بوڑھی ہوا

یہ تحریر 1352 مرتبہ دیکھی گئی

”بوڑھی ہوا“ فیاض محمود کا نثری مجموعہ ہے۔ آپ شعر بھی کہتے ہیں۔ ان کی شاعری کا مجموعہ ”ان چلے راستے“ چھپ چکا ہے۔ ”بوڑھی ہوا“ زندگی کا استعارہ ہے۔ زندگی ہوا ہی تو ہے جس میں ویرانی اور آبادی کے عناصر بدرجہ اتم موجود ہیں۔ جس میں حرارت بھی ہے اور برودت بھی۔ جو بادِ صبا بھی ہے اور بادِ سموم بھی۔

یہ کتاب متنوع موضوعات کی حامل کتاب ہے۔ اس کا نین نقشہ، ڈھب، چھب جدا ہے۔ کبھی کبھی لگتا ہے یہ فیاض محمود کا زندگی نامہ ہے پھر خیال آتا ہے کہ یہ جگ بیتی ہے۔ ایک مکاشفہ ہے، خیر کثیر ہے، تطہیر کا عمل ہے، فطرت کی مزاج شناس ہے، تخیل کا گلشن ہے، رازوں کا بستہ ہے، کھلی آنکھوں دیکھی ہوئی دنیا کی نشانی ہے۔ درج بالا باتیں زورِ کلام دکھانے کے لیے نہیں لکھی گئیں اور نہ ہی یہ مجرد تعبیریں ہیں۔ ”بوڑھی ہوا“ کا متن ان سرخیوں کا گواہ ہے۔ میں نے ان احساسات کو چند نام دیے ہیں۔

ہم عجیب لوگ ہیں۔ ساری زندگی غیرمعمولی انسان بننے کی لگن میں گزار دیتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی خوشیاں جو ہمارے دامن دل کے قریب ہوتی ہیں ان سے محروم رہ جاتی ہیں۔ خیال ہوتا ہے کہ شاید یہ معمولی ہوتی ہیں۔ ہم بھٹکے ہوئے کو راستہ نہیں بتاتے، گرتے کا بازو نہیں تھامتے، روتے کو نہیں ہنساتے، بھوکے کو کھانا نہیں کھلاتے، پیاسے کو پانی نہیں پلاتے شاید یہ کام ہمارے غیرمعمولی بننے میں رکاوٹ نہ ڈال دیں۔ فیاض محمود ایسا نہیں کرتے۔ ”بوڑھی ہوا“ میں خوشیوں کا خزانہ کہیں فضا میں معلق شے کا حصول نہیں بلکہ اسی ہمہماتی، گاتی زندگی کے روز مرہ کے معمولات کی بجاآوری میں پنہاں ہیں۔ فیاض محمود نہیں ان خوشیوں کو آئندگاں تک پہنچانے میں بخل نہیں کیا بلکہ کشادگی کا مظاہرہ کیا ہے جو اللہ والوں کی صفت ہوتی ہے۔

حضرت زینبؓ بنتِ علیؓ فرماتی ہیں کہ انسانِ کامل کی چار نشانیاں ہیں۔ پہلی یہ کہ اس کا اپنے ساتھ رشتہ کیا ہے۔ دوسری یہ کہ اس کا خدا کے ساتھ کس نوع کا تعلق ہے۔ تیسرا یہ کہ اس کا دوسرے انسانوں کے ساتھ میل جول کیسا ہے اور چوتھا یہ کہ اس کا فطرت کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ ”بوڑھی ہوا“ میں بنتِ علیؓ کی بتائی ہوئی طلائی مستطیل کے چاروں خصائص نظر آتے ہیں۔ اس کتاب میں فطرت کی عظمت کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے اور فطرت کے سامنے انسان کی بے طاقتی اور بے بزعتی کا اعتراف کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ایک سوچتے ہوئے ذہن کی نشانی ہے۔ اس میں کہیں کہیں کشف کا احساس بھی ملتا ہے۔ اس کشف کا مبدا فیاض محمود کی ذات ہے۔ اس میں تخیل اور حقیقت کا منظرنامہ ہم آمیز ہوتا نظر آتا ہے۔ یہ کتاب فکریات میں ایک اضافہ ہے۔ تفکر جس کے لیے کتابِ ہدایت میں بار بار تاکید کی گئی ہے کہ سوچو، غور کرو۔

فیاض محمود دردمند دل لے کر اس کائنات میں آئے ہیں۔ اس دنیا میں ہونے والی ہر ناانصافی، ہر ظلم پر فیاض محمود نوحہ کناں نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ اپنی حمایت کا اعلان ظالم کے حق میں نہیں کرتے بلکہ ان کے الفاظ مظلوم کے زخموں پر پھاہے کا درجہ رکھتے ہیں۔ پسے ہوئے کے تن پر لگنے والا ہر چرکا اُنھیں اپنا دُکھ محسوس ہوتا ہے۔ ”بوڑھی ہوا“ ایک کولاژ ہے۔ رنگوں کا بستہ جس میں موسموں، پرندوں، رنگوں کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ فیاض محمود ماہر نباض کی طرح حالت کی مزاج شناسی کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کتاب کی نثر اُجلی ہے۔ ایک البیلی مہک اس قلم سے نکلتی نظر آتی ہے۔ فیاض محمود کے پاس اور کچھ بھی دینے کو یقینا ہوتا جس کا انتظار ان کا قاری اُن سے رکھتا ہے۔ اپنی مدد آپ کی کانِ نعمت پڑھنے والوں کو مبارک ہو کیونکہ کارِ پاکاں روشنی و گرمی است۔

سلیم سہیل
http://auragesabz.gamecraftpro.com/%d8%b3%d9%84%db%8c%d9%85-%d8%b3%db%81%db%8c%d9%84/