اے حرمِ قرطبہ عشق سے تیرا وجود

یہ تحریر 2933 مرتبہ دیکھی گئی

 علمِ طبیعات (physics) کے نظریے (theory) کے مطابق ہر مادہ(Matter) کچھ شعاعیں (rays) خارج (emit) کرتا ہے۔ ان شعاعوں کا انسانی نفسیات پر براہِ راست اثر ہوتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہر مادے سے خارج ہونے والی شعاعوں کی تاثیر (effect) ہر شخص پہ ایک جیسی اثر پزیر نہ ہو۔ کیوں کہ ماہرِ طبیعات کا کہنا ہے کہ ہماری انسانوں کے ساتھ ہونے والی ہم آہنگی یا تلخ کلامی کا تعلق بھی ان خارج ہونے والی شعاعوں ہی پر منحصر ہے۔

ہماری ہر دِل عزیز سہیلی سعدیہ شرافت کچھ عرصے سے اسپین میں قیام پزیر ہیں۔ اُنہوں نے اپنی نئی قیام گاہ کی تصاویر دکھاتے ہوئے اسپین کے مختلف مقامات سے بھی متعارف کروایا۔ بذریعہ اِنٹرنیٹ جہاں مدینة الزہراء اور دیگر تاریخی علاقوں کی سیر کروائی گئی اُن میں ایک اہم مقام مسجدِ قرطبہ بھی تھا۔ قدیم عمارات مجھے کسی مقناطیس کی طرح کھینچ کر اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔ مسجدِ قرطبہ جس کے ساتھ ہماری صدیوں پُرانی یادیں جُڑی ہیں اس کے سحر نے ایک بار پھر یادوں کے رین بسیروں پہ سفر کروانا شروع کیا۔ سعدیہ کی علمیت سے بھرپور گفتگو اور لب و لہجے سے تو ہم پہلے ہی بے حد مرعوب تھے مگر پھر خالص قلبی جذبات سے جُڑی اُس کی بنائی ہوئی ویڈیوز نے اُس سے مودت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

مسجدِ قرطبہ جس کی تاریخی و ادبی لحاظ سے اہمیت سے کون واقف نہ ہو گا۔ کہا جاتا ہے کہ مسلمان اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑتے ہوئے جب ناربون شہر تک پہنچے تو وہاں سے گرفتار کیے گئے عیسائی مسجدِ قرطبہ کی تعمیر پر لگائے گئے۔

اس کی بلند و بالا عمارت کو دیکھ کر پہلا خیال اقبال کی نظم “مسجدِ قرطبہ” کی طرف جاتا ہے۔ 1933ء میں جب علامہ گول میز کانفرنس میں شرکت کی غرض سے یورپ تشریف لے گئے تو خاص طور پہ مذکورہ مسجد میں نماز ادا کی۔ “بالِ جبریل” میں شامل  دو نظمیں (دُعا” اور “مسجدِ قُرطُبہ”) اسی مسجد میں تحریر کیں۔

نظم “مسجدِ قُرطبہ” جہاں مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کی یاد دِلاتی ہے وہیں اقبال کو ایک اٙن ہونے خدشے میں بھی مُبتلا کرتی ہے۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو عرب مسلمان ،711 کے قریب تقریباً ایک ہی وقت میں ہندوستان اور اسپین پہنچے۔ اقبال اس بنیادی سوال کی کشمکش میں مبتلا تھے کہ کہیں برصغیر میں موجود مسلمانوں کی قسمت میں بھی ویسا ہی مِٹ جانا نہ لکھا ہو جیسا اہلِ اسپین کی قسمت میں تھا۔

یہ وہ دور تھا جب یورپ دوسری جنگِ عظیم کی زد میں تھا اور برصغیر کے ترقی پسند مفکرین برطانوی سامراج کے خاتمے کی کوشش میں تھے۔

 ماضی سے حال کی طرف لاتے ہوئے سعدیہ نے بتایا کہ گھنٹا ٹاور جس پہ تین گھڑیال لٹکے ہوئے ہیں یہ کبھی مسجد کا بلند ترین مینار ہوا کرتا تھا۔ یہی وہ مینار ہے جس کی تعریف میں اقبال نے”تیرا منارِ بلند جلوہ گہِ جبرئیل” جیسا مصرع ارشاد فرمایا۔ اس مینار پہ لگے گھڑیال کو دیکھ کر یہ قیاس کرنا بھی آسان ہو جاتا ہے کہ اقبال “مسجدِ قرطبہ” کا آغاز “سلسلہء روز و شب نقش گرِ حادثات” سے وقت کے تیز دھارے پہ ماضی کے دریچوں میں جھانکتے ہوئے آنے والے کل کے لیے مغموم تعبیروں سے کیوں کرتے ہیں۔

محرابوں کا وہ حصہ جہاں اقبال نے نماز ادا کی تھی اُس حصے کی نشاندہی کرتے ہوئے ویڈیو میں بتایا گیا  کہ گو کہ کہیں لکھا نہیں گیا کہ یہ وہ مقام ہے جہاں اقبال نے نمازِ عشق ادا کی مگر یہاں کے ٹورسٹ گائیڈز اس خاص مقام کی طرف اشارہ کر کے یہی بتاتے ہیں

اے حرمِ قرطبہ عشق سے تیرا وجود

عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود

اقبال ؔ کا کہنا ہے کہ گرچہ عشق کی راہ پُر خار ہوتی ہے اور زمانہ سیل کی مانند ہے تاہم عشق میں وہ طاقت ہے کہ وہ راہِ عشق کی مزاحمتوں کو اپنی خاطر میں نہیں لاتا۔ زمانے پر غلبہ حاصل کرلیتا ہے۔اپنے نیک مقاصد کے حصوں کی خاطر اپنا سفر یقینِ محکم کے ساتھ جاری رکھتا ہے-  اس عشق کے کیلنڈرمیں عصرِ حاضر کے علاوہ بھی بہت سے زمانے پنہاں ہوتے ہیں جن کا کوئی نام نہیں دیا جاسکتا – اس رمز سے وہی آشنا ہوتا ہے جس کی خودی عشق کے توسط سے مستحکم ہوتی ہے اور جسے اپنی ذات اور خدا کی ذات کا عرفان حاصل ہوتا ہے یہ عشق اتنا پاکیزہ اور اس کا مقام اس قدر اونچا ہے کہ اقبالؔ نے اسے دمِ جبریل اور دلِ مصطفٰؐی سے تعبیر کیا ہے-اسی عشق کی بدولت کائنات کا ظہور ہوا اور رسولِ خدا اور کلامِ خدا معرضِ وجود میں آئے گویایہ عشق ایک طرح سے آسمانی جوہر ہے جس کے سبب انسان کا مقام اونچا اور اس کا مرتبہ بلند ہوتا ہے-  انسان کی تمام ترتابناکی، توانائی اور روحانیت اسی عشق کی مرہون منت ہیں۔

اقبال کے عشق کی وضاحت کرتے ہوئے سعدیہ نے کہا

“کبھی کبھی میں سوچتی ہوں جگہیں اہمیت رکھتی ہیں۔ لیکن اقبال کو اس مسجد میں ایسی کون سی کشش محسوس ہوئی کہ اس جگہ نے انہیں مسجدِ قرطبہ جیسی نظم میں عروج سے زوال کی داستان لکھنے پہ مجبور کیا۔ یہاں آ کر حیرانی اس بات کی ہوئی کہ جہاں پوری مسجد کی محرابوں اور میناروں کو دیکھا جا رہا تھا لیکن ایک حصہ جہاں ہر وقت سیاحوں کا جمِ غفیر موجود رہتا تھا وہ مسجد کا وہ حصہ تھا جہاں عربی رسم الخط میں کی گئی خطاطی شیشوں کا کام اور پتھروں کی زیبائش سے اُس دور کے فنونِ لطیفہ کی یاد دلاتے ہیں۔ “

کئی مہینوں کی سوچ بچار کے بعد آخر راقمہ اس نتیجے پہ پہنچی کہ بے شک تاج محل جیسی کئی پُر شکوہ عمارات برصغیر میں بھی موجود تھیں مگر یہ مسجد دراصل ہمیں اُس ماضی کی یاد دلاتی ہے جسے ہمارے پُرکھوں نے روشن کیا تھا۔  آج اگر مسلمانوں کی یاد کے نقوش ختم ہونے کے بعد اسے کلیسا کا نام دیا گیا تو اس سوال کا جواب بھی اقبال کی مذکورہ نظم میں ہی ملتا ہے جب وہ دوسرے بند میں کہتے ہیں کہ یہ صحیح ہے کہ انسان کے تخلیق کردہ نقوش کو ثبات حاصل نہیں۔ تاہم جس نقش کی تخلیق میں مردِ مومن کا عشق اور اس کا خونِ جگر شامل ہو اس کی قسمت میں فنا نہیں بلکہ بقا کا رنگ قائم رہتا ہے۔

اس مقام پہ صرف اقبال ہی کو عشق رقص کرتا نہیں دکھائی دیتا۔ مستنصر حُسین تارڑ کا سفرنامہ “اُندلس میں اجنبی”.  پڑھیں تو یہ عشق وہاں بھی پوری گرفت سے انسان کو جکڑ لیتا ہے بالخصوص “ہجومِ نخیل” کے عنوان سے تحریر کردہ باب جس میں ایک جگہ تارڑ صاحب لکھتے ہیں “قرطبہ کی محرابوں اور غرناطہ کے ایوانوں نے مجھے ایک ڈور میں باندھ رکھا ہے۔ میں اِس کے آخر میں جا کر دیکھنا چاہتا ہوں کہ یہ ڈور کون ہلا رہا ہے”