تعریفوں کا تصادم

یہ تحریر 873 مرتبہ دیکھی گئی

(۴)

ان ثقافتی مقابلوں میں، جن کا مقصدکسی تہذیب کی تعریف متعین کرنا ہوتا ہے، کیا کیا مشکلات حائل ہوتی ہیں، اس کا اندازہ آرتھر شلیسنگر کی حالیہ چھوٹی سی کتاب “The Disuniting of America” (امریکہ کی تحلیل) سے کیا جاسکتا ہے۔ سواد اعظم کے مؤرخ ہونے کی حیثیت سے شلیسنگر کی پریشانی سمجھ میں آنے والی چیز ہے۔ اسے اس بات کی پریشانی ہے کہ ریاست ہاے متحدہ امریکہ میں ہنگامی اور مہاجر گروہوں نے امریکہ کے اس سرکاری واحدانہ تصور کو معرض بحث میں ڈال دیا ہے جس کی نمائندگی اس ملک کے عظیم کلاسیکی مؤرخ مثلاً بینکرافٹ، ہنری ایڈمز اور بالکل حال میں رچرڈ ہوفسٹیڈٹر کرتے رہے ہیں۔ یہ گروہ چاہتے ہیں کہ تاریخ اس طرح لکھی جانی چاہیے کہ اس سے نہ صرف اس امریکہ کے خدوخال واضح ہوں جس کا خواب دیکھنے والے اور جس پر حکومت کرنے والے امراء اور جاگیردار تھے بلکہ اس امریکہ کی بھی نمایندگی ہو جس میں غلاموں، خادموں، مزدوروں اور غریب مہاجرین نے اہم مگر اب تک غیر تسلیم شدہ رول اداکیا۔ اس طرح کے لوگوں کے بیانات نے سرکاری داستان کی سست رفتار ترقی اور پرسکون تمکین کو تہ و بالا کرنا شروع کر دیا ہے جنھیں ان خطبات و مقالات کے ذریعے خاموش کر دیا گیا تھا جن کا منبع واشنگٹن، نیویارک کے سرمایہ کار بنک، امریکہ کی دانش گاہیں اور غرب اوسط (Middle West) کی بڑی صنعتی دولت تھی۔ وہ سوال اٹھاتے ہیں، معاشرے کے بد قسمت افراد کے تجربات کو بیچ میں لے آتے ہیں اور کم تر درجے کے افراد و اقوام مثلاً عورتوں، ایشیائیوں، افریقی امریکیوں اور متعدد دیگر اقلیتوں کے جنسی اور نسلی مطالبات کو آواز عطا کرتے ہیں۔ کوئی شخص خواہ شلیسنگر کی دل سے نکلی ہوئی چیخ سے اتفاق کرے یا نہ کرے، اس کے نسبتاً مخفی زاویہئ نظر سے اتفاق کیے بغیر چارہ نہیں کہ تاریخ نویسی کسی ملک کی تعریف کے ضمن میں شاہراہ کی حیثیت رکھتی ہے نیز یہ کہ کسی معاشرے کا تشخص بڑی حد تک تاریخی تعبیر کا فرض ہوتا ہے اور یہ تاریخی تعبیر بہت سے متقابل دعووں اور جوابی دعووں کے خطروں سے گھری ہوتی ہے۔ ریاست ہاے متحدہ امریکہ آج کل ایسی ہی صورت حال سے دو چار ہے۔

آج کی اسلامی دنیامیں بھی اس قسم کے مباحث موجود ہیں جو عام طور پر خطرہ اسلام، اسلامی بنیاد پرستی اور دہشت گردی سے متعلق اٹھنے والے اس ہسٹیریائی شور و غوغا میں، جو مغربی ذرائع ابلاغ سے شدت سے سننے میں آتا ہے، اکثر مکمل طور پر نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔ کسی بھی دوسری بڑی عالمی ثقافت کی طرح اسلام کے اندر بھی مختلف قسم کی حیران کن رویں اور مقابل رویں موجود ہیں جن میں سے بیش تر کا شعور واضح طور پر تعصب کا میلان رکھنے والے مستشرقین اور صحافیوں کو نہیں ہوپاتا کیوں کہ مستشرقین کے نزدیک اسلام خوف اور دشمنی کا مذہب ہے اور صحافیوں کا حال یہ ہے کہ نہ انھیں اسلامی ممالک کی متعلقہ زبانوں کا علم ہے نہ ان کی تواریخ کا اور وہ ان تسلسل سے جاری فرسودہ باتوں پر تکیہ کرتے ہیں جو دسویں صدی سے مغرب میں چلی آرہی ہیں۔ آج ایران امریکہ کی سیاسی خودغرضی کے حملے کا ہدف بنا ہوا ہے جب کہ عالم یہ ہے کہ وہاں قانون، آزادی، انفرادی ذمہ داری اور روایت جیسے موضوعات پر حیران کن حد تک تند و تیز بحثیں چل رہی ہیں گو کہ مغربی رپورٹر ان کا نوٹس نہیں لیتے۔ کرشمہ کار ایرانی مقرر اور دانشور، خواہ وہ رسمی علماء ہوں یا ان کے برعکس، بڑی بے خوفی سے اقتدار اور تقلید کے مراکز کو چیلنج کرتے ہوئے، عوامی مقبولیت کے جلو میں شریعتی(۴) کی روایت کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مصر میں دائر ہونے والے دو بڑے دیوانی مقدمات نے، جن میں ایک دانشور اور ایک ممتازفلم ساز کی زندگیوں میں مذہبی مداخلت کا سوال اٹھایا گیا تھا، بالآخر روایتی راسخ الاعتقادی پر فتح پائی (میری مراد ناصر ابوزید اور یوسف شاہین کے مقدمات سے ہے)۔ خود میں نے اپنی ایک حالیہ کتاب ”بے دخلی کی سیاست“ (The Politics of Dispossession, 1994) میں بحث کی ہے کہ اسلامی بنیاد پرستی کے سیلاب کی بات تو ایک طرف رہی، جیسا کہ مغربی ذرائع ابلاغ اسے تخفیفی انداز میں بیان کرتے ہیں، قانون کے معاملات میں سنت کی تعبیر، ذاتی کردار، سیاسی فیصلہ کاری اور متعدد دیگر معاملات میں اس کی سیکولر سطح پر مخالفت کا زور بھی خاصا ہے۔ مزید برآں، جو بات عام طور پر بھلا دی جاتی ہے، یہ ہے کہ حماس اور اسلامی جہاد کی تحریکیں دراصل پی ایل او کی ہزیمت خوردہ پالیسیوں کے خلاف اور قبضے کی اسرائیلی کارروائیوں، زمینوں سے بے دخلی کی روش اور اس طرح کی دیگر حرکتوں کے خلاف احتجاجی تحریکیں ہیں۔

میرے لیے یہ بات تعجب کا باعث ہے کہہنٹنگٹن نے اپنے مقالے میں کہیں بھی یہ اشارہ نہیں دیا کہ وہ ان پیچیدہ جھگڑوں سے واقف ہے۔ نہ یہ لگتا ہے کہ اسے اس امر کا احساس ہے کہ کسی تہذیب کی نوعیت اور تشخص کو اس کا ہر رکن غیر مسؤل بدیہی صداقتوں کے طور پر قبول نہیں کر لیتا۔ سرد جنگ کو پچھلے چند دہوں کے فکری افق کو  متعین کرنے والا عامل قرار دینے کے بجائے میں تو یہ کہوں گا کہ ایک عرصے سے چلی آنے والی ہیئت مقتدرہ کے باب میں یہ سوال اٹھانے اور تشکیک کی حد درجہ پھیل  جانے والی روش ہے جو مشرق اور مغرب کی بعد از جنگ کی دنیا کے خدوخال متعین کرتی ہے۔ سفید سامراج کے رخصت ہونے کے بعد وطن پرستی اور نو آبادیاتی انخلا (Decolonization) نے تمام آبادیوں کو قومیت کے سوال پر غور کرنے پر آمادہ کیا۔ مثال کے طور پر الجزائر میں، جو ان دنوں اسلام کے علم برداروں اور فرسودہ اور بے اعتبار حکومت کے مابین خونیں مقابلے کی سرزمین بن چکی ہے، بحث مباحثے نے ایک تشدد پسند شکل اختیار کرلی ہے لیکن ہے یہ بے شک اصلی بحث مباحثہ اور شدید  مقابلہ!

فرانس کو ۱۹۶۲ء میں شکست دینے کے بعد ”قومی محاذ برائے آزادی الجزائر“ (FLN) نے الجزائر، عرب اور مسلم تشخص کے علم بردار ہونے کا اعلان کیا۔ اس ملک کی جدید تاریخ میں پہلی بار عربی زبان ذریعہ تعلیم بنی، سوشلزم اس کا سیاسی مسلک اور ناوابستگی اس کی خارجہ پالیسی ٹھہری۔ ان تمام امور میں اپنی یک مجلسی صورت گری کر کے ایف ایل این ایک بڑی مفلوج بیورو کریسی میں تبدیل ہوگیا۔ اس کی معیشت شدید زوال کا شکار ہو گئی اور اس کے لیڈر ایک بے لچک چند سری حکومت میں تبدیل ہو کر بساند اور ٹھہراؤ کا شکار ہوگئے۔ نتیجۃً نہ صرف مسلم علما اور زعما میں سے بلکہ اس بربر اقلیت میں سے بھی ایک ایسی اپوزیشن نے ظہور کیا جو مفروضہ واحد الجزائری تشخص کی ہمہ مقصدی بحث میں دب کر رہ گئی تھی۔ یوں پچھلے چند برسوں کا سیاسی بحران حصول اقتدار کی کثیرالجہتی جدوجہد اور الجزائری تشخص کی نوعیت کے فیصلے کے حق کو ظاہر کرتا ہے یعنی یہ کہ اس کے اسلامی عناصر کیا ہیں، یہ اسلام کس نوعیت کا ہے، قوم پرست، عرب اور بربر ہونا کیا معنی رکھتا ہے۔ وقس علیٰ ہذا۔

ہنٹنگٹن جس شے کو ”تہذیبی تشخص“ کا نام دیتا ہے وہ اس کے نزدیک ایک مستحکم اور مطمئن شے ہے گویا گھر کے عقب میں موجود فرنیچر سے بھرا کمرہ۔ یہ بات نہ صرف اسلامی دنیا میں بلکہ پورے کرہ ارض میں صداقت سے حد درجہ بعید ہے۔ ضمناً ثقافتوں اور تہذیبوں میں پائے جانے والے اختلافات پر زور دینے کے لیے اس کے استعمال کردہ ”ثقافت“ اور ”تہذیب“ کے الفاظ حد درجہ ڈھیلے ڈھالے نظر آتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس کے نزدیک یہ دو لفظ حرکی اور مسلسل مضطرب ہونے کے بجائے، جیسا کہ یہ اصلاً ہیں، متعین اور متشکل اشیا کی نمایندگی کرتے ہیں۔ ایسا سوچنا ان اصطلاحات کی نامختتم لفظی بحث کو (مثلاً یہ کہ ان میں سے کون سا زیادہ متحرک اور قوی ہے) کہ ان تہذیبوں کے تناظر میں (بشمول مغربی تہذیبوں کے) ثقافت اور تہذیب کے کیا معنی ہیں، کلیتہً نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔ یہ مباحث کسی بھی متعین تشخص کے تصور اور نتیجۃً تشخصات کے مابین رشتوں کے تصور کا استیصال کرتے ہیں جسے ہنٹنگٹن سیاسی نمود کی وجودیاتی حقیقت سمجھتا ہے یعنی تہذیبوں کا تصادم۔ یہ جاننے کے لیے آپ کا چین، جاپان، کوریا اور انڈیا کے امور کا ماہر ہونا ضروری نہیں۔ امریکہ کی مثال سامنے کی ہے جس کا میں پیچھے ذکر کر آیا ہوں یا پھر جرمنی کی مثال لیجیے جہاں دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد سے یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ جرمن ثقافت   کی نوعیت کیا ہے۔ کیا نازی ازم نے اسی کے بطن سے منطقی طورپر جنم لیا یا یہ ایک طرح کا انحراف تھا؟

لیکن تشخص کے باب میں ابھی اور بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔ ثقافتی اور خطابیاتی مطالعات کے شعبے میں ہونے والے متعدد نئے انکشافات وترقیات نے ثقافتی تشخص کی حرکی اور مسابقتی نوعیت کا کہیں زیادہ واضح شعور عطا کیا ہے بلکہ اس حد کا بھی شعور دیا ہے جس تک خود تشخص کا تصور، تخیل، جوڑ توڑ، ایجاد اور تعمیر کا مرہون منّت ہوتا ہے۔ آٹھویں عشرے میں ہیڈن وائٹ نے ایک نہایت مؤثر کتاب “Metahistory” (ماوراے تاریخ) شایع کی۔ یہ انیسویں صدی کے متعدد مؤرخین مثلاً مارکس، مشیلے (Michelet) اور نٹشے وغیرہ اور ان کے صنائع معنوی (Tropes) میں سے کسی ایک یا اس کے پورے سلسلے پر تکیہ کرنے کے طریق کار کا، جو تاریخ کے بارے میں ان کے زاویہئ نگاہ کو متعین کرتا ہے، ایک تجزیہ فراہم کرتی ہے۔ چناں چہ مثال کے طور پر مارکس اپنی تحریروں میں ایک مخصوص بوطیقا سے متعہِّد نظر آتا ہے جو اسے تاریخ میں ترقی اور بے گانگی کی نوعیت کی، ایک مخصوص بیانیہ ماڈل کی روشنی میں، معاشرے میں ہیئت اور مواد کے فرق پر زور دیتے ہوئے سمجھنے کی اجازت دیتا ہے۔ وائٹ کا مارکس اور دیگر مؤرخین کے حوالے سے صحیح اور فکر افروز تجزیہ بتاتا ہے کہ ان کی تاریخوں کی تفہیم کا بہترین طریقہ کیا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ ان تاریخوں کو ”واقعیت“ کے معیار پر نہیں بلکہ ان کی داخلی خطابیاتی اور تجزیاتی حکمت عملی کی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔ یہی وہ حکمت عملی ہے نہ کہ حقائق جس سے طوقویل یا کروچے یا مارکس کے نصب العین ایک نظام نامے کے طور پر عمل میں آتے ہیں۔ اس عمل میں نام نہاد حقیقی دنیا کے کسی خارجی مصدر کو دخل نہیں۔

مشیل فوکو کے مطالبات کی طرح وائٹ کی کتاب کا مقصد یہ ہے کہ فطری دنیا کی جانب سے خیالات کے لیے مہیا کردہ محسوساتی توثیقات کی موجودگی سے توجہ ہٹا کر اسے زبان کی اس نوع پر مرتکز کرنا چاہیے جو کسی لکھنے والے کے زاویہئ نگاہ کے عناصر کی تشکیل کرتی نظر آتی ہے مثلاً تصادم کے خیال کو دنیا میں ہونے والے اصل تصادم سے اخذ کرنے کے بجائے ہمیں اسے ہنٹنگٹن کی نثر کے جوڑ توڑ سے اخذ ہوتے دیکھنا ہو گا جو دراصل اس شے پر انحصار کرتی ہے جسے میں ”منتظمانہ بوطیقا“ (Managerial Poetics) کہوں گا__ ایک ایسی حکمت عملی جس کے تحت ایک مستحکم اور علامتی طور پرمتعین شے، مثلاً تہذیبوں کی موجودگی کا احساس دلا کر، مصنف بڑے جذباتی انداز میں جوڑ توڑ کر کے اس طرح کے جملے ترتیب دیتاہے: ”ہلالی شکل کا اسلامی بلاک__ افریقہ کے گولائی مائل ابھار سے وسط ایشیا تک __ خونیں سرحدوں کا حامل ہے“۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہنٹنگٹن کی زبان جذبات کو تحریک دینے والی ہے اور اسے نہیں ہونا چاہیے بلکہ انکشاف خیز طور پر یہ اسی طرح کا اسلوب ہے جیسا زبان کے شاعرانہ استعمال کے نتیجے میں ہوتا ہے اور جس کا تجزیہ ہیڈن نے کیا ہے۔ ہنٹنگٹن کی زبان کا پیرایہ استعاراتی ہے تاکہ وہ ”ہماری“ دنیا میں، جو متوازن، قابلِ قبول، مانوس اور منطقی ہے اور خاص طور پر ایک تحیر خیز مثال کے طور پر اسلامی دنیا میں، جس کی سرحدیں خونیں ہیں اور جس کے  خط و خال ابھرے ہوئے ہیں وغیرہ، فرق کی شدت کو ظاہر کر سکے۔ اس سے ہنٹنگٹن کے تجزیے سے زیادہ اس سلسلہ در سلسلہ مجبوریوں کا احساس ہوتا ہے جو، جیسا کہ میں نے پہلے کہا، خود اس تصادم کو پیدا کرنے والی ہیں جس کا انکشاف اور جس کی جانب اشارہ خود صاحب کتاب کرناچاہ رہا ہے۔

ثقافتوں کے تصادم کی وضاحت اور اس کے اہتمام کی طرف حد سے زیادہ توجہ کے نتیجے میں تہذیبوں کے مابین جاری رہنے والے تبادلے اور مکالمے کی حقیقت برباد ہو جاتی ہے۔ آخر جاپانی، عرب، یورپی، کوریائی، چینی یا ہندوستانی ثقافت میں سے آج کون سی ایسی ہے جس کا دوسری ثقافتوں سے طویل، گہرا اور غیر معمولی تعلق نہیں رہا؟ اس باہمی تبادلے میں کوئی استثناء نہیں۔ جی چاہتا ہے کہ تصادم کے منتظمین نے مختلف موسیقیوں کی باہم آمیزش مثلاً اولیور مسائیں یاتوروتا کیمتسو کے نظام موسیقی کی طرف توجہ کی ہوتی اور اس کے معانی کو سمجھا ہوتا! مختلف قومی دبستانوں کی قوت اور اثر کے باوجود معاصر موسیقی میں جو شے سب سے زیادہ توجہ کھینچتی ہے یہ ہے کہ کوئی شخص بھی ان کے مابین خط امتیاز نہیں کھینچ سکتا۔ جب ثقافتیں ایک دوسرے سے لین دین کرتی ہیں تو یہ عمل اکثر بڑی سہولت سے اور بڑے فطری انداز میں انجام پاتا ہے۔ یہی حال موسیقی کا ہے جس میں دوسرے معاشروں اور براعظموں میں ہونے والی ترقیات کو غیر معمولی طور پر اخذ و جذب کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ کم و بیش یہی قصہ ادب کا ہے جہاں مثلاً گارشیا مارکیز، محفوظ یا اوئے (OE) کے قارئین ان حد بندیوں سے کہیں ماورا ہوتے ہیں جو زبان یا قوم کی طرف سے عائد کی جاتی ہیں۔ خود میرے تقابلی ادب کے میدان میں قوی نظریاتی اور قومی حد بندیوں کے باوجود مختلف ادبوں کے درمیان باہمی تعلقات اور اتحاد و یگانگت کی ایک علمیاتی کو مٹ منٹ موجود ہے۔ اس نوعیت کا باہمی تعاون کا حامل اجتماعی طرز عمل ہی تو وہ شے ہے جو ثقافتوں کے ابدی تصادم کے ان اعلانچیوں کے یہاں ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ دراصل جدید معاشروں کے علماء، فنکاروں، موسیقاروں، خواب دیکھنے والوں اور پیغامبروں کے مابین پائی جانے والی وہ عمر بھر کی پراخلاص ریاضت قابل توجہ ٹھہرتی ہے جو بیگانے (The other) کے قریب آنے اور اس معاشرے یا ثقافت کی قربت حاصل کرنے کی کوشش سے عبارت ہے جو بہ ظاہر ایک دوسرے سے بہت اجنبی اور ایک دوسرے سے بہت فاصلے پر ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں جوزف نیڈہام (Needham) اور فرانس کے لوئی ماسنیون کی مثالیں ذہن میں آتی ہیں جنھوں نے بالترتیب چین کے عمر بھر مطالعے اور اسلام کے اندر مقدس سفر کا فرض انجام دیا۔ میرے نزدیک جب تک ہم آپسی تعاون اور انسان دوستی کی باہمی خیر سگالی کی روح پر زور دینے اور اس کی َلے تیز کرنے کی کوشش نہیں کرتے __ یاد رہے کہ میری مراد یہاں محض کسی نامانوس شے کے لیے انوکھی خوشی اور سطحی جوش و خروش سے نہیں بلکہ بیگانے کے باب میں ایک موجودیاتی تعہد اور ریاضت سے ہے___ ہمارا انجام یہی ہو گا کہ ہم تمام دوسری ثقافتوں کی مخالفت کرتے ہوئے، کم ظرفی کے ساتھ ”ہماری“ ثقافت کا زور شور سے ڈھول پیٹتے رہ جائیں گے۔

ثقافتی تجزیوں کے ضمن میں دو اور اہم کتب کا ذکر یہاں بے محل نہ ہو گا:

”روایت کی ایجاد“ نامی کتاب میں، جسے ٹیرنس رینجر اور ایرک ہوبزبام جیسے دو ممتاز معاصر مؤرخین نے مرتب کیا ہے، مرتبین کا کہنا ہے کہ روایت متوارث فکر و دانش اور عمل کا مستحکم نظام نامہ ہونے کے بجائے دراصل ساختہ اعمال و عقائد کے ایک مجموعے کا نام ہے جو کثیر آبادی کے معاشروں میں ایک ایسے وقت، جب وہاں نامیاتی واحد ے مثلاً خاندان، گاؤں اور قبیلے بکھر چکے ہوں، احساس تشخص و وحدت پیدا کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ چناں چہ انیسویں اور بیسویں صدی میں روایت پر زور دینا حاکموں کے نزدیک جواز رکھتا ہے گو کہ یہ جواز کم و بیش ساختہ اور مصنوعی ہو۔ ہندوستان کی مثال لے لیجیے۔ وہاں برطانوی حکام نے ۱۸۷۲ء میں ملکہ وکٹوریہ کے قیصرہئ ہند قرار دیے جانے پر جشن منانے کے لیے تقریبات کا ایک مؤثر پروگرام تیارکیا۔ ایسا کرتے ہوئے اور یہ دعویٰ کر کے کہ جشن منانے کے لیے درباروں اور لمبے لمبے جلوسوں کی برعظیم میں ایک طویل تاریخ رہی ہے، برطانوی حکام ملکہ کی حکومت کو ہندوستان میں ایک ایسا شجرہ دینے میں کامیاب ہو گئے جس کا نئی صورتِ حال سے کوئی تعلق نہ تھا مگر ”خود ساختہ روایت“ کی شکل میں اس کا جواز بہرحال مہیا ہو گیا۔ ایک دوسرے تناظر میں کھیل کود مثلاً فٹ بال کے رواج کو لے لیجیے جو مقابلتاً ایک حالیہ سرگرمی ہے لیکن اس کا جواز یہ مہیا کیا جاتا ہے کہ یہ کھیل کود کے قدیم جشن کی تازہ معراج ہے حال آنکہ یہ کثیر تعداد میں افراد کی توجہ کو اصل ہدف سے ہٹانے کا ایک حالیہ  طریق کار ہے۔ اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جس شے کو کبھی ایک مسلمہ حقیقت یا روایت کا درجہ حاصل تھا، موجودہ عہد میں وسیع پیمانے پر استعمال کے لیے ایک گھڑی گھڑائی چیز ہے۔

اُن لوگوں کے نزدیک، جو محض تہذیبوں کے تصادم کی رٹ لگاتے ہیں، اس امکان کا کوئی شائبہ موجود نہیں۔ ان کے نزدیک ثقافتیں اور تہذیبیں بدل سکتی ہیں، ترقی یا تنزل کے عمل سے گزر کر غائب ہو سکتی ہیں لیکن وہ اپنے تشخص میں پراسرار طور پر متعین رہتی ہیں۔ ان کا جوہر پتھر پر کندہ ہونے کے مترادف ہے گویا مضمون کے آغاز میں ہنٹنگٹن جن چھے تہذیبوں کا ذکر کرتا ہے ان پر کوئی عالمی اتفاق رائے پایا جاتا ہے! میرا دعویٰ یہ ہے کہ ایسا کوئی اتفاق رائے نہیں پایا جاتا اور اگر ایسا ہے بھی تو یہ اس قسم کے تجزیوں کی تاب نہیں لاسکتا، جو ہوبز بام اور رینجر فراہم کرتے ہیں۔ چناں چہ تہذیبوں کے تصادم کے بارے میں پڑھ کر ہم تصادم کے تجزیے سے اتفاق کرنے کے بجائے یہ سوال کرنے میں حق بہ جانب ہیں: تم تہذیبوں کو ایک بے لچک معانقے میں کیوں جکڑتے ہو اور پھر تم ان کے تعلق کو ایک بنیادی تصادم کے رنگ میں کیوں پیش کرتے ہو گویا ان کے مابین اخذ و جذب اور شیر و شکر ہونے کا عمل زیادہ دل چسپ اور اہم نہیں؟

تہذیبوں کے تجزیے کے سلسلے میں جو تیسری اور آخری مثال دینا چاہتا ہوں یہ ہے کہ کسی تہذیب کو ماضی کی طرف لوٹا کر اس کی تخلیق نو کرنے اور پھر اس تخلیق کو ایک متحجر تعریف میں ڈھال دینے کے امکانات پائے جاتے ہیں، خواہ اس کی تشکیل میں بہت سے عناصر اور آمیزش کی شہادتیں موجود ہوں۔ مثال کے طور پر کارنل سیاسی تجزیہ کار مارٹن برنال کی کتاب ”سیاہ اثینا(۵) “(Black Athena) پیش کی جاسکتی ہے۔ برنال کہتا ہے کہ کلاسیکی یونان کے بارے میں آج ہمارا جو تصور ہے وہ اس تصور سے، جو اس عہد کے یونانی مصنف پیش کرتے ہیں، کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔ انیسویں صدی کے آغاز سے یورپی اور امریکی، یونانی توازن اور وقار کے نصب العینی تصور کے ساتھ بالغ ہوئے ہیں۔ ان کی نگاہ میں ایتھنز ایک ایسی جگہ تھی جہاں افلاطون اور ارسطو جیسے روشن خیال مغربی فلسفی، دانش و فرہنگ پھیلاتے رہے، جہاں جمہوریت نے جنم لیا اور جہاں ہر ممکن اور اہم طریقے سے مغربی طرز زیست کا، جو ایشیا اور افریقہ سے کلیتہً مختلف تھا، غلبہ رہا لیکن قدیم مصنّفین کی ایک کثیر تعداد کو صحیح طریقے سے پڑھنے پر یہ پتا چلتا ہے کہ ان میں سے متعدد ایتھنز کی زندگی میں سامی اور افریقی عناصر کی موجودگی کا ذکر کرتے ہیں۔ برنال ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے نہایت مہارت کے ساتھ بہت سے منابع سے استفادہ کر کے یہ ثابت کرتا ہے کہ یونان اصلاً افریقہ بالخصوص مصر کی نوآبادی تھی اور یہ کہ فینقی اور یہودی تاجر، ملاح اور اساتذہ نے اس ثقافت کی تشکیل میں گراں قدر حصہ لیا جسے آج ہم کلاسیکی یونانی ثقافت کا نام دیتے ہیں اور جو اس کے نزدیک افریقی، سامی اور بعد کے شمالی اثرات کے امتزاج سے عبارت ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔