باتیں یوں بھی کی جا سکتی ہیں

یہ تحریر 2409 مرتبہ دیکھی گئی

  ”وہ اپنی بندی ہے“ یہ جملہ مجید ہٹس(قائداعظم یونيورسٹی اسلام آباد) پہ کھانا کھاتے ہوئے ایک دانشور نے مجھ سے یہ پوچھتے ہوئے فی البدیہہ بولا:—–  کہ آپ گورنمنٹ کالج یونيورسٹی لاہور میں کس کے ساتھ اپنا  پی ایچ ڈی کا تھیسز کرنے جا رہے ہو، میں نے کہا ڈاکٹر صائمہ ارم،۔۔۔۔جملہ، وہ اپنی بندی ہے، سے مزید تسلی ہوئی اور اپنی ریسرچ کا ایک آزادانہ منطقی نتیجہ نکالنے کی امید بھی پیدا ہو گئی۔

 ارسلان راٹھور جی سی یونيورسٹی میں استاد ہیں، یونيورسٹی میں ان سے پہلے دن ہی ملاقات ہو گئی، طویل گپ شپ ہوئی اور ساتھ یہ بھی پوچھ لیا کہ نگران مقالہ کے حوالہ سے آپ کا مشورہ درکار ہے کہ کن کے ساتھ کام کیا جائے، ذرا توقف کے بعد کہتے ہیں آپ کی ترجیحات و فکر کو سامنے رکھتے ہوئے، میرا صریحاً اشارہ آکسفورڈ سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کرنے والی انسانہ کی طرف ہے، اگلا مرحلہ ریسرچ پروپوزل کا تھا سو اس میں مجھ کم علم پہ سب کرم گستری، بے مثل فلسفی و دانشور عمران شاہد بھنڈر کی تھی اگر ان کی بھرپور اعانت نہ ہوتی تو کم از کم میں ”شعور“ سے عاری رہتا۔۔۔۔

نگران مقالہ منتخب کرنے کا معاملہ بڑا اہم ہوتا ہے اس معاملے میں کئی پہلوٶں کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے تبھی جا کر اس کا فیصلہ ممکن ہوتا ہے، فیصلہ کو نظر ثانی کے طور پر زکریا یونيورسٹی ملتان کے استاد،میرے دوست ڈاکٹر خاور نوازش سے رائے طلب کی تو آگے سے فی الفور کہتے ہیں کہ میں اپنے اس فیصلے پہ مزید نظر ثانی نہیں کر سکتا۔۔۔۔

تب جا کر مجید ہٹس پہ مجھے اطمینان کا کھانا، کھانا پڑا اور وہیں جناب ارشد محمود کا اپنا سا جملہ ”وہ اپنی بندی ہے“ سے ہمیشگی تسّلی، امید  کی صورت پیدا ہوئی۔۔۔

خاکہ (پی ایچ ڈی، اردو ادب) اِدھر مکمل ہوا اور اُدھر شعبہ کی طرف سے یہ پیغام موصول ہوا کہ آپ کو اپنے منتخب تحقیقی موضوع ”مابعد جدیدیت اور سماج کا نظریاتی تناظر“ کا پہلی سطح  پہ فلاں دن دفاع کرنا ہو گا، مقررہ دن پہ شعبہ اردو میں پہنچ گیا، انتظار کرنے کا کہا گیا، اللہ اللہ کر کے انتظار کی گھڑیاں کٹی، خیر، ثقلین نام کی آواز آئی اور میں آفس میں داخل ہو گیا، سامنے چھ لوگ تشریف فرما تھے، ایک دم تو تابڑ توڑ سوالات کی بوچھاڑ ہوئی، خیر تھوڑی دیر بعد مابعد جدیدیت نے سوالات کی اکائیوں کو چیلنج کیا اور انواعیت کی لگام تھامی تب جا کر ”اتھارٹی“ کا کچھ زور ٹوٹا، خیر، پھر انواعیت نے سارا معاملہ سنبھال لیا اور اُن کی سوچ، خیال کو تکثیر کر دیا۔پہلی سطح پہ کچھ یوں کامیاب ہوا کہ مجھے کہا گیا کہ آپ جائیں کیونکہ  ”مرکز“ کے کوچے سے ”لامرکز“ ہونا ہی ”موضوع“ کی کامیابی تھی۔

چند دن بعد یہ اعلامیہ جاری ہوا کہ آپ کی فلاں دن سے کلاسز شروع ہیں، میرا لاہور میں زندگی جینے کا باقاعدہ پہلا تجربہ ہونے جا رہا تھا اور اوپر سے یہ فقرہ بھی سن رکھا تھا کہ ”جسے لاہور کی دھرتی نے قبول کر لیا اُسے ہر جا قبول کر لیتی ہے“ ، بڑی تیاری کے ساتھ پہلے دن کلاس میں پہنچا غالباً ڈاکٹر صائمہ ارم کی پہلی کلاس تھی، پوری کلاس سے تعارف ہوا، ڈاکٹر صاحبہ ابھی تازہ تازہ آکسفورڈ یونيورسٹی (یو کے) سے اپنی پوسٹ ڈاکٹریٹ کر کے واپس آئیں تھیں، انہوں نے یو کے اور آکسفورڈ یونيورسٹی میں تعلیم وتحقیق کے حوالہ سے اسکالرز (پی ایچ ڈی) سے اپنے تجربات شیئر کیے، اس کے ساتھ ہی نوآموز فرنگ جس طرح یورپ کے مثل بہار تازہ کے جھونکوں میں محو ہوتا ہے، ڈاکٹر صاحبہ بھی اُن وادیوں میں کھوئی کھوئی نظر آئیں۔ڈاکٹر صاحبہ نے پہلے دن ہی کلاس میں میری کچھ تعریف بھی کر دی جو کہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ میں تیاری کے ساتھ کلاس میں گیا تھا، کیونکہ جب انسان کسی معاملے میں پہلے ہی سے کانشیئس ہو، اس کے نتائج کافی حد تک مثبت آتے ہیں۔

دوسری کلاس ڈاکٹر سعادت سعید صاحب کی تھی، ایسا کون ہو گا جو انہیں نہ جانتا ہو، ”شاعری کی عملی تنقید“ مضمون پڑھانے کے لیے آپ کو دیا گیا، میں سمجھتا ہوں یہ ہماری خوش بختی ہے کہ ہمیں سر سعادت پڑھانے پہ معمور ہوئے، دیکھیے قسمت نے یاوری کرنا تھی اور سر سعادت کا شاگرد ہونے کا اعزاز ہمارے نصیب میں آنا تھا بہرحال یہ ایک جاوداں فخر ہے جو ہمیں حاصل ہوا۔

وضع دار، لطیف طبع اور نہایت شریف النفس انسان ڈاکٹر اختر میرٹھی بھی ہمارے استاد مقرر ہوئے، فارسی، کا پرچہ انہیں سونپا گیا جس کو انہوں نے نہایت سلیقے و ذکاوت سے پڑھایا، ڈاکٹر صاحب کو دیکھتا ہوں تو ان کا وجود لفظ ”مرنجاں مرنج“ کی معنویت کی بھرپور عکاسی کرتا ہوا نظر آتا ہے، خداوند کریم سر اختر علی کو جیتا رکھے اور ان کا سایہ ہمارے سروں پہ قائم رکھے۔

کسی بھی بڑے ادارے میں پڑھنا ہر طالب علم کا خواب ہوتا ہے اور یہ جملہ بارہا سننے کو بھی ملتا ہے کہ فلاں بڑے ادارے کا طالب علم ہونے کا میرا خواب ہے یا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کسی بھی بڑے ادارے کو وہاں کے ذہین و فطین، لائق و فائق  طالب علم (بالخصوص) اور اساتذہ (بالعموم) ہی بڑا بناتے ہیں اور اسی طرح ایک ادارہ بڑا بن جاتا ہے اور پھر ناموری کا سلسلہ چل نکلتا ہے جو اسے مزید شہرت یافتہ بنا دیتا ہے۔میں آج کے دن اور ابھی تک یہ سمجھ نہیں پایا کہ میں نے گورنمنٹ کالج یونيورسٹی لاہور میں داخلہ کیوں لیا؟ لیکن اتنا ضرور کہنا چاہوں گا یہ فیصلہ تب ہی کچھ سمجھ آئے گا جب میں خود اپنا ڈھیر سارا حصہ اس ادارے کے سپرد کروں گا، کہیں پڑھا تھا کہ بڑے انسان جس قدر معاشرے سے لیتے ہیں اس سے زیادہ وہ معاشرے کو لوٹا دیتے ہیں۔ میرے لیے میرا لوٹانا ہی میرا اور ادارے کے عظیم ہونے کا فیصلہ کرے گا۔

آپ کو یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ گورنمنٹ کالج یونيورسٹی لاہور میں، میرا داخلہ 2019 کے وسط میں ہوا تھا اور غالباً اپریل 2019 میں، میں نے نمل یونيورسٹی اسلام آباد کو چھوڑ دیا تھا، ہوا کچھ یوں کہ 2018 کے آواخر میں میرا نمل یونيورسٹی میں پی ایچ ڈی میں داخلہ ہوا، اسلام آباد اور نمل یونيورسٹی میرے لیے کوئی اجنبی نہ تھے کیونکہ اس سے پہلے فیڈرل اردو یونيورسٹی اسلام آباد سے میں ایم فل کر چکا تھا۔ میں نے نمل یونيورسٹی میں کوئی ایک آدھے سمسٹر کی کلاسز ہی لی تھیں کہ میرا ایک ناکتخدا سے معاملہ ٹھن گیا، سیچوئشن کافی پیچیدہ ہو گئی بالآخر میں نے فیصلہ کیا کہ اس ادارے کو خیر باد کہا جائے۔خیر باد کہنے کی جہاں ایک مذکورہ وجہ تھی اس کے ساتھ دوسری وجہ یہ بھی واضح کرتا جاٶں کہ نمل یونيورسٹی پہ حاکمیت زمینی خداٶں کی تھی اور فرش کے خداٶں سے میری پہلے ہی نہ بنتی تھی ویسے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ علم و ادب کے دبستانوں پر  زمینی خداٶں کی حاکمیت کی کیا تُک بنتی ہے؟ بہرحال نمل یونيورسٹی خیالوں کی بالکونی سے مجھے یاد آتی رہا کرے گی۔

اب میں اپنے موضوع مقالہ کی طرف آتا ہوں کہ میں نے موضوع  ”مابعد جدیدیت اور سماج کا نظریاتی تناظر“ کیوں منتخب کیا؟ اس حوالہ سے صرف اتنا ہی کہوں گا کہ میں علوم کی دنیا میں معاصر تقاضوں سے اپڈیٹ رہنا چاہتا تھا، لگے ہاتھوں کچھ اپنے اس موضوع کے بارے میں بھی بتاتا چلوں۔ مابعد جدیدیت دراصل موجودہ دور کی سب سے اہم تحریک ہے اور یہ جدیدیت کے بحران کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔جدیدیت جو کہ آرٹ کی تحریک تھی جس نے ”عقل“ کو مرکزی حیثیت دی۔ عقل، اتھارٹی کو قائم ہے، اتھارٹی، جبر ہے اور جبر کو مابعد جدیدیت بالکل رد کر دیتی ہے۔سو اسی بنیاد پر کسی بھی ”مرکز“ کو چیلنج کرنا ہی مابعد جدیدیت اپنا ھدف سمجھتی ہے اور ”لا مرکز“ کی وارث بنتی نظر آتی ہے۔

 ہم اپنی اس تحقیق میں کُلی طور پر استخراجی طریقہ کار کو بروئے کار لائیں کیونکہ تبھی جا کر ہم ”مرکز“ سے ”لامرکز“ کی طرف اپنا سفر کر پائیں گے۔

میں سمجھتا ہوں پی ایچ ڈی سطح پہ سب سے اہم چیز آپ کی ریسرچ ہوتی ہے اور بالخصوص اس سطح پہ کی گئی تحقیق آپ کی پہچان بنتی ہے۔جیسا کہ درج بالا بات میں، میں نے اپنے موضوع کا مختصر تعارف کروایا ہے اور طریقہ تحقیق بھی بتایا کہ کونسا میتھڈ اپلائی کروں گا۔ میں نے اپنے موضوع کی حدود ہمارے سماج میں مہابیانیوں کی صورت حال تک محدود رکھی ہے۔بلا شبہ یہ کام کٹھن مراحل کی متقاضی ہے لیکن مجھے اسے ہرحال میں سرانجام دینا ہے وہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا:

چلتا رہا جو  آبلہ پائی  کے  باوجود

منزل کا مستحق وہی صحرانورد ہے