تضمین بر اشعار حضرت میر تقی میر (بصد معذرت)

یہ تحریر 1430 مرتبہ دیکھی گئی

ہم نے تم سے پیار نبھایا تم نے ہمیں بدنام کیا

ہم نے مہر محبت کر کے شہر میں پیدا نام کیا

عشق نے ایسا روگ لگایا پر پرزوں کو جام کیا

“الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا

دیکھا اس بیماری ء دل نے آخر کام تمام کیا”

ہم نے اپنے وقت کے سارے ماہ وشوں سے یاری کی

دن کو لمبی تان کے سوئے ،شب کو شب بیداری کی

بھیگی بلی بن کر ہم نے گھر میں وقت گزاری کی

“نا حق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی

چاہیں ہیں سو آپ کریں ہیں ،ہم کو عبث بدنام کیا”

ہم نے سارے عہد نبھائے ، اس نے سارے توڑ دیے

ہم نے پھر بھی برا نہ مانا، جان کے رشتے جوڑ دیے

اک دن ہم نے پاگل پن میں عقل کے بھانڈے پھوڑ دیے

” ساعد سیمیں دونو اس کے ہاتھ میں لے کر چھوڑ دیے

بھولے اس کے قول و قسم پر ، وائے خیال خام کیا”

عشق و جنوں کے کھیل میں کار عقل جو ہے سو اتنا ہے

ادھر ادھر کے افسانوں میں اصل جو ہے سو اتنا ہے

ہجر کے اس کینوس میں رنگ وصل جو ہے سو اتنا ہے

“یاں کے سپید وسیاہ میں ہم کو دخل جو یےسو اتنا ہے

رات کو رو رو صبح کیا اور صبح کو جوں توں شام کیا

پھولوں کی رت بیت نہ جائے ،پیر مغاں کا نام جپو

ساقی کی مخمور نگاہیں گویا ہیں کچھ سنیئے تو

سوہنی شب ہے موہنی چھب ہے وعظ نصیحت رہنے دو

“میر کے دین و مذہب کا کیا پوچھتے ہو اب ان نے تو

قشقہ کھینچا ،دیر میں بیٹھا ،کب کا ترک اسلام کیا”