بات چیت

یہ تحریر 1675 مرتبہ دیکھی گئی

روایت ہے کہ ایک بار تین چار انگریز ڈاکٹروں کے جی میں آیا کہ کسی دور افتادہ افریقی گاؤں چلتے ہیں۔ جا کر دیکھیں تو سہی کہ اہل قریہ بیماروں کا علاج کس طرح کرتے ہیں اور تیماری داری کا کیا انداز اپناتے ہیں۔ وہاں پہنچے تو یہ جان کر ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ علاج معالجے کو صرف دو افراد کا آپس کا معاملہ کوئی نہیں سمجھتا۔ یہ نہیں کہ ایک طرف طبیب اور دوسری طرف مریض اور باقی لوگوں کو اس مسئلے سے یا تو کوئی سروکار نہیں یا اگر ہے بھی تو برائے نام۔ اس کے برعکس پورے کا پورا قبیلہ گا بجا کر، ناچ کر، کہانیاں سنا کر، دعوتیں اڑا کر علاج میں حصہ لیتا ہے۔ اپنے درمیان سے بیماری دور کرنے کا یہ طریقہ نہ صرف انوکھا تھا بلکہ بڑی حد تک اجتماعی عمل تھا۔ گویا اہلِ قبیلہ کو اس مشترکہ کارروائی سے یہ جتانا مقصود تھا کہ اگر ہم میں سے ایک شخص بیمار ہے تو ہم سب بیمار ہیں اور اگر ہم میں کوئی آدمی طبیب ہے تو ہم سب طبیب ہیں اور جب مریض ہی معالج ہے اور معالج مریض تو ہم سب مل جل کر اپنا علاج آپ کریں گے۔

کیا مذکورہ بالا ماجرے کو قصہ گوئی کے فن یا فنون لطیفہ کی معالجانہ توظیف کی اتفاقی مثال سمجھا جائے؟ ایسی بات بالکل نہیں۔ برونو بیٹل ہائیم نے اپنی کتاب The Uses of Enchantment میں لکھا ہے کہ پری کہانیاں باطنی کیفیتوں، الجھنوں اور انتشار کو، ان کی کایا بدل کر، ظاہر کا لباس پہنا دیتی ہیں۔ چنانچہ جب یہ داخلی کیفیات کہانی کے افراد اور واقعات کا روپ دھار کر سامنے آتی ہیں تو ان کی تفہیم ممکن ہو جاتی ہے۔ بیٹل ہائیم کے بقول یہی وجہ ہے کہ روایتی ہندو طریق علاج میں نفسیاتی اختلال کے شکار آدمی کو نسخے کے طور پر کوئی ایسی پری کہانی تجویز کی جاتی تھی جس میں اس کی مخصوص الجھن کو افسانوی شکل دی گئی ہو، اس توقع پر کہ کہانی کو پڑھنے اور اس کے بارے میں سوچتے رہنے سے ذہنی اختلال میں مبتلا شخص کی الجھن واضح شکل اختیار کرنے لگے گی۔ کہانی پڑھنے سے پہلے وہ یہ محسوس کرتا رہا تھا کہ کسی ایسی جگہ آپھنسا ہے جہاں سے باہر جانے کا راستہ کوئی نہیں۔ لیکن کہانی سمجھ میں آتے ہی اسے پتا چلے گا کہ یہ اسحاس کیوں طاری ہوا تھا اور در پیش مشکل سے نمٹنے کے لیے عمل کی کیا کیا راہیں اس کے سامنے ہیں۔ بھول بھلیاں میں ٹکراتے پھرتے آدمی کے حق میں کہانی ایسی ستلی بن جاتی ہے جس کے سہارے چل کر وہ بھٹکتے رہنے کی اذیت سے آزاد ہو سکتا ہے۔

اگر ہم دیکھنا چاہیں کہ کہانیاں کیسے شفا بخشتی ہیں تو اس کی ایک عمدہ مثال الف لیلہ و لیلہ کی صورت میں ہمارے پاس ہے۔ کہانیوں کے اس سلسلے کا آغاز ہوتے ہی پتا چلتا ہے کہ بیوی کی بے محابا بدکاری کے باعث شہریار نامی بادشاہ صنف نازک سے متنفر ہو چکا ہے۔ جب اس پر انکشاف ہوا کہ بھائی کی بیوی بھی کچھ کم بد چلن نہیں تو اس کے تعقل کی بنیادیں متزلزل ہو گئیں اور اسے ذہنی مریض بنتے دیر نہ لگی۔ ہر رات وہ کسی باکرہ لڑکی سے ہم بستر ہوتا اور صبح اٹھ کر اسے قتل کرا دیتا۔ رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ سلطنت میں ایسی باکرہ لڑکی کوئی نہ بچی جو شاہی سیج کے لائق ہو۔ جب بحران نے اپنی انتہا کو چھو لیا تو وزیر مملکت کی بیٹی شہرزاد سامنے آئی۔ وہ اس بے مقصد خوں ریزی کو ختم کر کے بادشاہ کا ذہنی توازن بحال کرنے کا عزم کر چکی تھی۔

اس کا طریق علاج جتنا سادہ تھا، اتنا ہی پر لطف بھی۔ وہ ہرات، مسلسل ایک ہزار اور ایک رات، یکے بعد دیگرے کہانیاں سناتی گئی۔ رات ختم ہونے پر کہانی ادھوری رہ جاتی اور بادشاہ کو اشتیاق ہوتا کہ باقی کہانی بھی سنے۔ کہانیوں کے طلسم کا اسیر ہو کر وہ شہرزاد کی جان لینے سے باز رہتا۔ شہرزاد کی ترکیب کام کر گئی۔ آخرش ہوش مندی کا بول بالا ہوا اور بادشاہ کے مزاج میں جو وحشت سما گئی تھی وہ جاتی رہی لیکن خیال رہے کہ بادشاہ نے تقریباً تین برس تک کہانیوں کو بغور سنا۔ کہیں جا کر اس کی شکستہ و ریختہ شخصیت کی از سر نو شیرزادہ بندی ممکن ہو سکی۔

گویا کہانیاں سنا کر آئی کو ٹالا جا سکتا ہے۔ اس موضوع کو الف الیلہ میں بار بار دہرایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر بغداد کے حمال اور تین لڑکیوں کی طویل افسانہ در افسانہ داستان میں حمال، تین کانے درویشوں، خلیفہ اور اس کے وزیر اور جلاد کی جان بخشی اس امر سے مشروط ہے کہ پہلے وہ اپنی اپنی سرگزشت سنائیں گے اور اگر ان کی آپ بیتیاں سچ مچ بہت ہوش ربا ثابت ہوئیں تو انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ کانے درویشوں کی کہانیاں اتنی حیرت انگیز تھیں کہ ان سب کی جان بچ گئی۔

اردو میں جو قصے کہانیاں لکھی گئی ہیں ان میں بلاشبہ ”باغ و بہار“ الف لیلہ و لیلہ کے انداز اور مزاج سے خاص مناسبت رکھتی ہے۔ میر امن کی یہ کتاب قصہ چہار درویش کے نام سے بھی مشہور ہے۔ اس مجموعے میں بظاہر کوئی قصہ ایسا نہیں جسے میرا من نے خود گھڑا ہو یا جس پر طبع زاد ہونے کا گمان ہو سکے۔ یہ کہانیاں مختلف روپوں میں پہلے ہی سے فارسی یا اُردو میں موجود تھیں۔ میرا من نے صرف انہیں ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔ اصل میں فی زمانہ جو یہ خیال راسخ ہو گیا ہے کہ فکشن جتنا طبع زاد ہو گا اتنا ہی عمدہ سمجھا جائے گا اس کا ہماری کلاسیکی ادبی روایتوں سے بالکل کوئی تعلق نہیں، بلکہ ہماری کلاسیکی روایتوں ہی کا کیا ذکر، کسی بھی زبان کی کلاسیکی ادبی روایت میں ابداعت Originality کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ سچ پوچھئے تو ہم جدید اصطلاح میں مصنف سے جو مراد لیتے ہیں اس مفہور کو میر امن پر منطبق کرنا زیادتی ہے۔ میرامن نے کہانیوں کو بس از سر نو بیان کر دیا ہے۔ ہاں، اپنا اسلوب وضع کرنے میں وہ کامیاب ہے۔

لطف کا پہلو یہ ہے کہ قصوں کے اس مجموعے کی شان نزول کی اصلی یا فرضی روداد کا تعلق بھی شفا سے ہے۔ ان کہانیوں کو شفا بخشی کے عنصر سے خاص علاقہ ہے۔ میر امن کا کہنا ہے، ”قصہ چار درویش کا ابتد میں امیر خسرو دہلوی نے اس تقریب سے کہا کہ حضر ت نظام الدین اولیاء زری بخش جو ان کے پیر تھے……ان کی طبیعت ماندی ہوئی۔ تب مرشد کے دل بہلانے کے واسطے امیر خسرو یہ قصہ ہمیشہ کہتے اور بیمار داری میں حاضر رہتے۔ اللہ نے چند روز میں شفا دی۔ تب انہوں نے غسل صحت کے دن یہ دعا دی کہ جو کوئی اس قصے کو سنے گا خدا کے فضل سے تندرست رہے گا۔“

اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ جس واقعے کا میرامن نے ذکر کیا ہے وہ سچ مچ پیش آیا تھا۔ لیکن ذرا سوچا جائے تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ یہ واقعہ بعینہ اسی طرح پیش نہ آیا ہو جس طرح میر امن نے بیان کیا ہے۔ انصاف کی بات ہے کہ میر امن نے یہ کہیں نہیں کہا کہ قصوں کا آپس میں جڑا ہوا سلسلہ امیر خسرو کی اختراع ہے۔ صرف اتنا لکھا ہے کہ سب سے پہلے اسے امیر خسرو نے کہا۔ ”کہنا“ کی پہلوداری سے میرامن نے خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ ان تتر بتر قصوں کی موثر پرداز فراہم کرنے کا کام امیر خسرو کے ہاتھوں انجام پایا۔ بہرکیف، یہ مسئلہ ایسا ہے جس سے محققین کو زیادہ دلچسپی ہونی چاہیے۔ بہتر ہے وہی اس کے بارے میں اپنی عقل لڑاتے رہیں۔

کہنے کو تو ”باغ و بہار“ ایسے قصوں کا مجموعہ ہے جس کے آخر میں سب کی مرادیں بر آتی ہیں، لیکن نیل مرام کا مرحلہ آنے سے پہلے کرداروں پر کیسی کیسی آفتیں ٹوٹتی ہیں۔ وہ محرومیوں، دل ہلا دینے والے واقعات، افلاس اور جلاوطنی سے دو چار ہوتے ہیں اور بد نصیبی کی چکی میں پستے پستے ایک لمحہ ایسا آ جاتا ہے جب نا امیدی کے عالم میں انہیں اپنی زندگی بے معنی معلوم ہونے لگتی ہے اور وہ خود کشی کی ٹھان لیتے ہیں۔ ادھر وہ مرنے کا ارادہ کرتے ہیں ادھر قسمت پلٹا کھاتی ہے۔ عیب سے امید دلائی جاتی ہے کہ آخر بھلے دن بھی آئیں گے۔ لہٰذا تشویش کا خاتمہ ان قصوں میں مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔ تشویش کا بوجھ سر سیاتر جائے تو افاقے کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔

ان قصوں کے پس پردہ رمز جو بھی ہو(یہ بھی فرض کیا جا سکتا ہے کہ پوشیدہ مقصد کوئی بھی نہیں ہے) میرامن کی تصنیف کے بعض پہلو عجیب ہیں۔ یہ چھوٹا سا مجموعہ تشدد، شیطنت، جوکھوں اور قاتلانہ وارداتوں سے بھرا پڑا ہے۔ قتل کرنے کی کوشش کے پیچھے اگر کوئی خباثت آمیز مقصد کارفرما ہو تو ایسی صور ت میں زخمی ہونے والے جان بر ہو جاتے ہیں۔ ایک اور طرفہ پہلو وہ کردار ہے جو زیر زمین راستے، سرنگیں، بدر روئیں، قید خانے کا کام دینے والے اندھے کنویں اور تہہ خانے بیانیہ میں ادا کرتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ”باغ وبہار“ کی علامتی بنت کا ابھی تک ژرف نگاہی سے جائزہ نہیں لیا گیا۔

ایسے واقعات سے بھی ہم دو چار ہوتے ہیں جن میں زخمیوں یا عشق کے ماروں یا سودائیوں کے علاج کے لیے جراحوں یا طبیبوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ یہ گویا شفا بخشی یا معالجے کی اس امکانی قوت کی طرف اشارہ ہے جو کتاب کو تفویض کی گئی ہے۔ لیکن ”باغ وبہار“ اس طرح کی معنی آفرینی یا شفا آفرینی کی واحد مثال شاید نہ ہو۔ اگر ہماری قدیم ادبی روایات کا داعیہ تھا کہ کہانیوں کی معنویت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان میں سننے یا پڑھنے والے کے ذہن کو صحت بخشنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے تو پھر اس کی اور بہت سی عیاں اور نہاں مثالیں ڈھونڈنے سے ہاتھ آ جائیں گی۔ لوک کہانیوں کو بھی اس نقطہ نظر سے ٹٹولنا سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ جدید فکشن نے تنگ آمد بجنگ آمد کا نمونہ بن کر چڑچڑے انداز میں دوا دارو کے جو کڑوے گھونٹ پلائے ہیں، اس کے بعد منہ کا مزہ بدلنے کے لیے ہمیں کبھی کبھی ایسی چیز کی طلب ہوتی ہے جو بن مانگے ملے اور ٹھنڈائی کی طرح ہوتا کہ ہمارے جھلسے اور تنے ہوئے اعصاب کو سکون میسر آ سکے۔

اتنا لکھ کر سوچنا پڑتا ہے کہ کیا ادب، بالخصوص فکشن، اب اپنے اس معالجاتی عنصر سے محروم یا لا تعلق ہو چکا ہے؟ جدید فکشن ایک اور طرح کی سچائی کا حامل ہے اور یہ کہتا معلوم ہوتا ہے کہ ہم (جسمانی اور نفسیاتی طور پر) بیمار تھے، بیمار ہیں اور بیمار رہیں گے اور شاید یہ بیماری ہی، جسمانی اور نفسیاتی سطح پر یہ عدم توازن ہی، جو خلیہ بہ خلیہ ہمارے تن بدن میں گندھا ہوا ہے، اصل انسانی صورت حال ہے۔ آج کے دور میں جدید فکشن کی یہ بے رحمی بہت دل خراش صداقت بن کرسامنے آئی ہے۔ شاید اسی لیے اس کے پڑھنے والے تھوڑے رہ گئے ہیں۔ جس کا چہرہ بگڑ چکا ہو وہ آئینہ دکھائے جانے پر کب خوش یا آئینہ دیکھنے پر کب راضی ہوتا ہے۔ بیشتر قارئین کو خوب آور یا درد ربا تحریروں کی تلاش رہتی ہے۔ لیکن اس افراتفری میں فکشن اپنے جس فریضے کو فراموش کر چکا ہے یا کرتا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سوں کے پاس کسی بہتر مستقبل کا خواب دیکھنے کی امنگ باقی ہے۔ اور یہ خواب وہی دیکھ سکتا ہے جس نے اپنی تکلیف دہ زندگی میں کبھی نہ کبھی حقیقی طور پر یہ دیکھا یا جانا ہو کہ زندگی کرنے کی متبادل صورتیں بھی ہیں، محبت کرنے کا کوئی جواز باقی ہے، خواب دیکھنے کی کوئی سمت سلامت ہے۔ دراصل بیمار ہونے کا اعلان یا اقرار صحت مندی کی طرف اٹھنے والا ایک قدم ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو لکھنے والے کے پاس فکشن لکھنے کا کوئی جواز باقی نہ رہے۔ لکھنے اور پھر اپنے لکھے کو چھپوانے کا مطلب ہے کہ وہ اپنے محسوسات اور تجربات میں دوسروں کو شریک کرنا چاہتا ہے اور اپنی تمام یاس اور بے یقینی کے باوجود رمق بھر ہمدمی کی موجودگی سے منکر نہیں۔ لکھنے کا عمل دوسروں کی زندگی میں شریک ہونے کا عمل ہے۔

مشکل یہ ہے کہ دکھ میں سکھ اور سکھ میں دکھ کی پرچھائیاں وہی دکھا سکتا ہے، جو جتنا مایوس ہو اتنا ہی پرامید بھی۔ جس طرح ہر بڑے یا کھرے فکشن نویس کے ہاں نرمادگی کی ایک کیفیت زیریں لہر کی طرح ہلکورے لیتی ہے اسی طرح یاس اور امید کے گھور ملاپ سے نت نئے ہیجان ابلا کرتے ہیں۔ فکشن کی اس جہت تک ان سادہ لوح نادانوں کی رسائی نہیں جو ادب کو اصلاح معشارے کے تانگے میں جوتنے کے درپے ہیں۔ ادب میں شفا رسانی کی سکت ہے مگر یہ تقاضا کرتا ہے کہ پڑھنے والا مریض بننا بھی سیکھے اور طبیب بننا بھی، کشتہ بھی ہو جائے اور جی بھی اٹھے۔ جس نے لکھا اس نے تو سمندر بلو کر زہر پیا۔ پڑھنے والا بھی زہر کا گھونٹ بھرے تو بات بنے۔ کسی نے کیا اچھا کہا کہ ”وہ ناول ہی کیا جسے لکھتے ہوئے لکھنے والے کا دل ٹکڑے ٹکڑے نہ ہو جائے۔“

٭٭٭