تعلیم الادب اور مذہبی اقدار

یہ تحریر 778 مرتبہ دیکھی گئی

(۳)

اس سوال کا جواب دینے کے لیے درج ذیل دو امور کا پیش نظر رکھنا ضروری ہے:

اوّل: مذہب اور ادب کے مماثلات اور فرق جن کی طرف پہلے اشارہ کیا جاچکا ہے اور جن کے نتیجے میں مذہبی تعلیم اور ادبی تعلیم دینے کے لیے مختلف طریقہ ہاے کار کی طرف اشارہ بھی ہو چکا ہے، اور دوم آڈن کی بیان کردہ مشکلات پر قابو پانے کے لیے مصنّفین کی جانب سے اختیار کیے جانے والے طریقے تاکہ ”مستقل“ اور دائمی، یا بالفاظ دیگر چند صفاتِ الٰہیہ کے لیے ان کی تڑپ یا ان تک رسائی کا اندازہ ہو سکے، خواہ وہ کسی ہیئت میں ظاہر ہو اور یہ بھی کہ طریق تعلم پر اس کا کیا اثر ہوتا ہے۔

جہاں تک اول الذکر کا تعلق ہے یہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ مذہب انسان کو بلاواسطہ خدا کی جانب بلاتا ہے اور اسے ایک ایسا نظام حیات بخشتا ہے جو اس میں ان اقدار کی تشویق و ترویج کر کے جن کی جڑیں صفات الٰہیہ میں پیوست ہیں اور جو اللہ نے انسان میں امکانات کے طور پر رکھ دی ہیں، اسے جسمانی، ذہنی، روحانی اور سماجی طور پر تیار کر کے خدا کے نزدیک لے آئے گا۔ ادب (سوائے دینی ادب کے جس کا اپنی انتہا میں وہی مقصد ہوتا ہے جیسا کہ اوپر مذکور ہوا) ان تمثالوں کے ذریعے جو اس کی زندگی اور اس کے ماحول سے اخذ کی گئی ہیں، اسے چند حقائق کے اس انفرادی ادراک تک لے جانا چاہتا ہے جو مصنف کے نزدیک مقامی، عارضی اور تغیر پذیر حقیقت سے ماورا ہوتا ہے۔ چوں کہ مذہبی اقدار کلّی نظام حیات کا نہایت ضروری حصہ ہوتی ہیں جو قدرت کی طرف سے انسان کو ودیعت ہوئی ہیں اس لیے ان کی تدریس براہ راست بحیثیت ایک علوی و آفاقی نعمت اور متعلق بہ کل کے کی جانی چاہیے۔ ادب انفرادی ادراک کی پیداوار ہونے کے ناتے کسی نظام حیات کی کلیت کا حامل نہیں ہو سکتا اور اسے اس حق TRUTH کے انفرادی و وجدانی ادراک کے طور پر پڑھنا اور پڑھانا چاہیے اور اگرچہ یہ ادراک علوی و آفاقی ہی کیوں نہ ہو، اس کے نامکمل اور جزوی ہونے کا احساس بھی ضروری ہے۔

ادب کا یہ وہ پہلو ہے جس کی تحسین، تدریس ادب کے محض آخری درجے ہی میں ممکن ہے اور اسے میں تجزیاتی درجہ کہوں گا۔ تفہیم و ادراک کی ابتدائی منزل زبان، موسیقیت اور ہیئت کی تحسین کے درجے میں ہوتی ہے۔ ہیئت، نظم، بیانیہ یا ڈرامے کی ساری ساخت کی جامع ہوتی ہے۔ جوں جوں طلبہ زبان، موسیقیت اور ساخت کے معانی کی تحلیل اور امتزاج کرتے جاتے ہیں اور ہیئت کی معنویت کی تفہیم کرنے لگتے ہیں، وہ کسی فن کار کے بارے میں اپنا جذباتی رویہ بھی ظاہر کرنے لگتے ہیں۔ چوں کہ جذبات کے ابھارنے ہی سے وہ ذریعہ ہاتھ لگتا ہے جس کی مدد سے قاری کو حقیقت کی اس دنیا میں لے جایا جاسکتا ہے جس کا مصنف نے وجدانی سطح پر ادراک کیا ہو، اس لیے طلبہ کو جھوٹے، فرسودہ اور سچے جذبات کے مابین فرق سے آگاہی کی تعلیم دینی چاہیے۔ یہیں استاد اور شاگرد دونوں کے لیے یہ امر ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ ادبی روایت سے کامل طور پر آگاہ ہوں تاکہ طلبہ زبان اور موسیقیت کے استعمال کا اندازہ کر سکیں اورپیش پا افتادہ باتوں اور جذباتی دھارے پر نہ بہنے لگ جائیں، یہی وہ مقام ہے جہاں ادب میں اظہار پانے والی صداقت کی آفاقیت اور علویت کے دائرہ کار اور گیرائی کا اندازہ لگانے کا آغاز ہوتا ہے۔ مذہبی تجربے کا معیار جس کا پیچھے ذکر ہوا، اس تجربے کے لیے جو ادب میں مندرج ہوتا ہے، ایک معیار مہیا کرتا ہے۔ اس معیار کو زبردستی ٹھونسا تو نہیں جاسکتا لیکن یہ ایک تیار حوالہ ضرور فراہم کر دیتا ہے بشرطے کہ استاد جو تجزیے کے عمل کی تدریس کرتا ہے، اتنی وجدانی حس رکھتا ہو جو ایسے تجربے کے لیے ضروری ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جب ادب کی جانب ردعمل جذبات کو ابھارتا ہے اور قاری اپنے تجربے کی تنگناے سے نکلنے پر مجبور ہو کر تجربے کی ایک منفرد اور نئی دنیا میں آنکلتا ہے اور ایک مدبرانہ شعور کی طرف راغب ہو جاتا ہے تو اس کی متجسسانہ اور ایجابی روح ایک وجدانی تجزیے کا آغاز کرتی ہے بشرطے کہ اسے اپنے دائرہ کار کے باب میں فکری ادراک و یقین حاصل ہو۔ اگر اسے وہ بصیرت حاصل نہیں جو یقین کے نتیجے میں ملتی ہے تو اسے اپنے ردعمل کی نوعیت اور معیار کا تجزیہ کرنے کے بعد رک جانا چاہیے۔ جس شخص کی گرہ میں وجدانی تیقن موجود ہو، وہ اپنے ردعمل اور تجزیے کے ذریعے دوسروں کی روح کو ملتہب کر سکتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ مصنف کس حد تک احساس امکان کی ترسیل میں کام یاب ہوا ہے۔ احساس امکان کی تخلیق کے ذریعے، علامت قلب کو متاثر کرنے اور زندگی کے بارے میں ”حق“ کی ترسیل میں کام یاب ہو جاتی ہے۔

ادب کی یہی علامتی نوعیت ہے جو ہمیں اس دوسرے نکتے تک لے جاتی ہے جس کا ابتداءً ذکر ہوا ہے۔ یعنی ان طریقہ ہائے کار کا جو بیسویں صدی کا ادیب اس وقت اختیار کرتا ہے جب اسے احساس ہوتا ہے کہ خیر و شر کے متفقہ طور پر قبول کیے ہوئے معیار کی غیر موجودگی کے باعث ابلاغ ختم ہو گیا ہے۔ جب اسے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اگر وہ مذہب پر مبنی کسی روایتی معیار قدر کو اپناتا ہے تو اس کے لیے احساس امکان پیدا کرنا مشکل ہو گا، وہ علامتیں تراشنا شروع کرتا ہے یا پھر ایسی قدیم الامثال ARCHETYPAL علامتیں تلاش کرنے یا ان پر زور دینے لگتا ہے جن سے روایتی ادب ہمیشہ اعتنا کرتا آیا ہے، اور یا پھر قدیم اساطیر کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور انھیں نئی معنویت عطا کرتا ہے۔ فکر کی ان علامتوں کی حقیقی معنویت کا فہم حاصل کرنے کے لیے جو محض گفتگو کی علامتیں نہیں ہوتیں، استاد کا فرض ہے کہ وہ متعدد زبانوں کے ادب کا مطالعہ کرے جن میں علامت کے معانی مشرح ہوتے ہیں اور انھی خطوط پر خود سوچنے کی عادت ڈالے۔ جیسا کہ کمار سوامی نے کہا ہے ”اس آفاقی اور آفاقی سطح پر قابل فہم زبان میں اعلیٰ ترین حقائق بیان ہوئے ہیں۔“(۲۸) علائم اور اساطیر اس وقت ہماری مدد کو آتے ہیں جب ہماری لاہوتیت اور روحانیت زوال آمادہ ہو جاتی ہے۔ اسی سبب ییٹس، ایلیٹ اور کافکا کے جیسے عظیم لکھنے والے نئی اساطیر تراشتے ہیں، یا روایتی اساطیر کو نئے معانی دیتے ہیں تاکہ انسانی اور کائناتی وقوعات کے منہاج کا ایسا تعین کر سکیں جیسا انھوں نے محسوس کیا۔

چناں چہ استاد ادبیات کا یہ فرض ہے کہ جمالیاتی حظ کو ادب عالی کا مقصد قرار دے کر اس پر اصرار نہ کرے۔ جمالیاتی حظ تو استدلالی حس کو لوری دے کر سلانے کا محض ایک ذریعہ ہے۔ اور قاری کو مصنف کی پیش کردہ حقیقت حقہ کے درجہء تفکر تک لے جانے کا ایک وسیلہ۔ گویا ادبی تعلیم مذہبی تعلیم کا تکملہ ہے۔

یہی وہ مقام ہے جہاں استاد کو ایک اہم رول ادا کرنا ہوتا ہے۔ مصنّفین آج کل اکثر اپنے ذاتی فلسفے اور نظریے گھڑتے رہتے ہیں۔ استاد کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اس امر کی نشاندہی کرے کہ مصنف کہاں اپنے تجربے کی راہ سے بھٹک گیا ہے، مصنف کی تشکیل کردہ اقدار کس حد تک مبہم، پراسرار، ذاتی اور موضوعی ہیں اور وہ کس طرح ادب کو ایک ایسے   فلسفہء حیات کی ترسیل کے لیے استعمال کرنے کی کوشش میں ہے جو اخلاقی اور روحانی تجربے کا براہ راست نتیجہ نہیں۔ ”جب کوئی مصنف کسی فلسفے کا پروپیگنڈہ کرنے کی کوشش کرے تو اس پر ماوراء ادب نقطۂ نظر سے تنقید کرنی چاہیے جو اصلاً ایک مفکر کا نقطۂ نظر ہوتا ہے۔(۲۹)

ابھی میں نے یہ بات کہی تھی کہ استاد طلبہ کی تربیت اس طرح کرے کہ وہ مصنف کے پیش کردہ حقائق پر صحیح طور پر اپنا ردعمل ظاہر کر سکیں، اس کے ساتھ ہی ساتھ میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ استاد کا رول بحیثیت ایک رہنما اور مرشد کے کیا ہے تاکہ وہ زیر مطالعہ فن پارے کے حدود کی طرف بھی اشارہ کر سکے اور بتا سکے کہ ”انسانی صورت حال کے بالمقابل مصنف کا جذباتی ردعمل کس حد تک اپنے روزبروز متغیر ہونے والے رسوم و رواج کا پابند ہے اور وہ کس حد تک اپنی توجہ ان اصلی آفاقی انسانی مسائل پر مرکوز کر سکنے میں کام یاب ہوا ہے، جن کا احاطہ سماجی و ثقافتی زوائد نے کر رکھا ہے۔ یا جو اپنے اندرمعاصر سماجی اور تہذیبی صورتِ حال کے باعث ایک خاص طرح کی پیچیدگی یا انحراف رکھتے ہیں۔“(۳۰)

استاد ان سب مطالبات سے اسی وقت عہدہ برآ ہو سکتا ہے جب وہ خود زندگی کے بارے میں ایک معیار کا حامل ہو۔ اسلامی نقطۂ نظر سے مذہب اسے انسانیت کا ایک شریف ترین تصور ارزانی کرتا ہے اور اسے زندگی کرنے کا ایک ایسا طریقہ بتاتا ہے جو اسے عظمت کی انتہائی معراج تک پہنچنے کے قابل بنا دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مذہب اسے وہ دوسرا راستہ بھی دکھا دیتا ہے جو تباہی کی طرف جاتا ہے۔ گویا مذہب اسے صحیح اور غلط اور خیر و شر کا ایک معیار فراہم کر دیتا ہے۔ اگر استاد اس معیارکو اپنے وجود کا حصہ بنا لیتا ہے تو اس صورت میں وہ زندگی کے بارے میں مصنف کے ردعمل، اس کے دائرہ کار، اس کے تنوع اور انسانی صورتِ احوال میں اس کے مخصوص انفرادی طرز عمل کا انداز لگانے میں کام یاب ہو جاتا ہے۔ چوں کہ مختلف مصنّفین کے ردعمل لازماً مختلف ہوں گے اس لیے استاد مطالعے کے لیے ادبی کارناموں میں سے ایک متنوع گلدستہ منتخب کر سکتا ہے۔ طلبہ اس صورت میں متنوع ادراکات اور تاثرات دیکھ پرکھ سکتے ہیں۔ وہ اس قابل ہو جائیں گے کہ مختلف ادبی کارناموں میں گندھے ہوئے مخصوص اور متنوع حقائق کا تقابل اور تجزیہ کر سکیں۔ چوں کہ مذہب ایک مکمل ضابطہئ زندگی فراہم کرتا ہے اس لیے وہ طالب علم کو زندگی کے ایک کا مل معیار کے حوالے سے ادبی اثرات کی کوتاہیوں، نارسائیوں اور عظمتوں کی تفہیم کے قابل بنا دے گا۔ تدریس کے اسی پہلو کے ضمن میں میں نے کہا تھا ”استاد کا منصب یہ نہیں کہ وہ اخلاقی طور پر نازک سوالوں  کو پیشگی نپٹا ڈالے۔ اسے ادبی کارناموں کا ایسا انتخاب کرنا ہے جو اخلاقی حسیات کے ضمن میں موزوں تخالف اور تضادات مہیا کرے گا اور ان حسیات پر جن کا یہ حامل ہے، آزاد اور بے لاگ نقد و جرح کی ضمانت فراہم کرے گا۔“(۳۱)

میں اس مبحث کو پانچ سال پہلے ادبی تعلیم و اخلاقی تعلیم کے مابین رشتوں پرلکھے گئے اپنے مضمون سے ایک اقتباس نقل کر کے ختم کروں گا۔ میں نے لکھا تھا:

”اگر جمالیاتی تعلیم سے ”جمیل“ اور فنون میں اس اصطلاح کے معانی کو مکمل اور موزوں طور پر سمجھنے کی اہلیت کو ترقی دینا مقصود ہے، تو اس کے ساتھ اخلاقی تعلیم کا تکملہ ضروری ہے تاکہ جمیل اور صحیح کے درمیان رشتے کو محسوس کیا اور سمجھا جاسکے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے، جب حسین شے کو ”جمال“ کے عظیم اصول کے مظہر کے طور پر سمجھا جائے جو صفات الٰہیہ میں سے ہے۔ جمالیاتی معاملوں میں در آنے والے اختلافات دراصل مختلف ادوار میں انسانی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر مختلف انداز میں زور دینے کے باعث واقع ہوتے ہیں __ ورنہ انسان آفاقی اور دائمی طور پر ایک ہی مخلوق ہے۔“

”اگر ہم چاہتے ہیں کہ جمالیاتی تعلیم انسان کی مکمل شخصیت کی تہذیب کا جزو لازم بن جائے تو اس صورت میں ضروری ہے کہ روحانی، عقلی اور جمالیاتی ادراکات میں ایک توازن پیدا کیا جائے۔ اگر ہم اس بات پر مصر ہوں کہ ”خالص حسیت“ ”خالص فکر“ یا ”خالص جمالیاتی ادراک“ نام کی کسی چیز کا وجود ہوتا ہے تو اس صورت میں ہم ایک غیر مربوط اور ٹوٹی پھوٹی شخصیت کو جنم دیں گے۔ چوں کہ ”حق“ اور ”جمال“ اللہ کی  صفات ہیں، اور چوں کہ یہ تمام کائنات اللہ کی صفات اور قویٰ کی مظہر ہے یا بالفاظ دیگر اس کی صفات و ملکات ہیں، سو ادب و فن میں اس حق اور جمال کا منعکس کرنا اصلاً زندگی میں ان صفاتِ سدیدہ کا منعکس کرنا ہے، یوں جمالیات، فنون میں شامل تعلیمِ جمال کو تعلیمِ اخلاق سے مربوط کرتی ہے۔“(۳۲)

حواشی:

۱۔            اسلامک پرنسپلز اینڈ میتھڈز اِن دی ٹیچنگ آف لٹریچر (سید علی اشرف) مشمولہ در کتاب: فلاسفی، لٹریچر اینڈ فائن آرٹس (مرتبہ سید حسین نصر) ہوڈراینڈ سٹاؤٹن اینڈ کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی، لندن ۱۹۸۲ء، ص ۲۲۔۴۸۔

۲۔           RECOMMENDATION 1.1 مشمولہء کانفرنس بک، کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی، جدہ، ۱۹۷۸ء ص ۷۸۔

۳۔           ایضا، ص ۷۸۔

۴۔           جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا: ”غور کرو، تمھارے رب نے فرشتوں سے کہا۔ میں زمین پر اپنا نائب بناؤں گا۔“ ۳۰: ۲۔

۵۔           القرآن، ۱۱۰: ۱۷۔

۶۔           حدیث قدسی۔

۷۔           دی ٹرانسنڈنٹ یونٹی آف ریلجنز (فرتھجوف شوآں) فیبر اینڈ فیبر، لندن ۱۹۵۳ء، ص ۱۱۔۱۲۔

۸۔           دیکھئے کانفرنس بک (بحوالہئ سابقہ) ص ۷۸۔۷۹۔

۹۔           اثینا اینڈ ہیفاسطس، مشمولہ جرنل آف انڈین سوسائٹی آف اورینٹل آرٹ، جلد ۱۵،

۱۰۔         فگرز آف سپیچ آرفگرز آف تھاٹ (آنند کمار سوامی) لندن ۱۹۴۶، ص ۲۱۱۔

۱۱۔          دیکھئے امام غزالی ؒ کی ”احیاء علوم الدین“ (مترجمہ فضل کریم) ڈھاکہ ۱۹۷۱، ص ۲۱۱۔

۲۱۔         فگرز آف سپیچ آرفگرز آف تھاٹ (محولہ سابقہ) ص ۱۵۱۔

۱۳۔         اوڈ ٹو اے نائٹٹنگیل۔

۱۴۔         اوڈ آن انٹیمیشنز آف امارٹیلٹی۔

۱۵۔         کیٹس کے خطوط۔

۱۶۔          ٹائمیس TIMAEUS، ۲۸ B, A (مترجمہ جووٹ)۔

۱۷۔         انیٹیڈز جلد چہارم ۴، ۲۔

۱۸۔         کری ایٹوامیجینیشن اِن دی صوفزم آف ابن عربی (ہنری کوربیں) ترجمہ رالف منہائم، روٹلیج اینڈ کیگن پال، لندن ۱۹۶۱، ص۲۱۷ پورا باب چہارم ملاحظہ کریں جس کا عنوان ہے:

                “THEOPHANIC IMAGINATION AND CREATIVITY OF HEART”

                ص ۲۱۶-۲۴۵۔

۱۹۔          ایکہارٹ ECHART ص ۱۸- ۱۹۔

۲۰۔        دی ٹرانسفارمیشن آف نیچر ان آرٹ، کیمبرج، میسا چوسٹس، ۱۹۳۵ء، ص ۷۶۔

۲۱۔         پوئٹری اینڈ پروز آف ولیم بلیک مرتبہ جعفری کینز، لندن ۱۹۴۸، ص ۸۲۱۔

۲۲۔        FANCY (کیٹس)

۲۳۔        “DEATH SHALL HAVE NO DOMINION” (ڈیلن ٹامس)

۲۴۔        ”بائیو گرافیا لٹریریا“ (کالرج) ۱۹۰۷ء ص ۲۰۲۔

۲۵۔        دی پوئٹ اینڈ دی سٹی مشمولہ:

                “THE DYER’S HAND & OTHER ESSAYS” (ایچ۔ آڈن) ونٹیج بکس، امریکی ایڈیشن، ۱۹۶۸ء، ص ۷۸۔

۲۶۔         ایضاً ص ۷۸۔

۲۷۔         ایضاً ص ۷۹۔

۲۸۔        فگرز آف سپیچ آرفگرز آف تھاٹ (محوّلہ سابقہ) ص ۱۲۲۔

۲۹۔         اسلامک پرنسپلز اینڈ میتھڈز ان دی ٹیچنگ آف لٹریچر (اشرف) محوّلہ سابقہ ص ۲۹۔

۳۰۔        ایضاً ص ۳۱۔

۳۱۔         ایضاً ص ۳۷۔

۳۲۔        ایضاً ص ۳۹-۴۰۔