظاہر ہے۔ الزام کیا لگایا تھا؟“

فقیر ہونّقوں کی طرح مجھے دیکھنے لگا۔ میں نے کہا: ”حضور، اس پر بڑا ظلم ہوا ہے۔ دماغی حالت صحیح نہیں ہے۔ اُلٹی سیدھی باتیں کرتا ہے۔ کہتا ہے امریکی چاند پر بھی لے گئے تھے۔“

بڑے میاں کی دل چسپی بڑھ گئی: ”اچھا! امریکی سالوں سے کچھ بعید نہیں۔ چاند کا حال اسے کچھ یاد ہے؟“

”حضور، اپنا پتا بتایئے۔ جیسے ہی اس کی حالت درست ہوئی میں آپ سے ملانے لے آﺅں گا۔ میں تو اس کی باتیں سن کر حیران ہوں۔ اتنا ظلم، توبہ توبہ!“

بڑے میاں نے جیب سے اپنا کارڈ نکال کر دیا اور بٹوے سے سو روپیے کا نوٹ مجھے تھمایا اور کہنے لگے: ”انتظار رہے گا۔“ یہ کہہ کر وہ تو چل دیے۔ میں نے سو کا نوٹ جیب میں ڈالا اور دس کا نوٹ نکال کر جعلی بھکاری کو دیا جو حواس باختہ نظر آرہا تھا۔ میں نے کہا: ”سوچ لے، ساتھ مل کر کام کرنا ہے یا نہیں؟ کل صبح یہیں آ کے ملوں گا۔“ یہ کہہ کر میں آگے بڑھ گیا۔ بیس قدم جاکر میں نے مڑ کر دیکھا۔ وہ، حسبِ توقع، میری طرف دیکھ رہا تھا۔ میں مسکرایا۔ وہ میرا پہلا شکار تھا۔

چند منٹ گھومنے پھرنے کے بعد مجھے ایک صاحب نظر آئے۔ تقریباً میرے ہم عمر۔ ٹائی لگائی ہوئی تھی۔ بظاہر متموّل یا کسی، اچھے عہدے پر فائز معلوم ہوتے تھے کیوں کہ ہاتھ میں ایک خاصا مہنگا سیل فون تھا۔

میں نے قریب جاکر کہا: ”ارے صاحب، کمال ہوگیا۔ اتنی مدّت بعد ملاقات ہوئی۔ وہ بھی اتفاق سے۔“

وہ صاحب ٹھٹک گئے اور مجھ پر نظر ڈالنے کے بعدبولے: ”آپ کون؟ معاف کیجیے، میں نے پہچانا نہیں۔“

”ارے یار، کیا زمانہ آگیا،“ میں نے کہا، ”سکول کے پرانے ساتھی کو بھول گئے۔ یاد نہیں، جب چند سینئر لڑکے، مچھلی کے شکار کے بہانے، ہمیں دریا پر لے گئے تھے اور تمھارے ساتھ بدفعلی کرنے لگے تھے۔ میں نے ہی شور مچا کر تمھیں بچایا تھا۔“

ان صاحب نے چیں بہ جبیں ہوکر کہا: ”کیا بکواس کررہے ہو؟ میں تمھیں جانتا تک نہیں۔“

”تو کیا آپ ساجد معین نہیں؟“ میں نے مصنوعی بھولپن سے پوچھا۔

”بالکل نہیں۔“

”ہو بہو کاپی ہیں، صاحب، آپ ساجد معین کی۔ حیران ہوں دنیا میں اتنی مشابہت بھی پائی جاسکتی ہے۔ آپ کے کوئی عزیز تو نہیں ہیں ساجد معین؟ خیر بھٹّا کھایئے گا؟ سامنے ریڑھی والا اچھے بھٹّے بیچ رہا ہے۔“

ان صاحب نے غصّے سے میری طرف دیکھا اور آگے بڑھنے کو تھے کہ میں نے کہا: ”میں صرف یہ بتانا چاہتا تھا آپ کے ایک کولیگ، جنھیں آپ سے دوستی کا بڑا دعویٰ ہے، آپ کی بیوی پر ڈورے ڈال رہے ہیں۔ میرا کام خبردار کرنا تھا، سو کردیا۔ اب آپ جانیں۔“

ان کے چہرے کی متغیّر ہوتی حالت سے اندازہ ہوا کہ میری بات چبھی ضرور ہے۔ ایسا لگا وہ مجھ سے کچھ پوچھیں گے لیکن ذرا سے تامّل کے بعد تیزی سے آگے بڑھ گئے، ایک رکشے کو ہاتھ دے کر روکا اور سوار ہوتے ہوے پلٹ کر غور سے میری طرف دیکھا، جیسے میرے چہرے کو یاد رکھنا چاہتے ہوں۔

آپ سوچ رہے ہوں گے میں یہ کیا کرتا پھر رہا ہوں؟ بات یہ ہے بیشتر لوگوں کی زندگیاں بے رس اور بے رنگ ہوتی ہیں۔ وہی روزانہ کے اکتادینے والے معمولات۔ میں ان کے معمول میں خلل ڈالنا اپنا فریضہ سمجھتا ہوں۔ مجھے یقین ہے میری بے تکّی حرکتیں اور باتیں لوگوں کو چند دن حیران اور پریشان رکھتی ہوں گی۔ زندگی میں مہملیت کا دخل ضرور ہونا چاہیے۔ یہ سڑکیں میرے لیے سٹیج ہیں۔ میں ڈرامے کرتا ہوں اور جن لوگوں کو چھیڑتا ہوں وہ جانے بوجھے بغیر میرے ڈراموں کے کردار بن جاتے ہیں۔ میں روز اس مہم پر نہیں نکلتا۔ مہینے میں بس ایک دوبار۔ ہر مرتبہ بالکل مختلف علاقے میں جاتا ہوں۔ شہر اتنا بڑا ہوگیا ہے کہ مجھے نئی جگہ ڈھونڈنے میں دقّت نہیں ہوتی۔ حلیہ اور لباس بھی بدلتا رہتا ہوں۔ کبھی پینٹ شرٹ، کبھی شلوار قمیض، کبھی شیروانی اور جناح کیپ، کبھی مصنوعی داڑھی، کبھی ہٹلری مونچھیں، کبھی گنجا، کبھی ہکلا، کبھی بہرا۔ کالی عینک لگانا بھی مفید ہوتا ہے کہ دوسرا آدمی آپ کی آنکھوں کا تاثّر جانچنے کے قابل نہیں رہتا۔

جب وہ صاحب، جنھیں میں نے ساجد معین قرار دیا تھا، رخصت ہوے تو میں ایک بس پر سوار ہوکر میوزیم کے پاس جا اترا اور آہستہ آہستہ بڑے ڈاک خانے کی طرف چلنے لگا۔ آخر ایک صاحب کو میں نے تاکا جو پروفیسر یا لیکچرار نہیں تو ادیب شاعر ضرور ہوں گے۔ ادھیڑ عمر کے تھے۔ بغل میں دو کتابیں دابے، بظاہر کچھ گنگناتے چلے جارہے تھے۔ میں نے انھیں جالیا۔ کہنے لگا: ”بات تو عجیب ہے لیکن مجبوری کا عالم ہے۔ سوال کے بغیر نہیں رہ سکتا۔“

انھوں نے مجھ پر اُچٹتی سی نظر ڈالی اور بولے: ”میرے پاس دینے کو کچھ نہیں۔“

میں نے کہا: ”جناب، بندہ سایل نہیں۔ صرف اتنا بتا دیجیے کہ میں کہاں ہوں؟ یہ کون سا شہر ہے؟“

جیسی کہ مجھے توقع تھی، وہ رک گئے اور لگے مجھے دیکھنے۔ شاید سمجھے ہوں کس پاگل سے واسطہ پڑ گیا ہے۔ پھر بولے: ”کیا مطلب؟“

”یہی کہ یہ جگہ میرے لیے بالکل اجنبی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا یہاں کیسے پہنچ گیا۔“

”کیسے پہنچ گئے؟ بھئی بس یا ٹرین سے آئے ہوں گے۔ آئے کہاں سے؟“

”میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔ اتنی عجیب عجیب موٹریں اور ڈھیروں پھٹپھٹیاں۔ لوگوں کی وضع قطع بھی اوپری ہے۔“

وہ کچھ پریشان نظر آئے، کہنے لگے: ”یہاں آنے سے پہلے آپ کہاں تھے؟ اس وقت آپ لاہور میں موجود ہیں۔“

”لاہور! میں کیا عرض کروں۔ میں دہلی میں ’رتن‘ فلم کا آخری شو دیکھ کر نکلا تھا۔ دیر ہوگئی تھی۔ گھر کے قریب پہنچا کہ چند لحیم شحیم آدمیوں نے مجھے دبوچ لیا۔ پتا نہیں، اس کے بعد کیا ہوا۔ تھوڑی دیر پہلے میں نے خود کو اُدھر، وہ جو توپ رکھّی ہے، اس کے پاس کھڑا پایا۔“

”دہلی میں ’رتن‘ فلم؟“

”اچھی فلم ہے۔ گیت بہت جان دار ہیں۔ ضرور دیکھیے۔“

”پرانی فلم ہے۔ آپ نے اب کیسے دیکھ لی اور وہ بھی سینما میں؟“

”پرانی! ارے صاحب، ابھی ۴۴ ۹ ۱ءمیں تو ریلیز ہوئی ہے۔“

”آپ کو معلوم ہے یہ کون سا سال ہے؟“

”نہیں۔“ میں نے بھولا بن کر کہا۔

”یہ بیس سو سولہ ہے۔ اکّیسویں صدی۔ آپ ستّر سال کہاں غایب رہے؟“

”بیس سو سولہ!“ یہ کہہ کر میں وہیں فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا اور تقریباً رونے لگا: ”ہائے میری بیوی، میرے بچّے۔ وہ کہاں گئے؟ یہ کیا ہوا؟“

ان صاحب کو میرے بارے میں واقعی تشویش پیدا ہوگئی۔ انھیں خیال آیا ہوگا کہ شاید میں پاگل ہوں۔ اگر پاگل نہیں ہوں تو جو کچھ بتا رہا ہوں وہ دیکھنے سننے میں کبھی نہیں آیا۔

تسلّی دینے کے انداز میں بولے: ”آپ پاکستان میں ہیں اور اگر یہی باتیں آپ نے کسی اور سے کیں تو ممکن ہے آپ کو بغیر پاسپورٹ اور ویزا یہاں آنے پر گرفتار کرلیا جائے۔ اس لیے “ اتنے میں ان کی جیب میں موبائل کی گھنٹی بجی۔ انھوں نے جیب سے موبائل نکالا تو میں نے مصنوعی حیرت کا اظہار کرتے ہوے کہا: ”یہ کیا چیز ہے؟“

”یہ فون ہے۔ آپ کے زمانے میں نہیں تھا۔“

”فون؟ جیب میں؟“

”دنیا بہت بدل چکی ہے۔ آپ کی سمجھ میں کچھ نہ آئے گا۔ دہلی میں کہاں رہتے تھے؟“

”قرول باغ میں۔“

”میں سوچ رہا ہوں کیا کِیا جائے۔ میں ہوسٹل میں رہتا ہوں۔ آپ کو وہاں ٹھیرا نہیں سکتا۔“

”اچھا، صاحب، چائے تو پلادیجیے۔ اگر اب سچ مچ بیس سو سولہ ہے تو میں نے ستّر سال سے چائے نہیں پی۔“

یہ سن کر اُن کے چہرے پر کچھ بشاشت آئی، بولے: ”یہ ریستوران سامنے ہے۔ آیئے۔ خالی چائے پی کر کیا کریں گے؟ کوئی اور چیز بھی آرڈر کردوں؟ شامی کباب، فرنچ توس یا کٹلس؟“

میں نے کہا: ”پہلے چائے پلادیں۔ کچھ ہوش آجائے۔“ ہم دونوں چائے خانے میں جا بیٹھے۔ چائے آگئی۔ وہ مجھ سے سوال جواب کرتے رہے لیکن ان کی بالکل سمجھ میں نہ آیا کہ میری کیا مدد کریں اور کیسے کریں۔ مجھے بھی یہ فکر لاحق ہو چلی تھی کہ ان سے چھٹکارا کیسے حاصل کیا جائے۔ خوش قسمتی سے وہ اُٹھ کر واش روم گئے۔ میں فوراً وہاں سے کھسک لیا اور رکشا پکڑ کے گھر آگیا۔ مجھے غایب پاکر ان پر کیا گزری، یہ بتانا نا ممکن ہے۔ یا تو مجھے پاکھنڈی سمجھے ہوں گے یا سوچا ہو کہ میں شاید دوبارہ کسی اور زمانے میں جا پہنچا۔