بے اطمینانی کے قرینے

یہ تحریر 468 مرتبہ دیکھی گئی

دو خواتین افسانہ نگار، اسلوب کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف لیکن جہاں تک نسوانی کرداروں کی ترجمانی کا تعلق ہے، دونوں کا رویہ ہم دردانہ۔ اگر خواتین بھی نسوانی کرداروں کو ہم دردی سے دیکھ کر ان کے مسائل، الجھنوں، چھوٹی موٹی خوشیوں اور مردانہ برتری پر استوار سماج میں اپنی صنفی انفرادیت کا احساس دلانے کی کوشش نہ کریں گی تو یہ بوجھ کون اٹھائے گا۔ مرد افسانہ نگار لاکھ کوشش کریں، وہ ایسی دنیا میں، جہاں مدتوں سے تذکیر کی بالادستی کے چرچے ہیں، عورتوں کو صحیح طور پر سمجھ نہیں سکتے۔
شہلا نقوی کے افسانوں کو ذکیہ مشہدی، سید مظہر جمیل اور علی اکبر ناطق نے سراہا ہے۔ یہ بات، بطور افسانہ نگار، شہلا نقوی کے وقار میں اضافہ کرتی ہے۔ انھوں نے سیدھی سادی نثر کو اپنایا ہے اور مکالمے بھی فطری ہیں۔ دقت کہیں کہیں صرف یہ ہے کہ اسلوب سپاٹ ہو کر صحافیانہ نگارش کے قریب ہو جاتا ہے۔ تھوڑی سی توجہ سے نثر کو ذرا بلند سطح تک پہنچایا جا سکتا تھا۔
سب سے متاثر کن افسانہ غالباً “پریشاں خواب” ہے جس میں ایک ایسی عورت کا احوال ہے جو آج کل کی بے محاذ، بے لحاظ اور بے معنی جنگ میں الجھ کر رہ گئی ہے اور ہول ناکی کا یہ تجربہ بلاشبہ اس کے اعصاب پر مسلط رہے گا۔ “آوازوں کا شور” میں ایک نوجوان اور خوش شکل لڑکی کا ذکر ہے جس کا اضطراب اپنی شناخت مٹا دینے کے درپے ہے۔ “بوجھل ہر” کا پلاٹ قدرے پیچیدہ ہے لیکن کہانی کے تمام اجزا میں ہنرمندی سے ربط قائم رکھا گیا ہے۔ “قدیم نسخہ” اور “قربان گاہ” بھی دلچسپ افسانے ہیں۔ شہلا نقوی اگر خود کو پوری طرح منوانے کی آرزو مند ہیں تو ناول لکھنے چاہییں۔ محنت بے شک زیادہ کرنی پڑتی ہے لیکن ناول اگر اچھے ہوں تو پائیدار ثابت ہو سکتے ہیں۔
کتاب میں جابجا صفحے بے ترتیب ہیں اور صفحات 59 اور 60 غائب ہیں۔ ان کے غائب ہونے سے ایک افسانے کے انجام اور دوسرے کے آغاز کا پتا نہیں چلتا۔
فارحہ ارشد کے افسانے اور وضع کے ہیں۔ ماحول مختلف ہے اور اندازِ بیان مختلف ہے۔ پلاٹ بانی بھی اور انداز کی ہے گو افسانوں کی پیچ داری کو کسی حد تک خطابت آمیز اور جوشیلی نثر نے ضعف پہنچایا ہے اور خیال آتا ہے کہ یہ سب کچھ قدرے سادہ انداز میں بیان کیا جا سکتا تھا۔ مثلاً “سانپ چنبیلیوں کی اوٹ سے نکلے اور چودھری کے خزانوں کے ارد گر سر پٹخنے لگے” یا “دماغ کی برفیلی لہر نے تیز برقی لہروں کا جھنجھناتاہوا احساس اختیار کر لیا اور کنپٹیوں کے پھولے ہوئے غبارے پھٹ کر ان لہروں سے چپک گئے۔” ایسے جملے کتاب میں بہت ہیں اور انھیں پڑھ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ جو کہنا مقصود ہے اس کے لیے نثر کا یہ طنز ناموزوں نظر آتا ہے۔
تاہم محمد حمید شاہد کے اس خیال سے اتفاق کرنے میں ہرج نہیں کہ “فارحہ ارشد سے کچھ الگ سا کر لینے کی زیادہ امید باندھی جا سکتی ہے۔” فارحہ کے پاس صلاحیت بھی ہے اور پُرکشش پلاٹ بھی ہیں۔ “بی فور دی ایورآفٹر” میں بظاہر ایک حویلی کی شکستگی کا ماجرا ہے لیکن اسے پورے ملک پر منطبق کیا جا سکتا ہے کہ جو کچھ ہمارے پاس اپنا تھا اور اصیل تھا اسے تج کر ہم باطنی اور تخلیقی طور پر خالی ہوتے جا رہے ہیں۔ “توبہ سے ذرا پہلے” مختصر مگر پُراثر ہے۔ جو کچھ ہونے والا ہے وہ دینی اور معاشرتی طور پر غلط ہے لیکن ماں کے لیے حقائق پر پردہ ڈالنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ “تلووں سے چپکا آخری قدم” میں عجیب مخمصے کا بیان ہے۔ جو فرد اندھیرے سے مانوس نہ ہو وہ اچانک طاری ہونے والی تاریکی میں اپنے گردو پیش کی پہچان سے قطعی طور پر قاصر ہو جاتا ہے۔ “بی بانہ اور زوئی ڈارلنگ” میں آخری جملے سے بیانیے کو الٹ دیا گیا ہے۔ دو اورقابل ذکر افسانے “شب جائے کہ من بودم” اور “گرہن گاتھا” ہیں۔ افسانوں میں مکالمے کہیں خطابت آمیز اور مصنوعی ہیں کہیں فطری ۔ “امیر صادقین! تم کہاں ہو میں خطابت آمیزی جچتی ہے کہ جس مرکزی کردار کا ذکر ہے وہ ہے ہی خطیبانہ انداز سے جڑا ہوا تعجب “گرہن گاتھا” کو پڑھ کر ہوتا ہے جس میں مکالمے جان دار اور حقیقی ہیں اور سمجھ میں نہیں آتا کہ اس انداز میں لکھنے پر قادر ہونے کے باوجود لاحاصل رنگین بیانی کا سہارا کیوں لیا گیا ہے۔
یہ آغاز ہے اور فارحہ ارشد سے بہتر کارکردگی دکھانے کی توقع ہے۔ البتہ یہ کہنا پڑتا ہے کہ یا تو چیخوف کی پیروی کی جائے یا اگر اسی طرح کی ہیجان خیز نثر لکھنی ہے تو ولیم فاکنر سے فیض اٹھانا چاہیے۔
آوازوں کا شور از شہلا نقوی
ناشر: اکادمی بازیافت، کراچی
صفحات: 157؛ چھ سو روپیے
مونتاژ از فارحہ ارشد
ناشر: دستاویز مطبوعات، لاہور
صفحات: 166؛ پانچ سو روپیے