بیرم خان

یہ تحریر 249 مرتبہ دیکھی گئی

بیرم خان چراغ جلتا ہے
وقت کی آشوب زدہ آنکھیں چبھتی ہیں
رات کا سریر کٹتا ہے
جلن !
دیے سے ہو یا دیے کی لو سے
رات کا مضطرب سراپا دیکھنے کی چیز نہیں رہتا
مفاہمت چراغ کی فطرت نہیں
چراغ بیعت ہیں
اجالوں کے سلسلے میں
بیرم خان بیعت ہے
چراغ جلتا ہے
ہوا کی آفت ہو یا ڈائن جیسی کالی رات
یہ اپنی لو کا برچھا لے کر جان پر کھیلتا لشکروں کے سینے چیرتا
سحر کے پھاٹک کی اور بڑھتا ہے
ہوا چراغوں کو برباد کرتی ہے مگر چراغ جلتا ہے
بیرم خان لڑتا ہے
شب کے لشکروں کو لو کی انی سے کاٹتا ہے
سرخرو اور شادمان
بیرم خان سحر کے پھاٹک پر دستک دیتا ہے
دستک صبح بہار کے در کھول دیتی ہے
صباحت کا نقیب اعلان کررہا ہے
“رات کے لشکر پر صبح نورستہ کی فتح مبارک ہو”
“نئے دن کی بادشاہت اور سطوت کا بدرقہ مبارک رہے”
“چراغوں کی عملداری کے خاتمہ کی نوید ہو”
چراغ کے وجود کی افادیت سے انکار کا لمحہ آغاز ہوا
در صبح پر بیرم خان کا سفر حج تیار دھرا رکھا ہے
مہبت اکبر کا خاور جہان انفس و آفاق پر جلوہ ریز ہے
بیرم خان جاہ و حشمت کی شام
جو جلال اکبراعظم کی سحر کا فروغ بن کر
سرخرو ہوئی
تو چراغ کی لو بڑھا دی گئی
آندھیوں اور ظلمتوں کے لشکروں سے جیتنے والے کی عقیدت وارفتہ
تنفس کی ایک ضرب کی تاب نہ لاسکی
آواز جرس۔۔
کوچ۔۔
اوندھے منہ مصلوب چراغ کی کراہ
خدا کے گھر کا راستہ سیدھا خدا تک۔۔
الوداع بیرم خان
الوداع۔..