تضمینات اقبال :ایک جایزہ

یہ تحریر 4486 مرتبہ دیکھی گئی

ڈاکٹر بصیرہ عنبرین ماہر اقبالیات ،ایک مشاق محقق و نقاد اور مدون و مترجم ہونے کے ساتھ ساتھ فن شعر کے لوازمات جس میں شعر کے محاسن و معایب ،بیان و بدیع ، عروض و قوافی، عروضی مسایل اور شعر کے فنی مسایل اورفن شعر کے جملہ رموز و نکات و مباحث پر ان کی گہری نظر ہے اور شعور شعر، شعر شناسی اور شعر فہمی سے مکمل طور پر آگاہ ہیں اور فن شعر کی وہ روایت جو مشرقی انتقاد کا مابہ الامتیاز رہی ہے آپ اس روایت کی حامل ، امین ہیں ۔شعر اقبال کے اسرار رموز پر کامل دسترس رکھنے والی فاضل نکتہ دان ،شعر و سخن کے سر بستہ رازوں سے پردہ ہٹا کر عرصہ دراز سے اپنے طالبعلموں تک نقد شعر کا فہم پہنچانے والی عالم فکر افروز، اور تہذیب و شایستہ اور ہمدرد استاذ ہونے کے ناتے اپنے سیکڑوں تلامذہ کو اس فن سے روشناس کروایا، ایک زمانہ ان کے قلم کی جولانیوں کا معترف اور ان کی شعر شناسی اور اقبال شناسی سے آگاہ ہے، ان کی علمی و تنقیدی تصانیف محسنات شعر اقبال،” مقایسہ ارمغان حجاز”،”اقبال وجود زن اور تصویر کاینات” اور “تضمینات اقبال” منصہ شہود پر جلوہ گر ہونے سے لیکر اب تک اپنے حسن ابلاغ اور فکر دور رس کے چراغ روشن کر رہی ہیں تضمینات اقبال 2002 میں اشاعت پزیر ہونے والا تحقیقی و تنقیدی شہ پارہ مدت سے داد تحسین حاصل کر رہا ہے مبالغہ نہ ہو گا اگر علامہ کے فن پر اس موضوع پر دس بہترین کتب کی فہرست مرتب کی جاے تو میں اس کتاب کوان سب پر مقدم رکھوں گا اس موضوع پر یہ واحد مبسوط کتاب ہے جس میں ڈاکٹر صاحبہ نے مستند فارسی، عربی اوراردو کی معیاری کتب سے اخذ و استفادہ کر کے معلومات بہم پہنچائ ہے اس کتاب سے ان کا عالمانہ اسلوب اور بہترین شعری تنقیدی شعور جھلکتا ہے عربی اور فارسی پر مبنی کتب کے مآخذ و مصادر سے ڈاکٹر صاحبہ کی علمی لیاقت اور فارسی ادب سے ان کی دلچسپی محض کتب کے مآخذ تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ انھیں کلاسکی اور جدید فارسی لٹریچر پر مکمل عبور حاصل ہے اسی وجہ سے ان کی تنقیدی کتب میں عالمانہ متانت اور شان پائ جاتی ہے

ڈاکٹر صاحبہ کا شماراقبالیات کے ان ناقدین میں ہوتا ہے جنھوں نے اقبال کے شعر کا اطلاق مشرقی اصولوں پر کیا ،ان میں ایم ڈی تاثیر، یوسف حسین خان،سید مسعود حسن رضوی ادیب، سید عابد علی عابد، جابر علی سید، پروفیسر نذیر احمد،ڈاکٹر اسلم انصاری شامل ہیں ۔

حال ہی میں اقبال اکادمی کی ناظم اعلٰی کے عہدے پر متمکن ہویئں ہیں ، جو وطن عزیز کا سب سے بڑا قومی و ملی و ثقافتی ادارہ ہے اس کی ترقی و خوشحالی کے لیےوہ ہمہ وقت کوشاں ہیں -اس سے پہلے وہ اورینٹیل کالج پنجاب یونورسٹی میں اردو ادب کی موقر و معتبر استاذ تھیں مستزاد یہ کہ ایک لایق و ہمدردو توانا استاذ جن کی علمی بصیرت کے سبب ان کے بہت سے تلامذہ جن میں راقم بھی شامل ہے معترف ہیں ۔۔۔۔۔۔
وسعت مطالعہ ، سنجیدہ و متین فکر ،منظم قومی و ملی شعور جب ایک پیکر وجود میں ڈھلتا ہےتو ڈاکٹر بصیرہ عنبرین کی شخصیت جلوہ گر ہوتی ہے.

پروفیسر ڈاکٹر بصیرہ عنبرین بنیادی حیثیت سے ایک معلمہ ہیں مگر درس و تدریس کا وسیع سلسلہ محض ان کی ایک ذمہ داری ہے. ان کی دوسری ذمہ داریوں میں اقبالیات, تحقیق تنقید اور تدوین بھی ہے. انھوں نے اب تک ان ذمہ داریوں کو فرض شناسی کے ساتھ نبھایا ہے. اور مسلسل نبھا رہی ہیں,-

علامہ محمد اقبال کے فکروفن اور کلام و پیام کے متعلق بے شمار کتابیں لکھی گئیں ہیں. کئی مقالے اور مضامین شائع کئے گئے ہیں. ہر سال پاکستان ہندوستان اور بیرونی ممالک کے ادیب اور نقاد اپنی اپنی بزم میں شمع اقبال روشن کرتے ہیں. علامہ محمد اقبال کے فکر بلند کے ہر پہلو پر روشنی ڈالتے ہیں. اور ان کے اظہار و ابلاغ کے مختلف پیرایوں کوموضوع سخن بنا کر ان پر تنقید و تبصرہ کیا جاتا ہے.
بقول اقبال

ہیں ہزاروں اس کے پہلو رنگ ہر پہلو کا اور
سینے میں ہیرا کوئی ترشا ہوا رکھتا ہوں میں
دل نہیں شاعر کا ہے کیفیتوں کا رستخیز
کیا خبر تجھ کو درون سینہ کیا رکھتا ہوں میں

اگر شاعر عظیم کا دل ایک ایسے ترشے ہوئے ہیرے کی مانند تھا جس کے ہزاروں پہلو ہوں اور ہر پہلو کا رنگ جداگانہ ہو. تو اقبال کے قدر دانوں کی اکثریت اس ہیرے کے ہر پہلو کی عکاسی میں بڑی دلسوزی اور عرق ریزی سے کام لیا ہے تاکہ اس جگ مگ کرنے والے ہیرے کی نورانی کرنوں سے قلب انسانی کے تاریک گوشوں کو منور کیا جائے. اور اگر اس عظیم شاعر کا دل کیفیتو ں کی رستخیز تھا تو اقبال شناسوں نے اپنے زور تحریر اور قوت بیان سے کام لے کر ویسی ہی کیفیات کی ایک قیامت صغریٰ ہر مسلم کے دل میں برپا کردی. اقبال کے کلام کے لئے اس والہانہ شیفتگی کا اثر یہ ہوا کہ اب تک اقبال کے فکروفن کی تشریح کے لئے اتنی کتابیں لکھی جا چکی ہیں کہ ان کا حصر واحاطہ کرنے کے لئے کافی وقت اور محنت درکار ہے. اور اب یہ موضوع اقبالیات کے نام سے اردو ادب کا ایک مستقل اور منفرد شاخ خیال کیا جاتا ہے.

اور اردو ادب کے ذخائر میں ایک علیحدہ ذخیرہ تصور کیا جاتا ہے. اقبال کا کلام ایک بحر ناپیدہ کنار کی مانند ہے. اس بحر میں غواصی کرنے والوں کے لئے لاکھوں لولائے لالا باقی ہیں اور غوطہ زن اکثر گوہر بدست باہر نکلتے ہیں. اور نئے نئے مضامین کے موتیوں سے اقبالیات کے خزانے بھرتے رہتے ہیں. اس ضمن میں ڈاکٹر بصیرہ عنبرین کی اقبالی کاوشیں بھی بہ نظر استحسان دیکھی جائیں گی. کیونکہ ڈاکٹر صاحبہ نے اس بحر کی موج موج کو ٹٹولا اور صدف صدف کو موتیوں کی تلاش میں کھولا ہے.اور “تضمینات اقبال “کے در نایاب کو ایک لڑی میں پرو کر ارباب بصیرت کی خدمت میں پیش کیا ہے. ڈاکٹر صاحبہ نے ایک ایسا میدان منتخب کیا ہے. جس کے جاننے والے آج خال خال ہیں. عربی ،فارسی اور اردو کی علمی بازیافت کا یہ عمل بظاہر گھاٹے کا سودا بھی ہے کہ اس کے قدردان اور قدرشناس معدودے چند ہیں. لیکن ڈاکٹر صاحبہ نے جس لگن سے علم معانی وعلم بیان و بدیع کی تجدید تشکیل و ترویج و اشاعت پر کمر باندھی ہے اس لئے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ علوم ابھی ناپید نہیں ہوئے. اور مستقبل میں ان کے احیا اور بقا کا امکان موجود ہے.

اکثر دیکھا گیا ہے کہ اکثر علمی و تحقیقی کتب، ادب اور تخلیقیت سے عاری ہوتی ہیں مگر ڈاکٹر بصیرہ عنبرین کی اقبال پر کتب ان کی تمام علمی و ادبی تخلیقی و دانش ورانہ حیثیات یکجا ہو کر نظر آتی ہیں. ان کی تحریریں سادگی و پرکاری کا اعلیٰ نمونہ ہوتی ہیں. ان کی تحریروں میں ادب تخلیق ,تنقید اور فکرو دانش کا حسین امتزاج ملتا ہے. یہی وجہ ہے کہ “تضمینات اقبال” کے سبب ڈاکٹر صاحبہ نہ صرف اقبال شناس بلکہ اعلی درجےکی نقاد, محقق اور دانش ور کے طور پر پہچانی گئ ہیں . ان کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے کلام اقبال کی بڑی عرق ریزی اور باریک بینی سے تحقیق کی ہے. اور علامہ محمد اقبال کی آخری تصنیف “ارمغان حجاز “کے متن کا تقابلی مطالعہ ان کا ایک ایسا کام ہے جو اقبالی ادب میں وقیع درجہ رکھتا ہے
“تضمینات اقبال “ڈاکٹر صاحبہ کی ایک شاہکار تصنیف ہے جس پر جس قدر فخر کیا جاے کم ہے
یہ ایک ایسا سنجیدہ اور دقیق موضوع ہے جس کی تہہ در تہہ معنویت سے پردہ اٹھانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔بہرحال
تضمین کا فن بڑا نازک اور لطیف ہے. غزل کے شعراء کے لئے شعر کہنا تو آسان کام ہے. لیکن کسی دوسرے شاعر کے شعر پر تضمین کرنا مشکل کام ہے کیونکہ غزل کے ہر شعر میں شاعری داخلی کیفیات، لطیف ونازک احساسات اور اس کے علمی صلاحیتوں کے ارتعاشات موجود رہتے ہیں.
اصل شعر یا مصرع پر لگائے جانے والےمصرعوں کو پیوست اور ہم آہنگ کرنے کے لئے شاعر کو اپنے مصرعوں کی تخلیق کرتے وقت اپنی داخلی کیفیات ،لطیف نازک احساسات, لب و لہجہ اور اپنی صلاحیتوں کی سطح کے برابر لانا پڑتا ہے. جو خلاف فطرت ہے. صرف اتنا ہی نہیں اسے اور بھی کئی باتوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے. اور کئی نازک مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے. مثلا وہ سب سے پہلے تفہیم شعر کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس کےکچھ نامکمل پہلوؤں کی تلاش کرتا ہے. جب کہ غزل کا ہر شعر اپنی جگہ مکمل ہوتا ہے. اور اس کے کچھ نا مکمل پہلوؤں کی تلاش کرنا بہت مشکل کام ہے. ان سب دشوار مرحلوں سے گزرنے کے بعد تضمین کے جو مصرعے وجود میں آتے ہیں وہ اصل شعر یا مصرع کے ساتھ شیرو شکر ہو جاتے ہیں.جہاں تک میرے علم میں ہےتضمین کی اصل بحیثیت ایک سند کے صرف اور صرف عربی و فارسی نظام فن میں دستیاب ہے. مغرب میں اگر کسی دوسرے ادیب کا کو ئی فقرہ یا سطر اخذ کی جاتی ہے تو اسے allusion کا نام دیا جاتا ہے.ہمیشہ یہ ایک شعوری عمل نہیں ہوتا بلکہ کسی سلسلۂ موضوع یا خیال کی رو, رعایت, تطابق یا مشابہہ کے طور پر کسی تلازمے سے لاشعوری سطح پر بھی ایک رشتہ قائم کر لیتی ہے. البتہ جہاں قلم کاری کا محل ہے وہاں ہمیشہ کوشش کو دخل ہوتا ہے. قلم کار اپنے مقصد کے مطابق اصل مواد و ہئیت کو کسی دوسرے سانچے میں ڈھالنے کی سعی کرتا ہے. اسی طرح اصل اور قلب میں بڑی خلیج واقع ہو جاتی ہے. تضمین نہ تو allusion کا دوسرا نام ہے. اور نہ ہی بعینہ قلب کاری ہے. اسے قلب کاری سے ایک حد تک مشابہہ ضرور قرار دیا جا سکتا ہے.
تضمین محض دماغی ورزش بھی نہیں ہے. اس فن کی بہترین مثالیں بھی انہیں شعراء کے یہاں دستیاب ہے. جنھیں نسبتاً زبان و بیان پر قدرت تھی اور جو ایک مضمون کو سو سو رنگ میں باندھنے کا ملکہ رکھتے ہیں. پھر یہ کہ جس مصرع یا شعر کو بنیاد بنایا جاتا تھا اس سے انتخاب کرنے والے کی نظر اور بصیرت کا بھی پتہ چلتا ہے. بالعموم معروف اور زبان زد اشعار اور مصرعے ہی اخذ کئے جاتے ہیں. تاکہ پڑھنے اور سننے والے کا ذہن فورا اصل کی طرف منعطف ہو جائے اور وہ ہر دو تجربے سےپوری طرح لطف اندوز ہو سکے. تضمین کے ذریعے شاعر محض اپنی ریاض, مشق اورممارست ہی کا ثبوت فراہم نہیں کرتا. بلکہ اصل سے مماثل اپنے تجربوں سے اسے دو آتشہ بنانے کی سعی کا پہلو بھی اسی میں مقدر ہوتا ہے. کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ تضمینی شعر اصل سے زیادہ مقبول ہو جاتا ہے. اور ہم اصل کو ڈھونڈ نکالنے کی بھی زحمت نہیں کرتے. جیسے غالب کی مثال بہت سامنے کی ہے.

اپنا یہ غالب عقیدہ ہے بقول ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میرنہیں

کبھی تضمین ہمیں اصل کی تلاش کے لئے مجبور کر دیتی ہے. پھر ایک دوسری نہج پر ہی اصل سے ہمارا معاملہ ہوتا ہے. اس طور پر اصل کی وقعت ہمارے ذہنوں میں کچھ اور بڑھ جاتی ہے. بہر حال تضمین نگار کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ بڑے سوچ سمجھ کے اس میدان میں قدم رکھے. مثلا غالب ، اقبال یا میر کے اشعار یا مصرعوں کو اگر بنیاد بنایا گیا ہے تو تضمین نگار کے لئے زبان و بیان کے تعلق سے کم از کم ان کے انفراد کی پوری فہم ہونی چاہئیے. اور اس طرح کی فہم کے معانی کچھ تنقیدی بصیرت کے ہیں. جو چیزوں میں امتیاز کرنا جانتی ہے اگر شاعر اس فہم سے عاری ہے تو اس کا تجربہ بھی لخت لخت ہوگا
. تضمین کے معانی ہی ضم کرنے کے ہیں اور یہ ضم یکطرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ ہوتا ہے. کہ اول اور ثانی ہر دو تجربہ ایک دوسرے میں تحلیل ہوکر ایک نئی وحدت کا سراغ بن جائے.

ایک مصرع یا ایک شعر اس کے متعلق دوسرے بہت سے لا شعور یا نہاں کدۂ ذہن کے کونے کھدروں میں دبے ہوئے دوسرے خیالات کا محرک بن جاتا ہے. کالرج نے غلط نہیں کہا تھا:

“کہ خیالات, خواہشات اور محسوسات ذہن کے تفاعل کی شکلیں ہیں”
ایک سرا ملتا ہے اور دیگر کئی مشابہہ خیالات اور تاثرات ذہن میں برانگیخت ہو جاتے ہیں. غور کیا جائے تو تضمین کے عمل کے دوران شاعر کم وبیش اسی نوع کے تجربات سے گزرتا ہے. ان معنوں میں تضمین میں چسپاں کئے ہوئے مصرعوں کو گیان چند کی طرح حشو وزائد قرار نہیں دیا جا سکتا.جس طرح اردو غزل فارسی سے اور فارسی غزل عربی سے ماخوذ ہے اسی طرح تضمین کی روایت فارسی سے اردو میں آئی ہے.

فارسی کے متعدد کلاسیکی شعرا کے کلام کی تضمینیں فارسی میں ہوئی ہیں. شیخ سعدی کے کلام کی تضمینیں فارسی کے ایک شاعر غلام حسین امیر خانی نے کی ہیں جو “تضمین گل چین سعدی” کے نام سے شائع ہوئی ہے. دکنی شعرا کے کلام میں فارسی غزلوں اور ہندی دوہوں کی تضمینیں ملتی ہیں. اٹھارہویں صدی میں میر, سودا ,درد, مصحفی, انشا اور نظیر اکبر آبادی کے علاوہ کئی دوسرے شعرا کے کلام میں بھی بے شمار تضمینیں ملتی ہیں. انیسویں صدی میں سب سے زیادہ تضمینیں کی گئی ہیں. عربی فارسی کے نعتیہ قصیدے اور ہندی دوہوں پر متعدد شعرا نےتضمینیں کی ہیں. قدسی کی نعت پر سب سے زیادہ تضمینیں کی گئیں ہیں. جس کا مجموعہ “حدیث قدسی “کے نام سے شائع ہو چکا ہے. حکیم قطب الدین سعد نے میر حسن کی مثنوی سحر البیان کے پورے اشعار کا خمسہ کیا ہے. جو “اعجاز رقم ” کے نام سے شائع ہو چکا ہے. بیسویں صدی کے شعرا میں صبا اکبر آبادی, اور مرزا سہارن پوری نے مکمل دیوان غالب کی تضمینیں کی ہیں. جو شائع ہو چکی ہیں. اس کے علاوہ متعدد شعرا کی تضمینوں کا مجموعہ مختلف ناموں سے شائع ہو چکا ہے. مطالعہ تضمین کے اس طویل سفر میں بے شمار شعرا نے جتنی تضمینیں کی ہیں ان سب کا جائزہ لینا اور اس پر تنقید کرنا ایک مشکل امر ہے.
اردو شاعری فارسی شاعری کی دلکشی اور بانکپن کے ساتھ کمزور اور ہیچ نظر آتی تھی. لہذا اس عہد کے شعرا نے اپنی شاعری کا معیار بلند کرنے اور قاری کے اشعار کی سی دلکشی پیدا کرنے کے لئے جہاں فارسی شاعری سے دلکش تر کیبیں، معنی خیز اصطلاحات, پر لطف تشبیہات و استعارات اور لطیف احساسات اخذ کیے. وہیں فارسی اشعار کے ترجمے اور تضمینیں بھی ہوئیں. تاکہ اردو کو فارسی کا ہم پلہ بنایا جا سکے. اسی رحجان اور جذبہ کے تحت اٹھارہویں صدی کے شعرا نے فارسی کے اشعار پر کافی تضمینیں کیں ہیں.جن میں میر تقی میر, مرزا محمد رفیع سودا اور نظیر اکبر آبادی قابل ذکر ہیں. میر, سودا اور نظیر نے فارسی کے اشعار پر دلکش تضمینیں اور تضمین نگاری کے دلکش پہلوؤں سے اردو شاعری کو آب و رنگ بخشا. قاری فارسی اشعار کی کیفیات کی باز آفرینی اور غزل کے اشعار کی رمزیت اور تہہ داری سے شعر کے مفہوم کی نئی توجہ کر کے تضمین کے فن کو بام عروج تک پہنچایا. میرو سودا اور نظیر نے ہئیت کے اعتبار سے تضمین کے تمام امکانات کو بروئے کار لانے کی کامیاب کوشش کی ہے. ہئیت کا جیسا تنوع نظیر کی تضمین نگاری میں ملتا ہے اس کی مثال اس دور کے کسی اور تضمین نگار کے ہاں نہیں ملتی. مخمس, مسدس, مثلث, مثمن, ترکیب بند, ترجیع بند اور قطع کے علاوہ مصرع کی تضمین کے قابل قدر نمونے اس دور میں ملتے ہیں.انیسویں صدی میں بھی تضمین نگاری کی یہ روایت برقرار رہی. اس عہد میں غزل کے علاوہ نعتیہ, قصیدے, مثنویاں اور طویل قطعوں کی بھی تضمینیں کیں گئیں. لیکن تضمین کی ہئیت میں کوئی تبدیلی نہ آئی. اس عہد کے ممتاز اور مشہور شاعر غالب اور ذوق کو تضمین کا کوئی شوق تو نہیں تھا لیکن پھر بھی غالب نے بہادر شاہ ظفر, داغ, میر مہدی جیسے شعراء جنھوں نے فارسی غزل کی تضمین کر کے اس کو مشہور کر دیا.

اقبال نے فارسی کے برگزیدہ شعراء کے اعلی ترین اشعار پر تضمین کی ہے. اقبال کے اس شاعرانہ عمل سے تضمین کے فن کی اہمیت پر مہر تصدیق ہوگئی ہے. اور یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ اقبال کسی مشہور اور بلند پایہ شاعر کی شہرت کے سہارے اپنی ناموری نہیں چاہتے تھے. اقبال روایت پرست شاعروں کی طرح قافیہ پیمائی کے قائل نہیں اور سچ تو یہ ہے کہ ان کی شاعری کا تصور بھی اردو شاعری کی روایت سے مختلف ہے. وہ شاعروں کو دیدہء بنائے قوم سمجھتے ہیں. اور قوم کے درد میں آنسو بہانے کو شاعر کا مقدس فریضہ قرار دیتے ہیں. شعری روایت کو توسیع دے کر قدیم اصناف کو جدید تر خیالات کے اظہار کا وسیلہ بنا دینا اقبال کا کارنامہ ہے. انھوں نے جس طرح پرانی علامتوں کو نئے معانی دئیے, اسی طرح بعض قدیم اسالیب کو بھی نئی معنویت کے ابلاغ کا ذریعہ بنایا. تضمین میں کسی رمزیت کو نئی توجیہہ اور نئی تعبیر کا حامل بنا دینا کمال فن سمجھا گیا ہے. اقبال نے اپنی نظموں میں اس فن کآ ایسا جادو جگایا ہے کہ اس کی نظیر اردو شاعری میں نہیں ملتی. فارسی اساتذہ کے اشعار کو اپنی نظم کے اشعار سے اس طرح پیوست کیا ہے کہ اگر اس نظم سے وہ شعر ہٹا دیا جائے تو نظم ناتمام معلوم ہوتی ہے. اس دعوے کی دلیل میں ڈاکٹر بصیرہ عنبرین نے بہت سی مثالیں اپنی کتاب میں پیش کی ہیں ۔اردو شاعری میں سب سے پہلے تضمین کا انداز شبلی نے اردو نظم کو دیا. جس سے تضمین کے امکانات کو نمایاں وسعت ہوئی. جس کو اقبال نے بام عروج تک پہنچا دیا اقبال ہی کی بدولت تضمین کے فن کو نئی زندگی ملی. اور اس کی معنویت اور اہمیت مسلم ہوئی.

,,ڈاکٹر بصیرہ عنبرین نےاقبال کی تضمین نگاری کے موضوع کا انتخاب کیا. جو ان کی دشوار پسند طبع کی بھی دلیل ہے. ہمارے اکثر اسکالرز نثری ادب اور بالخصوص افسانوی ادب

کی طرف زیادہ راغب ہوتے ہیں شاعری کے فن سے متعلق موضوعات سے ان کی دلچسپی میں جو بتدریج کمی واقع ہوتی جارہی ہے اسے کوئی بہتر صورت حال کا نام نہیں دیا جا سکتا. یوں بھی تضمین نگاری کے فن ،تضمین نگار شعرا یا اقبال کی تضمینات یا تضمینوں پر ابھی کوئی ایسا تنقیدی اور تحقیقی کام بھی نہیں ہوا ہے. جو اس فن سے دلچسپی رکھنے والوں کو نہ صرف یکجا صورت میں بیک وقت بہت سا مواد مہیا کر سکتا ہے. بلکہ علم اور معلومات کے علاوہ ان کی ترغیبات کو بھی برقرار رکھ سکے. پروفیسر حامد حسن قادری کا مضمون موسوم “غالب کی تضمینیں “یا ڈاکٹر سید حامد کا مضمون بعنوان “اقبال اور تضمین نگاری” تھوڑی بہت ہماری تشفی کا سامان ضرور مہیا کرتا ہے. لیکن اس طرح کے مضامین کی اپنی ایک حد ہوتی ہے. ڈاکٹر بصیر ہ عنبرین نے میر اور غالب سے اقبالی عہد تک کے شعراء کی بہترین تضمینوں پر نہ صرف تحقیق کی ہے بلکہ ان کا تقابل بھی کیا ہے. تضمین نگاری کے فن کے تقاضوں اور نزاکتوں پر سیر حاصل بحث بھی کی ہے. یہ کام ان کے تحقیقی شعور ہی کا مظہر نہیں ہے. بلکہ ان کے اس تنقیدی شعور کا بھی بخوبی ثبوت فراہم کرتا ہے. جو چیزوں میں امتیاز کرنے کی استعداد رکھتا ہے. تضمین نسبتاً ایک محدود تر موضوع ہے جسے خشک اور غیر دلچسپ بھی کہا جا سکتا ہے ڈاکٹر بصیرہ عنبریںن کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے کچھ ایسے سامان ضرور مہیا کئے ہیں جو ہماری توجہ کو برقرار رکھنے اور دلچسپی کو قائم رکھنے میں ممد ثابت ہوئے ہیں. اسی نکتے میں ان کی کامیابی کا راز بھی مضمر ہے.”تضمینات اقبال” کے اب تک دو ایڈیشن چھپ چکے ہیں. اس کا اولین ایڈیشن بزم اقبال لاہور سے2002ء میں شائع ہوا. اور اس کا دوسرا ایڈیشن دارالنوادر لاہور سے 2014ء میں شائع ہوا. یہ کتاب 240 صفحات پر مشتمل ہے. ڈاکٹر موصوفہ نے اسے اپنے والد محترم، محمد رفیق مرزا کے نام سے معنون کیا ہے. اس کا دیباچہ
” ستارہ می شکند، آفتاب می سازد”کے عنوان سے اردو ادب کے نامور محقق و نقاد پروفیسر ڈاکٹر تحسین فراقی نے لکھا. اور کتاب کے فلیپ پر ایک عالمانہ مگر جامع تبصرہ عربی کے ممتاز استاذ ڈاکٹر خورشید الحسن رضوی کا ملتا ہے.جس میں دونوں حضرات ڈاکٹر صاحبہ کے علمی کارنامے کا برملا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحبہ لکھتی ہے کہ اس کتاب میں پہلی بار تضمین کو محض لفظی صنعت قرار دینے کی بجائےبا ضابطہ ایک فن کے طور پر دیکھا گیا ہے. چنانچہ اس کی نوعیت طریقہ کار, انواع و اقسام, اغراض و مقاصد اور فوائد و ثمرات پر تفصیلی بحث کی گئی ہے. اور پھر کلام اقبال اردو و فارسی پر اس کا اطلاق کیا گیا ہے.مزید یہ کی شعر اقبال میں تضمین کی صنعت کا جائزہ لینے کے لئے تضمین شدہ شعری سرمائے کے اصل ماخذ ومصادر تک رسائی کو ضروری خیال کیا گیا. تا کہ یہ معلوم ہو سکے کہ متضمن شعر حقیقی صورت میں کیا تھا. تضمین کے نتیجے میں اس کے فکری وطنی پہلو کس طرح یا کس طور پر نکھر کر سامنے آئے. یوں اقبال کی تمام تر تضمینوں کا ایک مربوط مطالعہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی.
اس تحقیقی مطالعہ کے نتیجے میں تضمینی امکانات تو سامنے آتے ہی ہیں لیکن اقبال کی وسعت مطالعہ اور مہارت فنی کو دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوتی ہے
یہ کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے.
پہلے باب میں تضمین کے فن کی تعریف اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے. اس فن کے نازک اور لطیف پہلوؤں کو سامنے رکھ کر یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے. کہ شاعر کی تھوڑی سی لاپرواہی کس طرح تضمین کے فن کو مجروح کر دیتی ہے. لیکن اس فن کی تمام نزاکتوں اور باریکیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے تضمین کی جائے تو تضمین میں دلکشی اور لطف پیدا ہوجاتا ہے. جو تغزل کے اشعار میں پایا جاتا ہے.

تضمین کی مختلف ہئیتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ بتایا گیا ہےکہ تضمین کے لئے کسی خاص عہد کی قید نہیں ہے. تضمین سے کسی طرح کسی شعر یا مصرع کا مفہوم کو بدلا جاسکتا ہے. یا اس میں توسیع کی جا سکتی ہے. یا کسی طرح کسی کے شعر یا مصرعے کو تضمین کے سہارے مقبول و مشہور بنایا جا سکتا ہے. یا اسے غارت کیا جا سکتا ہے. ان سب پہلوؤں پر اس باب میں روشنی ڈالنے کی سعی کی گئی ہے.اسی پہلے باب میں فارسی کے ان شعراء کے مختلف تعارف کے ساتھ ان کی مختلف انداز فکر کا جائزہ لیا گیا ہے. جن کے مصرعوں یا اشعار کی تضمین اردو کے مختلف شعراء نے کی ہیں. اس سے اردو کے مختلف شعراء کے قوی تخیل کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ کس طرح ان شعرا نے فارسی کے شعرا کے ایسے اشعار کو بھی اپنے مخصوص فکری نظام میں سمونے کے قابل بنالیاجو بظاہر مختلف انداز فکر کی پیداوار ہے. اور اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اٹھارہویں صدی کے شعراء مثلا میر, سودا, درد, نظیر, مصحفی اور انشا کی تضمین نگاری کا تفصیلی جائز ہ لیتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس صدی میں شعراء نےفارسی کے کلام کی اثر آفرینی اور تہہ داری سے متاثر ہوکرفارسی کے اشعار اور ترجمےکیے ،جس سے اردو کو فارسی کی طرح دلکش اور پرلطف بنایا جا سکے. اس جذبے اور رحجان کی وجہ سے اٹھارہویں صدی میں تضمین کو کافی فروغ ملا
.باب دوم
“اقبال کے اردو کلام کی تضمینات”
میں اقبال کے اردو کلام میں تضمینات کا جایزہ لیا گیا ہے۔ڈاکٹر صاحبہ لکھتی ہیں :

” اقبال کا کمال یہ ہے کہ وہ تضمین کو اظہار مطلب کا وسیلہ بنانے کے لئے کسی دوسرے شاعر کے شعر یا مصرعے پر اس طرح گرہ لگاتے ہیں. کہ نہ صرف شعر کی اجنبیت اور نا مانوسیت ختم ہو جاتی ہے بلکہ تضمین شدہ شعر یا مصرع ان کے اپنے کلام ہی کا حصہ معلوم ہونے لگتا ہے.”
اقبال کی ان منفرد تضمینات کے پیش نظر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ انھوں نے اپنی خداداد تخلیقی صلاحیت, ذہانت, قوت مرضیہ, فکری گہرائی اور وسعت مطالعہ سے کام لے کر اپنے کلام میں ترفع اور معنویت پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ روایتی انداز تضمین میں بھی جدت, تازگی اور وسعت پیدا کر دی ہے .اقبال کے اردو کلام میں فنی تضمین متنوع انداز میں حلوہ گر ہوا ہے. بانگ درا, بال جبریل, ضرب کلیم اور ارمغان حجاز میں انھوں نے خود اپنی اور باقی شعرا کے کلام کو تضمین کرنے کے ساتھ ساتھ معروف و غیر معروف فارسی شاعروں کےاشعار ومصاریع کو بھی تصحیح معانی اور ترسیل فکر کے لیےمستعار لیا
.اقبال کے اردو کلام کی تضمینات کا جائزہ ہمیں اس حقیقت سے روشناس کرواتا ہے کہ اقبال نے ابتدا ہی سے اس فن میں دلچسپی لیاقت ان کی وفات تک فن تضمین مختلف انداز میں ان کے کلام میں جلوہ گر رہا .بغور دیکھیں تو اقبال وہ نادر روز گار شاعر ہے جس نے پیش رو شعرا کے مقابلے میں تضمین کو ایک نیا انداز دیا. کلام اقبال میں ماقبل اردو شعرا مثلا شیفتہ, ذوق, غالب, اور امیر مینائی کے اشعار ومصارع بھی تضمین ہوئے ہیں. اقبال کی توجہ خود اپنے کلام کی تضمین کی طرف بھی رہی. تاہم ان کی نگاہ انتخاب زیادہ تر فارسی شاعری کی اقلیم پر پڑی اور انھوں نے فارسی کے کم وبیش ہر قسم کے شعر سے تعلق رکھنے والےشعرا کے کلام کو اپنے مطمح نظر کی ترسیل کے لئے معاون سمجھا.اردو مجموعہ کلام میں بانگ درا میں اقبال کی توجہ زیادہ تر قومی و ملی حوالوں سے تضمین کرنے کی طرف رہی. اور انھوں نے اس کی وساطت سےمختلف فکری موضوعات کی تشریح و توضیح کمال بلاغت سے کی ہے. بال جبریل کی غزلیات دو بیتی اور نظموں میں اقبال نے تضمین سے کلام کی دلکشی اور وسعت معنی کا کام لینے کے ساتھ ساتھ اس سے اپنی داخلی کیفیات کا ترجمان بنایا. ضرب کلیم میں اپنے مختلف عصری مسائل پر طبع آزمائی کرتے ہوئے وہ شعرائے فارسی کے زیر تضمین کلام کو موضوعاتی تسلسل کا استعمال کرتے ہیں. ارمغان حجاز پر اپنے نکتۂ نظر پر دلالت کے لئے فن تضمین کی طرف اس طرح متوجہ ہوئےکہ تضمین شدہ شعر اور مصرعے ان کے کلام کا حصہ معلوم ہوتے ہیں. گویا پورے اردو کلام میں اقبال کے ہاں معروف اور غیر معروف شعراء کے کلام پر عمدہ تضمینات ملتی ہیں. وہ نہ صرف تضمینات شدہ کلام سے اپنے کلام کی رونق میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ دوسرے شعرا کا کلام بھی اپنے اصل سیاق و سباق سے ہٹ کر ایک نیا اور منفرد انداز اختیار کرتے ہیں.علامہ اقبال نے اپنے اردو کلام میں جس فنی پختگی سے تضمین استعمال کیا ہے. اس سے ان کی قدرت کلام کے ساتھ ساتھ وسعت مطالعہ کا بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے. مزید برآں ان تضمینات کے مطالعے سے ان کے محبوب فارسی شعرا کا سراغ ملتا ہے. اقبال کے اردو کلام کی تضمینات کی انھی گو نا گوں خصوصیات کے پیش نظر یہ کہنا کامل درست ہوتا ہے. اقبال کی تضمینیں وسعت علم اور نقطہ آفرینی کی نہایت عمدہ مثالیں ہیں
.ڈاکٹر تحسین فراقی لکھتے ہیں :
” محترمہ بصیرہ عنبرین نے اقبال کے تضمین کردہ اشعار کو من و عن قبول نہیں کیا. بلکہ انھیں اصل متون میں ڈھونڈا اور ان کا تقابل کیا.بنیادی ماخذ اور منابع تک رسائی آسان کام نہ تھا. مگر بصیرہ اس کار مشکل میں بخوبی عہدہ برآں ہوئیں ہیں. متعدد ایسے تضمین کردہ اشعار بھی تھےجیسے متداول دواوین میں نہیں ملے چنانچہ انھوں نے اس مشکل کا حل یہ نکالا کہ بہت سے اہم تذکروں اور طیاروں کو کھنگالا”

.تیسرا باب
” اقبال کے فارسی کلام کی تضمینات “
پر مشتمل ہے اس میں ڈاکٹر صاحبہ نے فارسی کلام میں تضمینات کا جایزہ لیا ہے وہ لکھتی ہیں
“تضمینات اس اعتبار سے لائق ستائش ہے کہ اقبال نے اپنے تمام مجموعہ ہائے کلام میں اس بات سے بخوبی استفادہ کیا ہے. اقبال کا کمال خاص یہ ہے کی تضمین شدہ اشعار اور مصرعے ان کے اپنے کلام کے ساتھ کلی طور پرمربوط ہے. اور کلام کی معنویت بڑ ھانے کے ساتھ ساتھ شاعر کے داخلی احساسات و جذبات سے ہم آہنگ دکھائی دیتے ہے ان تضمین شدہ اشعار و مصاریع سے اقبال کے کلام کا پایہ بلند ہوا ہے.
بغور دیکھیں تو انھوں نے زیر تضمین کلام پر عمدہ اور بر محل اشعار اور مصرعے باہم پہنچا کر اس کے معنوی حسن اور دلکشی میں اضافہ کر دیا ہے.تاہم اقبال کی برتری کی وجہ یہ ہے کہ وہ کسی خاص سبک میں جذب نہیں ہوئے. بلکہ ان کا اپنا ایک منفرد انداز بیان ہے. جسے “سبک اقبال” کا نام دیا گیا ہے بلاشبہ اقبال کی یہ تضمینات ان کے اس منفرد انداز بیان کی آئینہ دار ہیں. اور ان کی ذہانت, وسعت مطالعہ اور قدرت کلام پر دلالت کرتی ہیں بقول ڈاکٹر خورسید الحسن رضوی :

“بصیرہ عنبرین نے زیر نظر تصنیف میں خود فن تضمین اس کے لغوی و اصطلاحی پس منظر, انواع واشکال اور اسالیب وروایات کاعمومی جائزہ لینے کے بعد خاص اقبال کی تضمینات کے حوالے سے نہایت قابل قدر کام کیا ہے. اور حتی الامکان کلام اقبال اردو و فارسی میں تضمین کئے گئے تمام اشعار اور مصرعوں کی اصل صورت اور اصل شعرا کی نشاندہی کر کے میدان تحقیق میں ایک مفید خدمت سر انجام دی ہے.”۔