بے مثال ادیب کا تعارف

یہ تحریر 3027 مرتبہ دیکھی گئی

انیسویں صدی کا نصف آخر روسی ادب کا ایسا درخشاں باب ہے کہ کسی دوسری زبان میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ذرا لکھنے والوں کے ناموں پر غور کیجیے۔ ٹالسٹائی، دوستیو فسکی، گوگول، ترگنیف، لرمنتوف، چیخوف۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں عالمی ادب میں مثالی مقام حاصل ہے۔

            ان میں سب سے زیادہ خوش نصیب ٹالسٹائی ہے۔ اردو ادب نے بھی اس سے فیض اٹھایا ہے۔ جس نے بھی اردو میں طویل ناول لکھا اُسے ٹالسٹائی کا سایہ اپنے ارد گرد منڈلاتا نظر آیا۔ بعض نے شعوری طور پر اس کے اثر سے بچنا چاہا جو بطور خود اس بات کا اقرار تھا کہ اس کو فکشن کی عالی شان مثال سمجھنے کے بعد ہی کسی طرف قدم بڑھایا جا سکتا ہے۔

            اردو میں غالباً ٹالسٹائی پر ایک کتاب اور بھی موجود ہے۔ لیکن ڈاکٹر حنا صبا کی تصنیف کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ٹالسٹائی کی شخصیت اور فن کا جائزہ تو لیا ہی گیا ہے لیکن تفصیل کے ساتھ یہ بھی بتایا ہے کہ اردو میں ان کے کون سے ناولوں، ناولٹوں اور افسانوں کے ترجمے موجود ہیں۔ دراصل اس طرح کی تحقیق بڑی ضروری تھی۔

            ٹالسٹائی ایک امیر گھرانے کا فرد تھا۔ اُسے زندگی کی سبھی آسائشیں حاصل تھیں یا جن کو ہم اپنی دانست میں آسائشیں سمجھتے ہیں۔ اُس کے مزاج میں بے اطمینانی شروع سے موجود تھی۔ مروجہ رسوم اور رہن سہن کے طریقوں کو شک کی نظر سے دیکھتا تھا۔ اُسے ہر طرف توازن کی کمی نظر آتی تھی۔ اُس نے رسمی تعلیم بھی مکمل نہ کی۔ یہیں سے اُس کی دانائی کا سراغ ملتا ہے۔ جو تعلیم ہمیں سکولوں اور کالجوں میں دی جاتی ہے اُس کا بیش تر حصہ فعال اور با معنی زندگی بسر کرنے میں کسی کام نہیں آتا۔

            ٹالسٹائی سمجھ گیا تھا کہ زندگی کی معنویت کے ادراک کی خاطر ہر روشن اور تاریک پہلو کا تجربہ حاصل کرنا چاہیے۔ اپنے آس پاس کے انسانوں کو غور سے دیکھنا اور سمجھنا پڑتا ہے۔ یہ سیکھنے کی ضرورت بھی پیش آتی ہے کہ ان سے الگ الگ اور اجتماعی طور پر کیسے نبھا کرنا ہے۔ مدرسانہ تعلیم اس سلسلے میں کسی کام نہیں آتی۔

            اس کا بھائی فوج میں تھا اور قفقاز میں تعینات تھا۔ اس کے پاس جا کر ٹالسٹائی نے بہت کچھ دیکھا اور سیکھا۔ پھر جب کریمیا کی جنگ شروع ہوئی، جس میں روس کے خلاف ترکی، انگلستان اور فرانس صف آرا تھے تو اس میں بطور افسر معرکہ آرائی میں حصہ لیا۔ جنگ کو قریب سے دیکھنے سے اُسے اپنے مشہور ناول ”جنگ اور امن“ لکھنے میں بڑی مدد ملی۔

            ”جنگ اور امن“ اُس کا سب سے بڑا اور مشہور ترین ناول ہے۔ نپولین کا روس پر حملہ اور بوروڈینو کے مقام پر خوں ریز معرکہ اُس کی پیدائش سے پہلے کے واقعات ہیں۔ تاہم ناول کی اثر پذیری میں اضافے کی غرض سے ٹالسٹائی ان فوجیوں اور آدمیوں سے ملا جنھوں نے جنگ میں حصہ لیا تھا یا پیش آنے والے واقعات کے چشم دید گواہ تھے۔

            اُس کا دوسرا بڑا ناول ”اینا کارے نینا“ ہے۔ بعض نقاد اس کو پلاٹ کی چستی اور کردار آفرینی کے اعتبار سے ”جنگ اور امن“ سے بہتر قرار دیتے ہیں۔ اس کی تصانیف تو اور بھی بہت سی ہیں۔ ان سب کا جائزہ یہاں نہیں لیا جا سکتا۔ البتہ ”ایوان اِل بچ کی موت“ اور ”حاجی مراد“ جیسے کمال کے ناولٹوں کا ذکر نہ کرنا ناانصافی ہو گا۔ ”حاجی مراد“ کو بعض ادب شناس اُس کے بڑے ناولوں کے برابر سمجھتے ہیں۔

            ٹالسٹائی کے فن پر صحیح معنی میں تبصرہ کرنا مقصود ہو تو سیکڑوں صفحے لکھے جا سکتے ہیں۔ نظر حنا صبا کی کتاب پر بھی ڈالنی چاہیے جنھوں نے ٹالسٹائی کے بارے میں ضروری معلومات سلیقے سے یک جا کر دی ہیں۔

            پہلے پس منظر اور تعارف کے ذیل میں روس کی تاریخ اور معاصر ادیبوں کا ذکر کیا ہے تاکہ ٹالسٹائی کے کمال کو مناسب سیاق و سباق میں دیکھا جا سکے۔ اُس کے بعد ٹالسٹائی کی اہم تصانیف پر بات کی ہے۔ ظاہر ہے زیادہ توجہ بڑے ناولوں پر دی گئی ہے۔ پھر ٹالسٹائی کے اُردو میں جتنے ترجمے ہوئے ہیں، ان کو مثالوں کے ساتھ پرکھا ہے۔ اس کی افادیت یہ ہے کہ قارئین اگر ٹالسٹائی کو اردو میں پڑھنا چاہیں تو وہ کس مترجم پر تکیہ کریں۔ آخر میں یہ بتایا ہے کہ اردو ادب پر ٹالسٹائی کے فن اور فکر نے کیا اثرات مرتب کیے۔

            اچھا ہوتا اگر مذکورہ بالا کتاب میں جو اقتباسات انگریزی میں ہیں، ان کا ترجمہ بھی درج کر دیا جاتا۔ یہ کتاب بنیادی طور پر انھی قارئین کے لیے ہے جو یا تو انگریزی نہیں جانتے یا انگریزی سے برائے نام شناسا ہیں۔

            تعارفی کتاب کے طور پر حنا صبا کی تصنیف بلاشبہ تعریف کی مستحق ہے۔ امید رکھنی چاہیے کہ یہ ان کی پہلی اور آخری کتاب ثابت نہیں ہوگی۔ ادارہ تالیف و ترجمہ، پنجاب یونیورسٹی کے ناظم ڈاکٹر محمد کامران کو بھی مبارک باد دینی چاہیے کہ عمدہ کتابیں شائع کرتے رہتے ہیں۔

                                                                                                            ٹالسٹائی اور اردو ادب از ڈاکٹر حنا صبا

                                                                                                            ناشر: ادارہ تالیف و ترجمہ، جامعہ پنجاب، لاہور                                                                                                             ص ۲۵۷؛ ۹۰۰ روپے

سلیم سہیل
http://auragesabz.gamecraftpro.com/%d8%b3%d9%84%db%8c%d9%85-%d8%b3%db%81%db%8c%d9%84/