بھائی، اسٹینڈ اُٹھا لیں

یہ تحریر 396 مرتبہ دیکھی گئی

کسی بھی قوم کی ترقی محض اس کے بڑے بڑے منصوبوں،جدید ٹیکنالوجی یا لمبی لمبی تقریروں پر منحصر نہیں ہوتی۔بلکہ اُس کی پہچان اُس کے رویوں،عادات اور معاشرتی ردِعمل سے ہوتی ہے۔ہم بڑے بڑے خواب تو دیکھتے ہیں لیکن بعض اوقات چھوٹی چھوٹی باتوں میں اُلجھ کر رہ جاتے ہیں۔ہماری گلیاں،چورنگیاں اور سڑکیں آمدورفت کا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ روز بروزکے ہزاروں چھوٹے چھوٹے طنز و مزاح سے بھرپور ڈراموں کا اسٹیج بھی ہیں۔جہا ں ہر راہ گزرتا مسافر،سواری پر موجود سوار،گلیوں میں کھیلتے بچے اور ہر تماشبین کسی نہ کسی کردار میں موجو دہوتا ہے۔ان تمام مناظر میں ایک منظر ایسا بھی ہے جوتقریبًاروز انہ کی بنیاد پر دہرایا جا تا ہے۔جس میں سارا معاشرہ یک آواز ہو کر ایک ہی نعرہ لگا رہا ہوتا ہے
“بھائی، اسٹینڈ اُٹھا لیں!”
یہ جملہ اس قدر ا ستعمال ہوتا ہے کہ جیسے کسی قومی ترانے کا حصہ ہویا شہری ذمہ داری اور سجھداری کی آخری علامت ہو۔میرا سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہماری ذمہ داری صرف اسٹینڈ اُٹھوانا ہے؟
ایسا ہی ایک دلچسپ واقعہ میرے بھائی محترم کے ساتھ بھی ہوا جو قہقوں سے بھرپور اور غور وفکر پر مبنی تھا۔ جس نے مجھے اس موضوع ”بھائی اسٹینڈ اُٹھا لیں ”لکھنے پر اُکسایا ۔یوں توروز ٹریفک کی بھرمار میں کئی مناظرہماری سڑکوں پر نظر آتے ہیں جیسے کوئی خود کو چلان سے بچانے کے لیے ہیلمٹ تک پہن کر نہیں نکلتا،تو کہیں موٹر سائیکل پر پورا خاندان مطمئن ہو کر جا رہا ہوتا ہے اور کہیں اپنی اور دوسروں کی جانوں کی پرواہ کیے بغیر اوور سپیڈنگ کو اپنا فرض سمجھ کر نبھایا جا رہا ہے۔ایسے بھی فرض شناش ہیں جنہیں اور کچھ دِکھے نہ دِکھے مگر ہر موٹر سائیکل کا گِرا ہوا اسٹینڈ ضرور دِکھتا ہے۔یہ جملہ اصلاح سے بڑھ کر ایک عوامی نعرہ بن چکا ہے۔
ہوا کچھ یوں کہ بھائی صاحب نے موٹر سائیکل کا اسٹینڈ بنوانے کے لیے جیسے ہی گھر سےباہر موٹر سائیکل نکالی۔اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتے تو ایک دس سالہ معصوم سے بچے نے آواز لگائی، بھائی، اسٹینڈ اُٹھا لیں ۔کچھ گلیاں کراس کی تو گلی میں بیٹھے ایک حساس دل معزز شہری نے فوراًآواز لگائی ”بھائی اسٹینڈ اُٹھالیں ”۔اُنہوں نے عاجزی سے سر جھکایا مسکرا کر اسٹینڈ اُٹھا کر چل دیے۔چند قدم آگے بڑھے تو دو چھوٹے بچوں نے بھی اس فرض کو خوب نبھایا پہلے اشاروں سے جب اشاروں سے اپنی بات نا سمجھا سکے تو دونوں نے آواز یں کسنا شروع کر دیں بھائی، اسٹینڈ اُٹھا لیں۔گلی سے نکل کرجیسے ہی سڑک پر پہنچے موٹرسائیکل سوار خود اوور سپینڈنگ کو فالو کرتے ہوئے جا رہا ہے لیکن بھا ئی صاحب کو ضرور تنبیہ کرتا گیا،کہ بھائی، اسٹینڈ اُٹھا لیں۔سڑک پر بیٹھے دوصاحب دنیا سے بے نیاز گپ شپ میں مصروف تھے۔لیکن وہ بھی اس فرض کو نبھائے بغیر نہ رہ سکے کہ”بھائی، اسٹینڈ اُٹھا لیں ”۔ اُنہیں باقی تو کچھ پرواہ نہ تھی کہ ارد گِرد کیا ہو رہا ہے۔ تاہم قوم نے اپنی اجتماعی ذمہ داری خوب نبھائی۔اتنے لوگوں کو کیسے سمجھاتے کہ اسٹینڈ خراب ہے بنوانے ہی نکلے ہیں۔لیکن اُن کی عاجزی دیکھیے کہ حسب معمول ہر کسی کو ہلکی سی مسکراہٹ دیتے اور اسٹینڈ اوپر اُٹھا لیتے چاہے وہ اگلے ہی لمحے دوبارہ گِر جاتا۔گھر واپس آکر جب گھر والوں کو سارا ماجرا سنایا تو سا را گھر قہقہوں سے گونج اُٹھا۔اور اس بات پر بھی ہنسے کہ قوم کے ہر فرد نے اپنا فرض خوب نبھایا۔
یہ واقعہ صرف مزاح کا باعث نہیں،بلکہ ہمارے معاشرے کی سوچ کا وہ آئینہ ہے۔جو ہماری چھوٹی سےچھوٹی غلطی پر چوکنا ہونا اپنا فرض عین سمجھتے ہیں۔یہ کہنا تو بہت آسان ہے بھائی، اسٹینڈ اُٹھا لیں لیکن کسی بھی حادثہ کی صورت میں مریض کی مدد کرنے کے بجائے اُسے پہلے سوشل میڈیا پر پوسٹ اور پھر وہیں عدالت لگا لیں گے کہ کون ملزم ہے اور اوپر سے صلح کروانے کے لیے آنے والے بغیر کسی واقفیت کے جدھر پلڑا بھاری دیکھا اُدھر کے ہو گئے۔خدارا!انسانیت کو پہلے ترجیح دیں۔کل کو اُس کی جگہ آپ بھی ہو سکتے ہیں۔ٹریفک قوانین کی پابندی کرنا ،خواتین کا احترام اور کسی کی راستے میں مدد کرنا ،ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے بس کی بات نہیں۔ہم دوسروں کو تو صحیح کرنے میں پھُرتی دیکھاتے ہیں لیکن اپنے گریبان میں جھانکنا بھول چکے ہیں۔
ایسی باتیں جن میں صرف ایک جملہ بولنا پڑتا ہے اُس میں ہم فوراً مداخلت کرتے ہیں۔جیسے راہ چلتی لڑکیوں پر جملے کسنا،ارے کدھر جا رہی ہو، آیئے میں آپ کو چھوڑ دیتا ہوں، باجی دوپٹہ اُٹھا لیں،لیکن اُس باجی کا نہیں خیال جو آپ کے پیچھے بیٹھی ہے، یا پھر ڈراونی آوازیں نکال کے آگے بڑھ جانا، کسی کا جوتا اُلٹا ہو،شرٹ کے بٹن برابر نہیں یا کسی کا اسٹینڈ نیچے ہے ان پر ہم فوری عملی قدم اُٹھاتے ہیں۔لیکن اُن مسائل پر فوری عمل نہیں کرتے جن پر کرنے کی ضرورت ہے جیسے ٹریفک حادثہ سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر، کسی کی مدد کرنا،حق تلفی نہ کرنا،بیٹیوں کو اُن کا حق دینا ـــــیہاں ہماری زبانیں بند ہو جاتی ہیں اور نظریں نیچی ہو جاتی ہیں۔یہاں ہم اپنے فائدے حاصل کرنے کےلیے معاشرے کی جھوٹی رسومات کا سہارا لیتے ہیں۔اور خود کو ایک معزز شہری بآور کرواتے ہیں۔مگر اندر سے ہم بہت کھوکھلے ہوتے ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ زندگی کے اِ س سڑک نما سفر میں ہر کوئی کسی نہ کسی موٹر سائیکل پر سوار ہےـــــکبھی شعور کا اسٹینڈ گِر رہا ہوتا ہے تو کبھی کسی کی عقل کا انجن بند ہو جاتا ہے،دوسروں کو آوازیں دینے کی عادت تو ہے مگر اپنے آپ میں جھانکنے کی توفیق بہت کم ہی میسر آتی ہے۔کیونکہ ہم دوسروں کا اسٹینڈ تو ہر وقت ٹھیک کرنے کو تیار رہتے ہیں لیکن کبھی اپنے گِرے ہوئے رویوں،بوسیدہ اُصولوں اور اپنی گِرتی ذمہ داریوں کو سنبھالنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ہم مسائل کا شور تو کرتے ہیں لیکن اُن کا حل نہیں دیتے،کسی نے بھائی صاحب کو مکینک کا نہیں بتا یا۔مگر اسٹینڈ اُٹھالیں کا شور ضرور مچایا۔ہمیں اپنے اندر جھانکنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے اندر بھی کوئی ایک ایسا اسٹینڈ ضرور ہوتا ہے جو بار بار گِر تا ہے۔اور ہم اُسے صرف دوسرں کی نظروں سے اُٹھانے کی فنکاری کرتے رہتے ہیں۔اگر سمجھا جائے تو یہ جملہ (بھائی، اسٹینڈ اُٹھا لیں)ہمارے اخلاقی زوال کا اِستعارہ بن گیا ہے۔ہم بظاہر تو انگلیاں اُٹھاتے ہیں مگر باطنی زوال کا شکار رہتے ہیں۔حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ آج کے دور کا مکمل انسان صرف وہی ہو سکتا ہے جس کے ضمیر کا اسٹینڈ متوازن ہو۔
ہمیں اس بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہماری معاشرتی بیداری صرف دکھاوے کی حد تک تو نہیں؟ہمیں یہ سمجھنا ہوگا ہر موٹر سائیکل کا اسٹینڈ نیچے ہونا کوئی اہم مسئلہ نہیں،اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ قوم کا کردار کب اُٹھے گا؟کب ہم ان چھوٹے چھوٹے جملوں سے بڑھ کر کچھ سوچیں گے؟اپنے ضمیر،اُصول اور اپنی اخلاقی قدروںکو اُٹھائیں گے؟
لہذااگلی دفعہ آپ جب بھی کسی کو کہیں بھائی، اسٹینڈ اُٹھا لیں تو ایک لمحے کے لیے اپنے اندر ضرور جھانکیں کہ کہیں وہا ں کوئی اسٹینڈ عرصے سے دھول میں لپٹا ہوا گِرا تو نہیں پڑا

اسماء شاکر کی دیگر تحریریں