بد دعائیہ

یہ تحریر 2139 مرتبہ دیکھی گئی

سلیم شہزاد سرائیکی ، پنجابی اور اردو شاعر کے طور پر مشہور ہو چکے ہیں۔ ان کی نظمیں موجودہ دور کی بدنظمی، بے یقینی، استبدادی رویوں اور حکومتوں اور لوگوں کی مجرمانہ ذہنیت کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان باتوں کی وجہ سے ان کی لفظیات اور اندازِ بیان میں خشونت پیدا ہو گئی ہے۔ اس خشونت کے بغیر ان نظموں میں سمایا ہوا غیظ پوری طرح نمایاں نہ ہو سکتا ہے۔

انھوں نے سرائیکی میں دو ناول بھی لکھے ہیں۔ پہلا ناول “گھان”، جس کے معنی بھنور ہیں ، نظر سے نہیں گزرا۔ البتہ نیا ناول “پلوتا” جس کا نجم الدین احمد نے اردو میں بڑا رواں ترجمہ کیا ہے، پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ پلوتا کے معنی بد دعا یا سراپ ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے منیرنیازی کا وہ شعر بھی یاد آیا جس میں ملک پر آسیب کا سایہ ہونے کا ذکر ہے اور تیزرفتاری کے باوجود پیش پائی میں آہستگی پر تاسف۔

ایک لحاظ سے یہ ناول عجیب ہے کہ اس کا راوی متعین نہیں۔ صاف چھپتا بھی نہیں، سامنے آتا بھی نہیں ۔ یہ بہت سی آوازوں کا مجموعہ ہے جن میں بادلوں کی گرج اور بجلیوں کی کڑک بھی شامل ہے۔ کوئی ایسا کردار بھی نہیں جسے مرکزی قرار دیا جا سکے۔ ایک بستی ہے جس میں بہت پرانا درخت ہے۔ اسے بستی والوں نے پنج ہزاری کا نام دے رکھا ہے۔ اس کے پتے نہ گرتے ہیں نہ سوکھتے ہیں۔ داڑھی بہت بڑی ہے۔ بستی والوں کے خیال میں ان کی سلامتی کا ضامن ہے۔ ایک مزار ہے جو اجڑا پڑا ہے کسی کو معلوم نہیں کہ وہاں کون دفن ہے۔ بستی پر کئی دفعہ باہر سے حملہ بھی ہوتا ہے اور بڑا خون بہایا جاتا ہے۔

بہت سے لوگ باہر سے آ کر بستی میں آباد ہو گئے ہیں، زبردستی یا اتفاقاتِ زمانہ سے۔ ان کو پنج ہزاری میں کوئی تقدس نظر نہیں آتا۔ وہ اسے بس ایک بڑا پیڑ سمجھتے ہیں۔

بستی پر ایک بے موسمی گھٹا آ کر چھا جاتی ہے۔ دن پر دن گزرتے جاتے ہیں۔ گھٹا ٹلنے کا نام نہیں لیتی۔ شاید ہمیشہ کے لیے ہے۔ نہ چھٹتی ہے نہ برستی ہے۔ ایک بھاری بوجھ بن کر مسلط ہو گئی ہے۔ بادلوں کی مہیب گرج اور بجلیوں کی کڑک اور چمک بستی والوں کو حواس باختہ کرتی رہتی ہے۔ محرومی اور غلامی کا احساس، اپنے ہی وطن میں بے وطن ہو جانے کی کیفیت، یہ سب باتیں مجتمع ہو کر ڈراؤنا خواب بن جاتی ہیں۔ گھٹا سر سے ٹلے تو سکھ کا سانس لینے کا موقع ملے۔ لوگ دنیا میں چھڑی کسی جنگ کا تذکرہ کرتے ہیں جو انھیں معلوم نہیں کہاں ہو رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں:

“ہم خود تو نہیں لڑتے۔”

“لڑوائے جاتے ہیں۔”

“ہم میں اتفاق ہو جائے تو ہم۔۔۔۔۔۔؟”

“ہم کون؟”

“شراب دے کر، تمباکو دے کر، ہمارے آقاؤں کو تحائف دے کر، آقاؤں نے ہمیں  پکڑوایا، بھرتی کروایا، اور جو باقی بچ گئے وہ ہم ہیں۔”

“ہم کچھ نہیں ہیں۔ انھوں نے سب سے پہلے ہماری انا توڑی۔”

یہ بڑا لمبا چکر ہے جس کا بظاہر کوئی انت نہیں۔ کوئی نہ کوئی ہمیشہ طاقت میں رہتا ہے اور کمزوروں پر ستم ڈھاتا ہے۔ کمزور کبھی کبھی طاقتور بن جاتے ہیں اور طاقتور کمزور لیکن ناانصافی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ ہماری جڑیں اور شاخیں چاہے ماضی میں ہزاروں سال تک پھیلی ہوں اور امرہوں لیکن مقہوری ختم ہونے میں نہیں آتی۔ بد دعا شیطنت ہے اور شیطان اوردنیا کا ساتھ بڑا پکا ہے۔ ناول میں ایک مکالمہ بڑے پتے کا ہے۔

“زندگی تلاش کا نام ہے ۔۔۔ اپنی تلاش اور اپنی شناخت۔”

“شناخت بھی تو ایک دکھ ہے۔”

“تمھیں لگتا ہوگا لیکن تمھیں یہ بات سمجھ نہیں آ سکتی کہ شناخت دکھ اور سکھ سے آگے کی بات ہے۔”

خیال ہے کہ اس ناول کی اشاعت سے سرائیکی فکشن کی ثروت میں اضافہ ہوگا۔ ویسے یہ بد دعا سے زیادہ فریاد معلوم ہوتا ہے۔

پلوتا از سلیم شہزاد۔ ترجمہ: نجم الدین احمد

ناشر: عکس پبلی کیشنز، لاہور

صفحات: 184؛ چار سو روپیے