تبصرہ ناول: جندر

یہ تحریر 2233 مرتبہ دیکھی گئی

اختر رضا سلیمی کا ناول جندر 2017 میں شائع ہوا اور اسے یو بی ایل ایوارڈ (فکشن) سے بھی نوازا گیا بعد ازاں ترکی حکومت نے اس ناول کو اپنے نصاب میں شامل کرلیا جو کہ ایک اعزاز کی بات ہے۔
اختر رضا سلیمی کا تعلق ہری پور سے ہے۔ان دنوں حصولِ معاش کے سلسلے میں اسلام آباد مقیم ہیں اور بطورِ چیف ایڈیٹر، اکادمی ادبیات پاکستان میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ شاعر، نقاد اور ادیب بھی ہیں۔ان کا اب تک ایک شاعری کا مجموعہ خواب دان اور 2 ناول منظر عام پہ آچکے ہیں جن میں “جاگے ہیں خواب” اور “جندر” شامل ہیں۔ ان سے پہلا تعارف ان کے ناول “جندر” کے ہی باعث ہوا۔

لفظ جندر سے مراد پانی سے چلنے والی پن چکی کے ہیں۔ جو اکا دکا اب بھی پہاڑی علاقوں میں نصب ہیں۔ یہ ناول ایک مٹتی تہذیب کا نوحہ ہے۔ جس میں ایک جندروئی کی کہانی ہے، جو اپنے وجود کے ساتھ اس تہذیب کو بھی مرتا دیکھتا ہے۔ جس کی بنیاد اس کے اجداد نے رکھی تھی۔ مصنف نے اس مٹتی تہذیب کو اس کہانی میں دوبارہ امر کردیا کیونکہ جو قاری اس سے پہلے جندر سے ناواقف تھے انہیں اس کے متعلق جاننے کو ملا۔ انسان جیسے جیسے ترقی کرتا ٹیکنولوجی کی طرف سفر کرتا ہے تو اپنی گزشتہ تہذیبوں کو بس تصویری صورت میں محفوظ کرلیتا ہے، جیسے گزرے وقتوں میں مواصلاتی نظام خط و کتابت کا تھا مگر رفتہ رفتہ ان کی جگہ موبائل فون اور انٹرنیٹ نے لے لی۔ اگر دیکھا جائے تو کسی تہذیب کے معدوم ہونے سے سب سے زیادہ متاثر وہ لوگ ہوتے ہیں جو پیشہ ورانہ اس تہذیب سے منسلک ہوتے ہیں اور ان کے لئے نئی تہذیب ان کی موت کے برعکس ہوتی ہے۔ اس ناول کا پھیلاؤ جندر کے دائرے جتنا ہی ہے مگر اس میں کردار، فکشن اور بالخصوص منظر کشی بہت عمدہ کی ہے اور پڑھتے سمے جندر آپ کے سامنے گھومتا نظر آتا ہے۔ناول کا پلاٹ مختصر ہے مگر کہانی کی گرفت بہت مضبوط ہے جو قاری کو پہلی سطر سے ہی اپنے ساتھ بہائے چلی جاتی ہے اور اختتام ایک آبشار کی مانند ہوتا ہے۔ ناول میں موت کے فلسفہ کو بہت عمدہ طریقے سے بیان کیا گیا ہے کہ یہ زندگی کے ساتھ کسی جسم میں داخل ہوجاتی ہے۔ ناول میں کردار کم ہیں جو کہ بہت اچھی بات ہے جتنے کردار کم ہوں کہانی پختہ ہوسکتی ہے۔ یہ اختصار پر مبنی ناول ہے جو اپنے منفرد موضوع اور کہانی کے باعث بہت اہمیت کا حامل ہے۔

ناول کا مرکزی کردار ولی خان نامی جندروئی ہے۔ جندروئی جندر چلانے والے کو کہتے ہیں۔ ناول کی کہانی گاؤں سے ایک میل دور ندی کنارے لگے جندر سے شروع ہوتی ہے جہاں ولی خان بستر پر تہہ گردن، لحاف اوڑھے اسی سوچ میں گم ہوتا ہے کہ بعد از مرگ اس کی لاش پہ سب سے پہلے آنے والا کون آدمی ہوگا جو اس کی موت کی خبر گاؤں والوں تک پہنچائے گا اسی سوچ میں ڈوبا ولی خان جس کی تمام عمر اسی جندر پہ گزر گئی اپنے گزرے واقعات کو آخری بار اپنی دانست میں تازہ کرتا ہے۔ اس کا بیٹا راحیل جو اسے چھوڑ کر شہر چلا جاتا ہے اور وہاں بڑا افسر بن جاتا ہے وہ اپنے باپ کہ جندروئی ہونے پر شرم محسوس کرتا ہے۔ ولی خان کی پیدائش کے وقت اس کی ماں چل بسی اور پھر اسے باپ نے پالا جو اپنے بزرگوں کے لگائے جندر پہ کام کرتا اور اپنا اور ولی خان کا پیٹ پالتا ہے۔ جب ولی خان میٹرک مکمل کرتا ہے تو اس کے باپ کا بھی انتقال ہوجاتا ہے پھر یہ پڑھائی چھوڑ کر اپنے ذاتی جندر پہ بیٹھ جاتا ہے، ولی خان کے دادا کا بھائی بابا جمال دین اس کے پاس جندر پہ اکثر آیا کرتا تھا اور اس کی یاسیت دور کرنے کے لیے قصے کہانیاں سنایا کرتا ولی خان کو بھی کتابیں پڑھنے کا شوق تھا وہ بھی اپنی پسند کے روسی ادب کا ترجمہ پڑھتا اور اپنے بابا جمال دین کو بھی سناتا انھیں دنوں اس کی ایک کزن جو گاؤں کی پہلی میٹرک اور پھر بی اے پاس لڑکی ہوتی ہے سکول سے واپسی پہ اس کے پاس جندر پہ آجاتی اور دونوں خوب ادب پڑھا کرتے اور اپنے بابا کو بھی باری باری سناتے اور واپسی پر وہ بابا جمال دین کے ساتھ گھر جایا کرتی۔ کچھ عرصہ بعد لڑکی بضد ولی خان سے شادی رچا لیتی ہے کیونکہ وہ ولی خان کو آزاد مرد سمجھتی جو کسی کا پابند نہیں ہوتا مگر شادی کے بعد ولی خان اسے خود اس بات سے آگاہ کردیتا ہے کہ اسے بغیر جندر کی ہوک سنے نیند نہیں آتی اور اسے سکون کے لمحات اسی ہوک کے سبب حاصل ہوتے تو اس کی بیوی بچے کی پیدائش کے بعد اس سے علیحدگی اختیار کر کے گاؤں والے گھر رہنے لگتی ہے اور ولی خان اسے خرچ بھیجتا رہتا ہے۔ جب بیٹا جوان ہوتا ہے اور شہر جا کر افسر بن جاتا ہے تو وہ ماں کو اپنے ساتھ لے جاتا اور چند عرصہ بعد ماں کا انتقال ہو جاتا ہے۔ بیٹا جب بھی گاؤں جاتا باپ کو کہتا کہ میرے ساتھ شہر چلیں اور یہ کام چھوڑ دیں اس میں میری ہتک ہوتی ہے۔ ولی خان کی مانوسیت جندر کی ہوک سے اتنی بڑھ جاتی ہے کہ بعیر اسے سنے وہ خواب نہیں دیکھ سکتا جب پنتالیس دن قبل اس نے آخری چونگ جندر میں ڈالی تو اسی سوچ میں گم ہوگیا کہ اب کس نے یہاں آنا ہے اب تو گاؤں میں بھی اس کے بیٹے راحیل نے بجلی سے چلنے والی چکی نصب کروا دی ہے تاکہ اس کا باپ جندر چھوڑ کر گاؤں آجائے مگر اسے کیا معلوم کہ وہ اپنے ہاتھوں اپنے باپ کا خون کرگیا۔

ناول سے چند اقتباسات ملاحظہ کیجیۓ۔۔۔۔

“مجھے یقین ہے کہ جب پوپھٹے گی اور روشنی کی کرنیں دوازے کی درزوں سے اندر جھانکیں گی تو پانی سر سے گزر چکا ہوگا اور میری سانسوں کا زیرو بم، جو اس وقت جندر کی کوک اور ندی کے شور سے مل کے ایک کرب آمیز سماں باندھ رہا ہے، کائنات کی اتھاہ گہرائیوں میں گم ہو چکا ہوگا اور پیچھے صرف بہتے پانی کا شور اور جندر کی اداس کوک ہی رہ جائے گی؛ جو اس وقت تک سنائی دیتی رہے گی جب تک جندر کے پچھواڑے موجود، معدوم ہوتے راستے پر سے گزرتے ہوئے، کسی شخص کو اچانک میرا خیال نہ آجائے اور وہ یوں ہی بغیر کسی پیشگی منصوبے کے، محض میرا اتا پتا کرنے جندر کے صحن کو اس اجاڑ راستے سے نلانے والے، سات قدمی زینے پر سے اترتا ہوا جندر کے دروازے تک نہ آجائے۔”
(ص۔1۔1)
“زندگی کے ہزار رنگ ہیں مگر موت کا ایک ہی رنگ ہے؛ سیاہ رنگ، جو زندگی کے تمام رنگوں کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے۔ مجھے زندگی کے رنگوں کا شعور بعد میں ہوا۔میں نے موت کے سیاہ رنگ کا شعور پہلے حاصل کیا۔”
(15-ص 102)
“میں نے ہمیشہ یہی سنا ہے کہ موت آتی ہے تو انسان مر جاتا ہے۔ لیکن میرے خیال میں موت کہیں باہر سے وارد نہیں ہوتی وہ زندگی کی سرشت میں شامل ہوتی ہے۔ جوں ہی کسی وجود میں زندگی ترتیب پاتی ہے، موت بھی اس میں پناہ حاصل کرلیتی ہے اور زندگی کو اس کے وجود سے باہر دھکیلنے کا عمل شروع کردیتی ہے۔ جس وجود کی زندگی جتنی طاقت ور ہوتی ہے وہ اتنے ہی طویل عرصے تک وہاں قدم جمائے رکھتی ہے مگر کب تک؛ آخری فتح تو موت ہی کی ہوتی ہے۔ یہ میری موت، جو، اب میری زندگی پر فتح پانے والی ہے، اس نے کوششوں کا آغاز اسی وقت کردیا تھا جب میں نے پہلا سانس لیا تھا۔ یوں میرا پہلا سانس اپنی موت کی طرف میرا پہلا قدم بھی تھا۔ شاید میری موت کو ابھی پندرہ بیس سال مشید تگ و دو کرنا پڑتی لیکن میرے بیٹے نے نہ صرف اس کا کام آسان کردیا بلکہ ایک تہذیب کے انہدام میں بھی اپنا حصہ ڈال دیا۔”
(15-ص 104)
“میرا یہاں اس طرح مرنا صرف ایک انسان کی نہیں، ایک تہذیب کی موت ہے۔ وہ تہذیب جس کی بنیاد انسان نے ہزاروں سال پہلے اس وقت رکھی تھی جب دنیا کے پہلے انسان نے بہتے پانی کی قوت کا اندازہ لگایا۔ جس طرح نوح (ع) کا پیش رو، جس نے سب سے پہلے ہوا کی طاقت کا اندازہ لگا کر دنیا کی پہلی بادبانی کشتی تیار کی، یقیناً کسی ساحلی علاقے کا باسی تھا، اس طرح پانی کی طاقت کا اندازہ لگانے والا پہلا شخص میری طرح کوئی پہاڑیا ہی ہوا ہوگا؛ جو مال مویشی چرانے کسی جنگلی چراگاہ میں جاتا رہا ہوگا جہاں کسی پیاڑی آبشار سے پانی پیتے ہوئے اس پر پانی کی قوت کا راز منکشف ہوگیا ہوگا۔”
(16_ص 106)
“میری معدوم ہوتی یادداشت میں، پنتالیس دن پہلے کا وہ لمحہ اب بھی پوری طرح نقش ہے، جب چونگ پیس کر جندر کی کیل اٹھاتے ہوئے میرے ذہن میں یہ خیال بجلی کے کوندے کی طرح لپکا تھا کہ میں اپنی اور جندر کی زندگی کی آخری چونگ پیس چکا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ جب قیامت کے دن اٹھایا جاؤں گا تو میری ہادداشت میں سب سے پہلے یہی منظر ابھرے گا۔”
(18_ص 119)
“مجھے اب بھی یقین ہے کہ اگر کوئی چونگ میسر آجائے اور میں جندر کی وہی سریلی گونج دوبارہ سن سکوں تو میرا ماس، جو گزشتہ پنتالیس دنوں میں خالی گھومتے جندر کی کوک نے میری ہڈیوں سے علاحدہ کردیا ہے، دوبارہ ہڈیوں سے جڑنا شروع ہوجائے گا، میری کھوئی ہوئی طاقت بحال ہونا شروع ہوجائے گی اور میں دوبارہ جی اٹھنے لگوں گا لیکن اب اس قسم کی کوئی امید بے کار ہے کہ اگر گاؤں میں لگی مشینی چکی، ابھی اور اسی لمحے، بھک سے اڑ جائے تو بھی راے کے اس آخری پہر میں کوئی یہاں آنے سے رہا اور ابھی کچھ دیر بعد جب پوپھٹے گی تو پانی سر سے گزر چکا ہوگا۔”

مصنف: اختر رضا سلیمی
صحفات: 119
قیمت: 200 روپے
اشاعتی ادارہ: رومیل ھاؤس آف پبلی کیشنز راولپنڈی