تاوان

یہ تحریر 805 مرتبہ دیکھی گئی

ہم نے اس دن کتنی بہت سی باتیں کی تھیں

یاد ہے تم نے مجھ سے کہا تھا

ہنستے ہوئے تم کتنی سندر لگتی ہو

پر کم ہنستی ہو

میں یہ سن کر چونک اٹھی تھی

تم نے کہا تھا اب یہ ہنسی میں کھونے نہ دوں گا

اور یہ سن کر میری آنکھیں جل اٹھی تھی

ناداں تھی میں

ہنستی رہی اور جان نہ پائی

خوشیاں اپنی قیمت مانگتی رہتی ہیں

ہنسنے پر تاوان بھی بھرنا پڑتا ہے

تم تو کہہ کر بھول گئے اور آج اچانک

ہنستے ہنستے میری آنکھں

پھر سے جلنے لگی ہیں

جانے کب تک اپنی ہنسی کا مول چکانا

ان آنکھوں کی قسمت ٹھہرے