اے غُربت تینوں چِیر گَھتاں

یہ تحریر 3110 مرتبہ دیکھی گئی

محنت کش، مزدور طبقہ، بھوک کا خاتمہ، غُربت کی لکیر, مزدور کسان پارٹی، میرے بچپن کے پس منظر میں ان لفظوں کی تکرار مسلسل رہی۔ اب سڑک سے گُذرتے ہوئے فٹ پاتھ پر سوتے دور دراز کے علاقوں سے شہروں میں روزگار کی تلاش میں آئے ستم رسیدہ افراد کو تصویر کرتا ہوں تو غُربت کے وہ بہیمانہ معنی سامنے آتے ہیں جو مارکسسٹ یا کیپیٹل اسٹ اقتصادیات میں کبھی نھیں پڑھائے جاتے۔ میں کیمرے کی آنکھ سے دیکھتا ہوں کہ غُربت محض مالی وسائل کی عدم دستیابی کا نام نھیں، بلکہ مسلسل جدوجہد کے باوجود کسی انسان کا اپنے ننھے ننھے خوابوں کے عدم حصول میں مسلسل ناکامی سے جنم لیتی بے بسی کا نام ہے۔

ستر کی دہائی میں پہلی بار میں نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ سُنا۔ اکیسویں صدی کے اٹھارہ سال گُذرنے کے بعد میں دیکھتا ہوں کہ غریب کے لیے وہی نعرہ آج بھی ویسی ہی شدت کے ساتھ لگ رہا ہے لیکن شہر میں پانچ مرلے کے مکان کی قیمت ستّر لاکھ سے ایک کروڑ تک پہنچ چُکی ہے۔ ہر حکومت کے تحفظ یافتہ طبقے نے روٹی تو کیا دینی تھی، روٹی اُگانے کی زمین اور پینے کا صاف پانی تک چھین لیا ہے۔ جس مزدور طبقے کی میں عکاسی کرتا ہوں اُن کے پاس تَن ڈھانپنے کے لیے ایک یا دو جوڑے کپڑے کے ہیں۔ بعض ننگے فرش پہ سوتے ہیں یا کسی سیاستدان کے انتخابی پوسٹر کے چیتھڑوں پر۔

میری تصاویر میں محنت کش مرد و خواتین کی عمریں دس سال سے ساٹھ برس کے درمیان ہیں۔ ان میں سے اکثر بچے اور بچیاں مین مارکیٹ، لاہور کی پارکنگ میں آتی جاتی گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے ہیں اور جواں سال سڑکوں کی تعمیر میں پتھر کوٹنے سے لے کر گھروں میں راج مزدوری سے وابستہ ہیں۔ چند نوجوان مختلف انواع کی برگر شاپس پر کام کرتے ہیں۔ ان میں بھکاری کوئی نھیں ہے۔ ساٹھ سال میں کئی حکومتیں آئیں اور گئیں مگر ان کی حالت نہ بدلنا تھی، نہ بدلی۔ جو خواب لے کر کبھی یہ لوگ اپنے وطنوں سے چلے تھے وہ شاہراہِ اقتدار پر بھاگتی جماعتوں کے قدموں کی دھول میں کب کے روندے جا چُکے ہیں۔

نئے پاکستان کے خواب کی تعبیر میں ان میں سے کئی ایک نے ووٹ دیا ہے۔ لیکن پاکستان میں زیادہ تر لوگ نہ تو اجتماعی اقتصادی بہتری کے لیے ووٹ دیتے ہیں، نہ ہی کسی نظریاتی بُنیاد پر۔ بلکہ ووٹ دیتے وقت اُن کی واحد ترجیح یہ ہوتی ہے کہ نئی حکومت پچھلی حکومت سے اُن پر مسلط کی گئی محرومیوں کا بدلہ لے گی۔ مصطفیٰ قریشی اور سلطان راہی کی نورا کُشتی جیسی اس گول مول نظریاتی لڑائی میں ہر بار بے چارے عوام ہی کام آتے ہیں، خاص کر مزدور پیشہ یا غُربت کی لکیر سے نیچے بسنے والے کروڑوں افراد۔ حکومت ایک بار پھر بدل گئی، نعرے وہی رہے اور غُربت و افلاس کا رقص بھی جاری و ساری ہے۔ میں بھی آتے جاتے، سوتے ہوئے مزدور طبقے کے نیند میں ڈوبے، مکھیوں سے اٹّے چہروں کی، ان کے آرام میں مُخل ہوئے بِنا موبائل فون کیمرے سے تصاویر بناتا رہتا ہوں۔ یہ کام میں پُرانے پاکستان میں بھی کرتا تھا، اب نئے پاکستان میں بھی کر رہا ہوں۔