تعریفوں کا تصادم

یہ تحریر 926 مرتبہ دیکھی گئی

(۳)

میں اس ضمن میں دو مثالیں پیش کروں گا: گروہی شناخت کی زبان کا انیسویں صدی کے وسط سے اس کے اختتام تک ایک بلند بانگ ظہور ہوتا ہے جو دراصل ایشیا اور افریقہ کے علاقوں پر قابض ہونے کے لیے بڑی یورپی اور امریکی طاقتوں کے مابین سالہا سال کی بین الاقوامی کش مکش کی معراج ہے۔ افریقہ یعنی تاریک براعظم کی خالی جگہوں پر قابض ہونے کے لیے فرانس اور برطانیہ نیز جرمنی اور بلجیم نہ صرف طاقت کا بل کہ تصورات اور خطابیات کے اُس بڑے ذخیرے کا بھی سہارا لیتے ہیں جس کی مدد سے وہ اپنی لوٹ مار کا جواز مہیا کر سکیں۔ اس طرح کے حربوں میں سب سے مشہور تہذیب سکھانے کا فرانسیسی تصور La mission Civilisatrice  ہے جس کی تہ میں یہ خیال کارفرما ہے کہ بعض نسلوں اور ثقافتوں کا بمقابلہ دوسری قوموں کے کہیں ارفع مقصدِ حیات ہوتاہے۔ اس خیال کو اپنانے کے نتیجے میں زیادہ طاقت ور، زیادہ ترقی یافتہ، زیادہ مہذب قوم کو دوسری قوموں کو غلام بنانے کا حق مل جاتا ہے۔ یہ ساراکھیل وحشی جبر یا خام لوٹ مار کے نام پر نہیں جو اس طرح کے استعماری عمل کے متعین عناصرہیں بلکہ اعلیٰ نصب العین کے نام پر کھیلا جاتا ہے۔ جوزف کونرڈ کی سب سے مشہور کہانی ”قلبِ ظلمات“ (Heart of Darkness) اس نظریے کی خفطنزیہ بلکہ خوف ناک تمثیل ہے۔ اس کہانی کا ایک کردار مارلو کہتا ہے:

”دنیا کی تسخیر، جس کا زیادہ تر مطلب یہ ہے کہ یہ ان لوگوں سے چھین لی جائے جن کا رنگ ہم سے مختلف یا جن کی ناکیں ہماری نسبت ِپھڈی ہیں، کوئی زیادہ خوش گوار عمل نہیں جب آپ ذرا گہرائی سے اس میں جھانکیں۔ جو شے اس امر کی تلافی  کرتی ہے وہ ہے صرف خیال۔ اس کے پس پشت کارفرما خیال__ کوئی جذباتی دکھاوا نہیں بل کہ خیال اور اس خیال پر ایک بے غرض یقین__ یہی وہ شے ہے جسے آپ متعین کر سکتے ہیں، جس کے آگے جھک سکتے ہیں اور جسے آپ بھینٹ دے سکتے ہیں“۔

اس قسم کی منطق کے جواب میں دو چیزیں واقع ہوتی ہیں: ایک تو یہ کہ مقابلہ کار قوتیں ثقافتی اور تہذیبی تقدیر کا اپنا ایک الگ نظریہ وضع کر لیتی ہیں تاکہ دوسرے ممالک میں اپنے کرتوتوں کا جواز مہیا کر سکیں۔ برطانیہ کے پاس اسی طرح کا ایک نظریہ تھا، جرمنی کے پاس بھی تھا، بلجیم کے پاس بھی تھا اور واضح تقدیر کے تصور کے طور پر ایک نظریہ امریکہ کے پاس بھی تھا۔ اس طرح کے تلافی کار تصورات، جن کا اصل مقصد، جیسا کہ کونرڈ نے بالکل صحیح سمجھا  ہے، خود غرضی، حصول اقتدار، تسخیر، دولت اور بے لگام احساس فخر ہے، مطابقت اور تصادم کی روش کو باوقار بنا دیتے ہیں۔ میں تو یہ تک کہنے کو تیار ہوں کہ جس چیز کو ہم آج تشخص کی خطابت کہتے ہیں اور جس کا سہارا لے کر کسی نسلی، مذہبی، قومی یا ثقافتی گروہ کا ایک فرد اُس گروہ کو دنیا کا مرکز قرار دے ڈالتاہے دراصل انیسویں صدی کے آخر کی استعماری مطابقت کے عہد کی پیداوار ہے۔ نتیجۃً اس سے ”دنیائیں برسرِ جنگ“ کے تصور کو تحریک ہوتی ہے جو دراصل بہت واضح طور پر ہنٹنگٹن کے مقالے کی تہ میں موجود ہے۔ اس تصور کا ایک نہایت خوف ناک مستقبلانہ اطلاق ایچ جی ویلز کی تمثیل ”دنیاؤں کی جنگ“ (The War of the Worlds) سے ملا جو اس تصور کو توسیع دے کر اس میں اس دنیا اور دور دراز کے ایک سیارے کے مابین جنگ کے تصور کو آمیز کر لیتا ہے۔ سیاسی اقتصادیات، جغرافیہ، بشریات اور تاریخ نویسی کے متعلقہ میدانوں میں اس نظریے کا اطلاق ہوتا ہے جس کی رو سے ہر ”دنیا“ اپنی مخصوص حدود میں بند ہے، اس کی اپنی سرحدیں ہوتی ہیں اور اس کا ایک مخصوص علاقہ ہوتا ہے، دنیا کے نقشے، تہذیبوں کی ساخت اور اس خیال پر کہ ہر نسل ایک مخصوص تقدیر، الگ نفسیات اور الگ ذہنی ماحول وغیرہ کی حامل ہوتی ہے۔ یہ تمام تصورات، کم و بیش بغیر کسی استثناء کے، کسی موافقت پر مبنی نہیں بل کہ دنیاؤں کے مابین آویزش اور تصادم پر مبنی ہیں۔ یہ امر گستاولی بان (ملاحظہ ہو ”دنیا حالت بغاوت میں“ The World in Revolt) کی کتابوں اور بعض مقابلتاً فراموش کردہ کارناموں مثلاً ایف ایس مارون کی ”مغربی نسلیں اور دنیا“ “Western Races and the World” (۱۹۲۲ء) اور جارج ہنری لین فوکس پٹ ریورز کی ”ثقافت کا تصادم اور نسلوں کا رابطہ“ (The Clash of Cultures & the Contact of Races) (۱۹۲۷ء) وغیرہ میں بخوبی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ دوسری چیز جو واقع ہوتی ہے، جیسا کہ ہنٹنگٹن خود اعتراف کرتاہے، یہ ہے کہ کمزور قومیں، جن پر گویا سامراج کی نظر ہوتی ہے، استعمار کے جابرانہ ہتھکنڈوں اور زبردستی اُن کی زمینوں پر آباد ہونے والوں کی مقاومت کر کے ان کا جواب دیتی ہیں۔ اب ہمیں معلوم ہے کہ سفید آدمی کے خلاف اُصولی مقاومت اسی وقت شروع ہو گئی تھی جب اس نے الجزائر، مشرقی افریقہ، ہندوستان یا اسی طرح کے کسی مقام پر قدم رکھا۔ بعد ازاں اس مقامی مقاومت کی جگہ ثانوی مقاومت نے لے لی یعنی سیاسی اور ثقافتی تحریکوں کی تشکیل و تنظیم نے استعمار کے پنجے سے آزاد ہونے کا عزم صمیم کر لیا۔ انیسویں صدی کے عین اسی لمحے، جب تہذیبی عظمت کے زعم کے باعث یورپی اور امریکی طاقتوں میں وسیع پیمانے پر (استعمار کے لیے) جواز جوئی شروع ہوئی، اس کے مقابلے میں ایک جوابی خطابت ظہور میں آئی جو افریقی، ایشیائی اور عرب اتحاد، آزادی اور حق خود ارادیت کی اصطلاحات میں اظہار مطلب کرنے لگی۔ مثال کے طور پر برعظیم میں ۱۸۸۰ء میں کانگریس پارٹی کی تنظیم شروع ہوئی اور صدی کے ختم ہوتے ہی یہ ہندوستان کے خواص کو یقین دلا چکی تھی کہ صرف ہندوستانی زبانوں نیز صنعت اور تجارت کو ترقی دے کر ہی سیاسی آزادی کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ دلیل کا اگلا رخ یہ تھا کہ یہ سب ہماری اور صرف ہماری ہیں اور ان کی دنیا کے مقابلے میں اپنی دنیا (ذرا ”ہماری بہ مقابلہ ان کی“ کا کلمہ ملاحظہ ہو) کے معاون بن کر ہم آخرکار اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکتے ہیں۔ جدید جاپان کے میجی عہد میں بھی اسی طرح کی منطق برسر کار نظر آتی ہے۔ احساس تعلق کی یہی خطابت ہر تحریک آزادی کی وطن پرستی کے قلب میں تپاں نظر آتی ہے اور دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد اس نے نہ صرف کلاسیکی بادشاہتوں کے خاتمے کا مقصد حاصل کر لیا بل کہ اس کے بعد درجنوں ملکوں کے لیے آزادی کے حصول کا سامان کر دیا۔ ہندوستان، انڈونیشیا، متعدد عرب ممالک، ہند چینی، الجزائر، کینیا اور اسی طرح دیگر متعدد ممالک __ یہ سب بعض اوقات امن کے ساتھ، بعض اوقات اندرونی صورت حالات (مثلاً جاپان کے ضمن میں) کے نتیجے کے طور پر یا مکروہ نو آبادیاتی لڑائیوں اور یا پھر وطن پرستانہ تحریک آزادی کے نتیجے میں دنیا کے منظر نامے پر ظاہر ہوئے۔

چناں چہ نوآبادیاتی اور مابعد نو آبادیاتی دونوں کے سیاق و سباق میں عمومی ثقافتی یا تہذیبی تخصیص کی خطابیات نے دو توانا سمتوں کا رخ کیا۔ ایک کا رخ یوٹو پیائی تھا جس نے تمام قوموں کے مابین اتحاد اور یگانگت کے مجموعی نمونے پر اصرار کیا۔ دوسرا رخ وہ تھا جس کے مطابق تمام تہذیبیں اتنی منفرد و متعین، حاسد اور وحدت پرست تھیں کہ وہ نتیجۃً باقی تمام کو رد کرنے اور ان کے خلاف جنگ پر آمادہ نظر آتی تھیں __ پہلی شق کے ضمن میں اقوام متحدہ کی فرہنگ اور ادارے ہیں جو دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد وجود میں آئے اور اقوام متحدہ کے بطن سے پھوٹنے والی بعد کی کوششیں، جن کا مطمح نظر آفاقی حکومت کا قیام تھا اور جن کی بنیاد بقاے باہمی، اقتدار اعلیٰ کی رضا کارانہ تحدید اور قوموں اور ثقافتوں کے ہم آہنگ ارتباط پر رکھی جانا تھی۔ دوسری شق کے تناظر میں سرد جنگ کا نظریہ اور اس کی عملی صورت ہے اور تازہ تر صورت میں یہ خیال کہ تہذیبوں کا تصادم ایک ایسی دنیا کے لیے، جو مختلف حصوں بخروں میں بٹی ہوئی ہے، اگر لازمی نہیں تو یقینی ضرور ہے!! اس خیال کی رو سے ثقافتیں اور تہذیبیں بنیادی طور پر ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہیں۔ میں یہاں نفرت انگیز نہیں بننا چاہتا۔ دنیاے اسلام میں خطابیات اور تحریکوں کا ایک اُبال اٹھتا رہا ہے جو اسلام کے حریف مغرب ہونے پر زور دیتا رہا ہے، بالکل اسی طرح جیسے افریقہ، یورپ، ایشیا اور بعض اور جگہوں پر ایسی تحریکیں چلتی رہی ہیں جو بعض نشان زد دوسروں کو ناپسندیدہ قرار دے کر باہر رکھنے کی ضرورت پر زور دیتی رہی ہیں۔ جنوبی افریقہ میں گورا نسلی امتیاز (White Apartheid) ایک ایسی ہی تحریک تھی جیسا کہ افریقی مرکزیت نامی تحریک اور افریقہ اور امریکہ میں بالترتیب ایک مکمل طور پر آزاد مغربی تہذیب کے پائے جانے کے ضمن میں حالیہ دل چسپی۔

تہذیبوں کے تصادم کے نظریے کی اس مختصر ثقافتی تاریخ کا نکتہ یہ ہے کہ ہنٹنگٹن جیسے لوگ اسی تاریخ کی پیداوار ہیں اور اسی سے وہ اپنی تحریر میں متشکل ہوتے ہیں۔ مزید برآں اس تصادم کو بیان کرنے والی زبان قوت کے امور کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ اہل قوت اسے اسی لیے استعمال کرتے ہیں کہ جو کچھ ان کے پاس ہے، اور جو کچھ وہ کرتے ہیں اس کا تحفظ کر سکیں۔ ناتواں اور کمزور اسے اس لیے استعمال کرتے ہیں کہ وہ مساوات اور آزادی یا غالب قوت کے حوالے سے مقابلتہً فائدہ حاصل کر سکیں۔ حاصل کلام یہ کہ ”ہم بہ مقابلہ وہ“ کے نقطۂ نگاہ کے گرد ایک نظریاتی قالب کی بنت سے دراصل یہ باور کرانا مقصود ہوتا ہے کہ اصل مسئلہ علمیاتی اور فطری ہے__ یعنی ہماری تہذیب معروف اور مسلّم ہے، اُن کی مختلف اور عجیب و غریب ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ چوکھٹا، جو ہمیں ان سے علاحدہ کر رہا ہے، جنگ جو، معنی خیز اور ایک نازک صورت حال کا آئینہ دار ہے۔ ہر تہذیبی کیمپ میں ہمیں اس ثقافت یا تہذیب کے سرکاری ترجمان نظر آئیں گے جو اس کی وکالت کے لیے خود کو مامور سمجھتے ہیں، جو خود کو ”ہمارا“ یا پھر ”ان کا“ مؤقف بیان کرنے کی ذمہ داری سونپ دیتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ہمیشہ بہت کچھ دبانے، تخفیف کرنے یا بڑھانے چڑھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ پس پہلی اور فوری سطح پر یہ بیان کرنے کے لیے کہ ”ہماری“ ثقافت یا تہذیب کیا ہے یا کیسی ہونی چاہیے، ہمیں اس کی تعریف کے لیے لازماً ایک بحث مباحثے کو درمیان میں لانا ہو گا۔ یہ امر ہنٹنگٹن کے باب میں بالکل درست ہے جو اپنا مقالہ لکھنے کے لیے امریکی تاریخ میں ایک ایسا وقت چنتا ہے جب مغربی تہذیب کی تعریف کے باب میں گہری الجھن اور افراتفری پیدا ہوچکی ہے۔ ذرا یاد کیجیے کہ امریکہ میں بہت سے کالج کیمپسوں میں پچھلی دو دہائیوں میں مغربی تہذیب کا اصل اصول کیا ہے، کون سی کتابیں پڑھانی چاہییں، کون سی پڑھنی یا نہیں پڑھنی چاہییں، شامل نصاب ہونی چاہییں یا اُن کو زیادہ لائق توجہ نہیں سمجھنا چاہیے جیسے سوالات پر ایک طوفان مچا ہوا ہے۔ سٹینفورڈ اور کولمبیا کی سطح کی یونیورسٹیوں نے ان سوالات پر بحث مباحثہ محض اس لیے نہیں کیا کہ یہ ایک عادی علمی تشویش کی وجہ سے ہے بلکہ اس لیے کہ مغرب کی اور نتیجۃً امریکہ کی اصطلاح داؤ پر لگی ہوئی تھی!

جس شخص کو اس امر کی ذرا سی بھی سوجھ بوجھ ہو کہ ثقافتوں کا طرز عمل کیا ہوتاہے، جانتا ہے کہ ثقافت کی تعریف کرنا اور یہ کہنا کہ یہ ثقافت اس کے افراد کے لیے کیا معنی رکھتی ہے، ہمیشہ ایک بڑے اور حتیٰ کہ غیر جمہوری معاشروں میں بھی ایک جمہوری مناظرے کے مترادف ہوتا ہے۔ یہاں مسلمہ اور ثقہ حضرات کو منتخب کرنا اور باقاعدگی سے ان پر نظرثانی کرنا، بحث و تمحیص سے کام لینا، دوبارہ منتخب کرنا یا موقوف کرنا ضروری ہے۔ یہاں خیر و شر اور وابستگی یا ناوابستگی (وہی یا مختلف) کے تصورات ہوتے ہیں، اقدار کے مراتب کی تخصیص، تمحیص، ان پر بارِ دگر بحث اور جیسی بھی صورت حالات ہو، اس کی روشنی میں ان کی تعیین یا عدم تعیین کرنا ہوتی ہے نیز ہر ثقافت اپنے دشمنوں کی تعیین کرتی ہے یعنی یہ کہ اس کلچر سے باہر کیا ہے اور کس طرح اس کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ ہیروڈوٹس سے آغاز کریں تو یونانیوں کے نزدیک جو شخص یونانی زبان نہیں بولتا تھا اس کے وحشی ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہوتا تھا__ ایک بیگانہ__ جس سے نفرت کرنا اور جس کے خلاف لڑنا لازم تھا۔ حال ہی میں مشہور فرانسیسی کلاسیکی مصنف فرانسوائے ہار توگ (Francois Hartog) کی ایک شایع ہونے والی کتاب ”ہیرو ڈوٹس کا آئینہ“ (The Mirror of Herodotus) کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ ہیرو ڈوٹس کس قدر جان بوجھ کر اور کیسی ریاضت کے ساتھ ایرانیوں کی تصویر کشی سے بھی بڑھ کر سائیتھیا کے باسیوں کے باب میں ایک بیگانہ وحشی کی تصویر کشی کرتا ہے۔

سرکاری ثقافت مذہبی رہنماؤں، اکادمیوں اور ریاست (کی تثلیث) سے عبارت ہے۔ یہ حُبُ الوطنی، وفاداری، حدود اور وابستگی کی تعریفات مہیا کرتی ہے۔ یہ سرکاری ثقافت ہی ہے جو ”کل“ کے نام سے بات کرتی ہے، جو عمومی خواہش، عمومی قومی مزاج اور اس نقطۂ نظر کے، جو سرکاری ماضی میں جامع طور پر رائج رہا، بانی بزرگوں اور متوُن اور زعماء اور اشرار کے گروہ وغیرہ وغیرہ کے اظہار کے لیے کوشاں ہوتی ہے اورماضی میں جو چیز اجنبی، مختلف اور ناپسندیدہ ہوتی ہے، اس کو خارج کر ڈالتی ہے۔ یہیں سے وہ تعریفات ظہور میں آتی ہیں جن کی رُو سے لازم آتا ہے کہ کیا کہا اور کیا نہ کہا جائے۔ اسی میں وہ تحریمات اور مقاطعات شامل ہیں جو کسی بھی ثقافت کے لیے، اگر اسے اپنی علم داری کو قایم رکھنا ہے، لازمی ہیں۔

یہ بھی درست ہے کہ بڑے دھارے کی اس سرکاری، مصدقہ ثقافت کے ساتھ ساتھ بعض اختلافات رکھنے والی، متبادل، غیر مقلد اور آزادہ رو ثقافتیں بھی ہوتی ہیں جن میں اقتدار کو چیلنج کرنے والے بہت سے عناصر بھی ہوتے ہیں جو سرکاری ثقافت کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں۔ انھیں جوابی ثقافت کا نام دیا جاسکتا ہے۔ یہ ثقافت دراصل ان سرگرمیوں کا امتزاج ہوتی ہے جو مختلف قسم کے آزادہ رو لوگوں، غریبوں، مہاجروں، رند فنکاروں، مزدوروں، باغیوں اور فن کاروں سے وابستہ ہوتی ہیں۔ اسی جوابی ثقافت سے ہیئتِ مقتدرہ پر تنقید اور سرکاری اور مقلدانہ سوچ پر حملوں کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ عظیم معاصر عرب شاعر ایڈونس (Adonis) نے عربی ثقافت میں پائے جانے والے روایتی اور غیر مقلد آزادہ رو طرزِ احساس کے باہمی تعلق پر ان دونوں کے مابین پائے جانے والے مسلسل جدل اور تناؤ کے ضمن میں ایک ضخیم تحریر سپرد قلم کی ہے۔ تخلیقی اشتعال کے اس ہمہ وقت موجود سر چشمے کا تھوڑا سا شعور رکھے بغیر، جس کے ذریعے غیر سرکاری اور آزاد ثقافت، سرکاری ثقافت کے علم برداروں کو ٹہو کے دیتی ہے، کوئی کلچر قابل فہم نہیں ہو سکتا۔ ہر ثقافت کے باطن میں موجود احساس اضطراب سے صرف نظر کرنا اور یہ فرض کر لینا کہ ثقافت اورتشخیص میں کامل ہم آہنگی ہے، اس عنصر سے محروم ہونے کے مترادف ہے جسے اہم اور حد درجہ تخلیقی کہا جاسکتا ہے۔

امریکہ میں یہ بحث، کہ کس شے کو امریکی کہا جاسکتا ہے، متعدد بڑی تبدیلیوں اور بعض صورتوں میں ڈرامائی تبدیلیوں سے دو چار ہے۔ جب میں جوانی کے حدود میں قدم زن تھا تو اس زمانے میں ویسٹرن فلم امریکہ کے اصلی باشندوں کو لعین ابلیسوں کی شکل میں دکھاتی تھی جنھیں یا تو تہِ تیغ کرنا یا مطیع بنا لینا لازم تھا۔ انھیں ریڈ انڈینز کہا جاتا تھا اور چوں کہ ثقافت میں ان کا کوئی ایسا رول نہیں تھا سو یہ فلموں کے بارے میں بھی اتنا ہی درست تھا جتناعلمی تاریخ لکھنے کے باب میں۔ مختصر یہ کہ یہ طرز عمل سفید تہذیب کی پیش قدمی میں مضمر خوبیوں کو روشن تر کرنے کا ذریعہ تھا۔ آج صورت حال بالکل بدل چکی ہے۔ اب مقامی امریکیوں کو بدمعاشوں کے روپ کے بجائے مظلوموں کی شکل میں دکھایا جاتا ہے۔ کولمبس کے مرتبے میں بھی تبدیلی آچکی ہے۔ امریکی حبشیوں اور عورتوں کے بیان میں اور زیادہ ڈرامائی تبدیلیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔ٹونی موریسن نے لکھا ہے کہ کلاسیکی امریکی ادب میں سفید رنگ سے مریضانہ حد تک وابستگی پائی جاتی ہے جیسا کہ میلول کی ”موبی ڈک“ اور پو کی ”آرتھر گو رڈن ِپم“ سے   بہ طریق احسن تصدیق ہوتی ہے۔ تاہم وہ کہتی ہے کہ انیسویں اور بیسویں صدی کے بڑے لکھنے والے مرد اور سفید رنگ مصنّفین نے__  وہ لوگ جنھوں نے اس ادب کے اصولی قوانین و اسالیب طے کیے جسے ہم امریکی ادب کا نام دیتے ہیں __ اپنی تحریروں میں گورے پن (Whiteness) کو ہمارے معاشرے میں افریقی موجودگی سے بچنے، اس پر نقاب ڈالنے اور اسے غیر مرئی بناڈالنے کے لیے حربے کے طورپر استعمال کیا۔ صرف یہی امرکہ ٹونی موریسن اپنے ناول اور تنقید اس قدر کامیابی اور ذہانت کے ساتھ لکھتی ہے اب میلول اور ہیمنگوے کی دنیا سے دو بوائے (Du Bois)، بالڈون، لینگسٹن ہیوز اور ٹونی موریسن کی دنیا تک ہونے والی تبدیلی کو نمایاں کرتی ہے۔ کس زاویہئ نگاہ کو اصل امریکہ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے اورکون شخص اس کی نمایندگی اور تعریف کادعویٰ کر سکتا ہے؟ یہ سوال بہت پیچیدہ اور نہایت گہرا ہے لیکن اس سارے مسئلے کو چند فرسودہ فقروں تک محدود کر کے حل نہیں کیا جاسکتا۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔