بَلَدالخَوف

یہ تحریر 537 مرتبہ دیکھی گئی

بلادِ خوف کے آثار،
جاں میں ہوتے ہیں
مگر قدیم عَمارات، بَستیاں، مَدفن
تلاش کرتے ہوئے خَبطیوں کی روحوں میں
کچھ ایسے بَستی ہیں ویرانیاں کہ اُن سے ( سدا )
ہوائے دشت کی وحشت گُریز کرتی ہے

سبھی جنوں کے حوالے خِرد کا راتب ہیں
محال جتنا ہو
اتنا ہی اِن کو ہے مَرغوب
وہ شہر، کہ کہیں آثار ہی نہیں اُس کے
ضرور یہ وہی وحشت نشان بستی ہے
جہاں پہ غیب کی دستک تھی
چپ کا آوازہ
اسی طرح سے روایات ہیں
مگر ہم کو
کہیں ملے بھی تو دیوارِ دل کا دروازہ