تعلیم الادب اور مذہبی اقدار

یہ تحریر 670 مرتبہ دیکھی گئی

(۲)

لیکن ادب، اکتسابی علوم کی دوسری شاخوں مثلاً فطری اور سماجی علوم سے مختلف چیز ہے اور اپنے حصولِ علم کے منہاج اور اپنی پیش کش کے طریق کے اعتبار سے علم بالوحی سے قریب ہے۔ ایک سائنس دان ایک مفروضے سے اپنے کام کا آغاز کرتا ہے اور اس کھوج میں رہتا ہے کہ یہ کہاں تک سچ ہے۔ جو لوازمہ وہ اکٹھا کرتا ہے اس کی مدد سے وہ تعمیم کرتا اور اپنے نتائج کو مستحکم کرتا ہے۔ کارل پوپر الہام اور القاء کو مفروضے HYPOTHESIS کی بنیاد قرار دیتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ بات درست ہو لیکن اس مفروضے کی صداقت ثابت کرنے کا طریقِ کار شک، حصول لوازمہ، دلیل کاری، مفروضے کو رد کرنے کی کوشش اور ترمیم، تردید یا ثبوت حق ہے۔ سماجی علوم میں بھی ایسا ہی طریق کار اختیار کیا جاتا ہے اور یہاں بھی نتائج کا تعین استقرائی طریق سے کیا جاتا ہے۔ ادب عموماً زندگی کے متعلق بعض حقائق کی وجدانی تعبیر پر تکیہ کرتا ہے۔ ان حقائق کو تخیل اپنی گرفت میں لیتا ہے اور انھیں نظم، ناول یا ڈرامے میں ڈھال لیتا ہے۔ یہ ادراک اپنی آفاقی اور علوی دونوں صورتوں میں ایک پیغمبر کے وصول کردہ الہام سے بہت مماثل ہوتاہے۔ دونوں زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتے ہیں لیکن جہاں ایک طرف ادبی صداقت، انفرادی تجربے، بصیرت اور اہلیت کی محدودیت کی اسیر ہوتی ہے، وہاں دوسری جانب پیغمبرانہ الہام ان نارسائیوں سے آزاد ہوتا ہے۔ کیوں کہ یہ اس شے کا اظہار کرتا ہے جو خدا کو اظہار کرنا مقصود ہوتی ہے۔ نہ وہ جس کے جاننے کی خواہش پیغمبر کو ہوتی ہے۔ ان دونوں کے ادراک حقائق کی حالت بھی مماثل ہوتی ہے ایک پیغمبر ذاتی اغراض کے سارے خیال اپنے ذہن سے نکال کر اپنی رضا، رضاے الٰہی میں گم کر دیتا تھا اور یوں زندگی کے بارے میں اپنے پورے رویے کو ایثار پیشہ، بے نیاز اور ذاتی تعصبات سے آزاد کر ڈالتا تھا تاکہ اس کا قلب صداقت کا آئینہ بن جائے اور انصاف، رحم اور دیانت داری کے اصول اس کی ذات کے حوالے سے برسرِ عمل ہو جائیں۔ اسی کا نام ”تزکیہ“ تھا۔ ایک پیغمبر یہ سب کچھ شعوری طور پر روزہ، نماز اور یادِ خدا کے ذریعے کرتا تھا۔ روایتی ادبا اور ماہرین فنونِ لطیفہ کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ انھیں اس بات کا یقین تھا کہ ان کے قلوب بھی حقیقت مطلق کی عکاسی اسی صورت کر سکتے ہیں جب وہ اپنا تزکیہ کریں اور اکثر اوقات وہ روزہ اور نماز کے ذریعے ایسا کرتے تھے۔ عہد حاضر کے وہ لکھنے والے جو خدا یا کسی مخصوص مذہب پر یقین نہیں رکھتے وہ بھی کسی نہ کسی طریقے سے اپنا تزکیہ ضرور کرتے ہیں، اور اسی شے کو کالرج نے ”اعتزال“ DETACHMENT اور میتھو آرنلڈ نے ”بے نیازی“ “DISINTERESTEDNESS” سے تعبیر کیا ہے۔ آنند کمار سوامی اس کی وضاحت کرتے ہوئے اسے ”اناے روحانی یا اناے عقلی کے سامنے آرٹسٹ کی حساس نفسیاتی انا کے اذعان“ سے تعبیر کرتا ہے۔(۹)

جہاں روایتی ادیب یا فن کار اس تمام ”عمل“ (تیاری کا عمل) کو ”عبادت“(۱۰) کے عمل ہی کا ایک حصہ سمجھتا تھا وہاں ایک جدید لکھنے والا اسے ”شدید باطنی ارتکاز کی زوائد سے آزادی کی کوشش“ سے تعبیر کرتا ہے۔ خواہ لکھنے والا ذاتِ خداوندی کا شعور رکھتا ہے یا اس سے عاری ہے، مقصد ایک ہی ہے ___ یعنی وجود خارج کا نارسائیوں سے اوپر اٹھنا اور یہ وہ نارسائیاں اور محدودیتیں ہیں جو خارجی کائنات سے روزبروز کے حاصل کردہ تجربات نے ہماری روح اور ہماری روح کی آنکھوں پر نقاب ڈال کر مسلط کر رکھی ہیں۔ گویا یہ سارا عذاب جذبات اور حِسّی ادراکات کا لایا ہوا ہے۔ اگر ادیب حسیت اور خواہشوں کی اس اقلیم کو عبور نہیں کر پاتا اور شعور کی اس منزل تک نہیں پہنچ جاتا جو اس کے ویژن کے سلسلے میں اسے معروضی نقطۂ نظر اپنانے میں معاون ہوتی ہے تو ایسی صورت میں وہ اپنے ادراکات کی تمام وسعتوں میں بھی حسیات اور خواہشات کے اصلی مقام کو نہیں سمجھ سکتا۔

یہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر تخلیقی عمل کے فکری اور عقلی دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔ چناں چہ شاعر جسمانی حسن سے مرتعش ہونے والی حسیت سے گزر کر دنیا میں موجود حسن مطلق تک پہنچتا ہے۔ امام غزالی کہتے ہیں کہ دنیا میں موجود ہر حسن اللہ کے حسن مطلق و قائم اور  نورِ ارفع کا ایک شرار جستہ ہے۔ پس کیا وہ اس ذات سے محبت نہیں کر سکتا، جو ازل سے جمیل ہے اور حسن و جمال کا اعلا ترین مبداء ہے۔(۱۱)

یہی خیال متکلمانہ اصطلاح میں یوں بیان کیا گیا ہے: تفکر کا سارا مقصد__ وجود کی اس منزل تک پہنچتا ہے جہاں عالم و معلوم __ کے درمیان کوئی امتیاز نہیں رہتا۔(۱۲) یہی وہ منزل ہے جہاں شاعر بلبل سے مخاطب ہو کر کہتا ہے ”میں تو پہلے ہی ترے ساتھ ہوں۔“(۱۳) یا ورڈزورتھ کی طرح فطرت کو نبض کی طرح دھڑکتا محسوس کرتا ہے بلکہ اس سے بھی ماورا ہو کر ”ایسے حقائق کا لحن سنتا ہے جو ایک دفعہ منکشف ہوتے ہیں تو لگتا ہے کہ اب ان کے لیے فنا مقدر نہیں“ اور یہ بھی کہ ”ہماری روحیں اس لافانی سمندر کو دیکھ رہی ہیں۔“(۱۴) یہی وہ تجربہ اور احساس ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کیٹس نے کہا تھا کہ ”ورڈز ورتھ اپنی فکر رسا کے خانہئ پنجم تک جا پہنچا ہے۔ جب کہ میں ابھی تک خانہئ اوّل ہی میں رینگ رہا ہوں۔“(۱۵)

افلاطون کے خیال میں تیقن کی یہ صورت اس وقت ممکن ہوتی ہے جب تخلیق کار (ادیب یا موجد) ”قائم“ اور ”غیر متغیر“ کی جانب متوجہ ہوتا ہے اور اپنی تخلیق کی ہیئت اور فطرت کو غیر متغیر کے ڈھرّے پر استوار کرتا ہے__ لیکن جب اس کی نگاہ محض مخلوق پر ہوتی ہے اور وہ ایک تخلیق کردہ اور حادث نہج کو استعمال میں لاتا ہے تو اس کی تخلیق ناقص رہ جاتی ہے۔(۱۶) فلاطینوس شعور کی اس منزل اور لکھنے والے اور اس کو سوجھنے والی تمثیل صداقت کے مابین رشتے کی تشریح ان الفاظ میں کرتا ہے ”متفکرانہ خواب و خیال کی حالت میں خصوصاً جب یہ واضح ہو، ہم اپنی شخصیت کو بھول جاتے ہیں۔ ہم اپنے آپ میں تو ہوتے ہیں لیکن ہمارے عمل کا رخ اس شے خیالی کی طرف ہوتا ہے جس کے ساتھ قائل مشخص ہو جاتا ہے۔ وہ خود کو اس کی صورت میں دیکھتا ہے جسے متشکل ہونا ہو۔ وہ خواب و خیال اور تخیل کے زیرِ عمل ایک ہیئت مثالی کا روپ دھار لیتا ہے جب کہ بالقوّہ وہ اپنے آپ میں ہوتا ہے۔“ (۱۷)

یہ بات واضح ہے کہ اگر شاعر کو کسی شئے مستقل و قائم کی تلاش ہے تو وہ اسے خارجی دنیا میں نہیں پاسکتا کیوں کہ یہ تو ہر دم متغیر ہے، صرف اس کا جوہر ثابت اور پائیدار ہے۔ اسلامی مابعدالطبیعیات میں ابن عربی متخیّلہ کے اس تحقیقی طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے اسے ایک ایسی تلاش سے تعبیر فرماتے ہیں جو عالم مثال اور اس کے ادراک کے لیے ہے__ ایک ایسا عالم جو روحانی حقائق اور حسی دنیا کے درمیان ہے__ ایک ایسا برزخ جو علامت کے روپ میں اپنی معراج کو پہنچتا ہے۔ (۱۸)

ثابت یہ ہوا کہ شاعر محض اپنے حسی تجربے کی تشکیل نو کر کے اسے قاری کے سامنے پیش نہیں کرتا، وہ تو اپنی اس بصیرت کی مدد سے جو اس کے اندر کا مطلق اسے عنایت کرتا ہے، اپنی روح کو اپنے تجربے کے بے نہایت معنی تک پہنچانے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ ایکہارٹ بھی کم و بیش ایسی ہی بات محسوس کر رہا تھا جب اس نے کہا تھا ”خود کو بھول جاؤ اور خدا کو وہ کچھ کرنے دو جو تمھیں کرنا تھا۔“(۱۹) اسی کی وضاحت کرتے ہوئے کمار سوامی کہتا ہے: ”تمثال کی رفعت ارادے کی فعلیت کا نتیجہ نہیں __ بلکہ توجہ کا نتیجہ ہے__ جب ارادہ منفعل ہو۔“ (۲۰) اور یہی وجہ ہے کہ بلیک نے کہا تھا: ”صرف ایک قوّت ہی شاعر بناتی ہے یعنی متخیّلہ __ الوہی تاثرِ نظر۔“(۲۱) یہی وجہ ہے کہ کیٹس متصورہ سے خطاب کرتے ہوئے اسے بسیط ہونے اور حسن مطلق، تک رسائی حاصل کرنے کی التجا کرتا ہے۔(۲۲) اور ڈیلن ٹامس فتویٰ دیتا ہے کہ ”موت کے لیے کہیں جائے اقتدار نہ ہوگی۔“(۲۳)

کولرج اسے قوت متخیّلہ سے تعبیر کرتا ہے۔ جسے وہ ایک ایسی صلاحیت قرار دیتا ہے جس کا کام ہے:

“The repetition in the finite mind of the eternal act of creation in the infinite I AM”.(۲۴)

مصنف کا بڑا مقصد فطرت کی محض ایسی عکاسی نہیں ہوتا جیسی وہ خارج میں موجود ہوتی ہے۔ یا انسانی زندگی کی ایسی تصویر کشی جیسی یہ واقعی زندگی میں ہوتی ہے کیوں کہ دونوں خارجی طور پر غیر مستقل اور متغیر ہوتی ہیں۔ آج انسانی معاشرہ بڑی تیزی اور شدت سے تبدیل ہو رہا ہے اور تخلیق کے لیے، وجود و موجود کے لیے کسی مستقل اصول کی یافت اور اصول کے اظہار کے لیے کسی مناسب تمثال کی تلاش مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ کسی ایک تمثال کو اکملیت اور دوام کی علامت اور انسانی فطرت کے معیار کے طور پر برتا جاسکے تاکہ اس کی مدد سے تخلیق کار اس صداقت کی نمایندگی کر سکے جسے اس نے دریافت کر رکھا ہے۔

اس بیسویں صدی میں جیسا کہ آڈن نے کہا ہے تخلیق کار کے لیے انتہائی مشکل ہو گیا ہے کہ وہ خارجی دنیا یا انسانی فطرت میں یہ خصوصیات دریافت کرلے اور تمثالوں کے ذریعے انھیں اس طرح پیش کر دے کہ اس کے مخصوص احساس کی نمایندگی ہو سکے۔ آڈن کہتا ہے کہ ”اس عہد میں اس مادی کائنات کے دوام کا یقین کافور ہو چکا ہے“ کیوں کہ سائنس ہمیں فطرت کی ایک ایسی تصویر عطا کرتی ہے جو بن بگڑ رہی ہے اور جس میں آج وہ کچھ نہیں جو کل تھا اور جو کل ہو گا۔ سائنس نے ایک جدید فن کار کے لیے  اس بات پر یقین کو مشکل بنا دیا ہے کہ وہ ایسی صورت میں جب کہ اس کے سامنے نقل کے لیے کوئی مستقل نمونہ ہی نہیں، کوئی مستقل اور پائیدار شے تخلیق کرلے گا۔ وہ اپنے آباؤ اجداد کی نسبت اکملیت کی تلاش ترک کرنے اور اسے تضییعِ اوقات سمجھنے میں زیادہ فیاض واقع ہوا ہے اور محض خاکوں اور ارتجالی  تک بندیوں پر قانع ہو گیا ہے۔ (۲۵)

آڈن مزید یہ لکھتا ہے کہ ایک وقت تھا جب لوگوں کو یقین تھا کہ حسی مظاہر، باطنی اور غیر مرئی دنیا کی غیر مرئی نشانی تھے لیکن دونوں کو حقیقی اور مرئی سمجھا جاتا تھا لیکن اب   چوں کہ سائنس نے ان حسیات کے ذریعہ کیے جانے والے سادہ مشاہدات پر ہمارے اعتقاد کو تباہ کر دیا ہے، سو ایسی صورت میں مصنّفین فطرتِ خارجی کے بارے میں گمان نہیں رکھتے کہ اس کی سچی یا جھوٹی نقالی ممکن ہے، (۲۶) لیکن سب سے بڑا دھچکا تو یہ لگا ہے کہ انسانی فطرت کے معیار سے انسانی اعتقاد اٹھ گیا ہے جو ہمیشہ اسی قسم کی انسان کی ساختہ کائنات کا متقاضی رہے گا جہاں مطمئن ہوا جاسکے۔(۲۷) ”نتیجہ یہ ہے کہ تخلیق کار و مصنف روایتی معیار پر انحصار نہیں کر سکتا۔ اسے اپنے مشاہدے اور تجربے سے از سرِ نو ایک معیار تلاش کرنا پڑ رہا ہے۔ چناں چہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ادبی دنیا کی صورتِ حال ویسی ہی ہے جیسی آڈن بیان کرتا ہے تو ایسی صورت میں پہلی عالمی کانفرنس میں تعلیم کی تعریف کے ضمن میں بیان کردہ اغراض و مقاصد کے حصول کے لیے ادبی تعلیم کہاں تک معاون ہو سکتی ہے؟“

جاری ہے۔۔۔۔