ایک پلیٹ بریانی ایک کپ کافی

یہ تحریر 854 مرتبہ دیکھی گئی

وہ ڈھلکتی جوانی کی عورت اور ڈھلتی عمر کا مرد اس پر تعیش ایونٹ کے مخصوص گوشے میں بچی چار آدمیوں والی میز پر آمنے سامنے کی کرسیوں پر براجماں اور ادھر کی بیکار باتوں میں کئی گھنٹے بسر کرچکے تھے۔ نہایت نفاست سے سجے اس ریسٹورنٹ میں جس کی دیواروں پر شہر کی نمایاں ہستیوں کی آویزاں تصاویر سے ایک مخصوص ثقافتی رنگ جمانے کی کوشش کی گئی تھی وہ دونوں برسوں سے مہینے میں جب ایک دو بار ملتے، کچھ کہی کچھ ان کہی ایک دوسرے کو سناتے۔ دن کی باتیں، دنیا کی باتیں، دوستوں کے قصے، غیار کی حکایتیں، گزرے دن اور آنے والی راتیں۔ سب کچھ ان کی گفتگو میں شامل ہوتا۔

اپنی ابتدائی ملاقات سے وہ اس مخصوص میز پر بیٹھنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اگر کبھی ان کے پسندیدہ میز خالی نہ ہوتی تو وہ کسی بھی میز پر بیٹھ تو جاتے مگر ان کی نگاہیں مسلسل اسی گوشے پر مرکوز رہتی، جیسے کہ وہ میز خالی ہوتی وہ اٹھ کر وہاں آجاتے۔ اس میں ریسٹورنٹ کے ویٹرز بھی ان کی مدد کرتے، جو نہ صرف اس بات سے واقف تھے کہ انھیں کہاں بیٹھتے پسند سے بلکہ ان کے کھانے پینے کے معمولات کو بھی جان چکے تھے۔ ان کے آتے ہی پانی کی بوتل اور دو گلاس میز پر سجا دیئے جاتے۔ اس کے بعد کبھی کبھی فرنچ فرائز کا آڈر دیا جاتا۔ پھر دونوں اپنے لیے بریانی منگواتے، پھر چائے یا اکثر رکافی کبھی کبھی معمولات میں فرق بھی آجاتا لیکن بریانی اور کافی تقریباً ہر ملاقات پر ان کی میز پر نظر آتے۔ ایسا اس کے باوجود ہوتا تھا کہ ڈھلتی جوانی کی عورت سدا کی سبزی خور تھی اور ڈھلتی عمر کے مرد کو ڈاکٹروں نے چاول کھانے سے منع کر رکھا تھا۔

یوں تو ان کے درمیان دلچسپی کے بہت سے پہلو تھے جن پر گھنٹوں باتیں کرتے وہ تھکتے نہ تھے۔ دونوں الگ الگ دفاتر میں کام کرتے تھے۔ دونوں کے درمیان کئی دوست مشترک تھے۔ زندگی میں دکھ سکھ بھی وہ ایک دوسرے سے بانٹ لیتے تھے۔ کئی مشکلات میں ایک دوسرے کے ساتھ دے چکے تھے بلکہ ایک آدھ بار تو ایسا بھی ہوا کہ اس عورت نے مرد کے لیے ایسا کام بھی کردیا جو شاید کبھی کبھار ہی کوئی عورت، ایک مرد کے لیے کرتی ہے۔

مرد بھی اس ڈھلکتی جوانی کی عورت کا بہت خیال رکھتا تھا اور کوشش کرتا تھا کہ اس کی پسند ناپسند کا مکمل خیال رکھے۔ کوئی ایسی بات نہ ہو جو کسی طرح کی ناخوشگواری کا باعث ہو۔ اس لیے دونوں جب بھی ملتے ایک عجیب سی خوشی اور انبساط ان دونوں کے وجود کا احاطہ کرلیتا۔ اس کے درمیان گہرے تعلق اور لا تعلقی کے رنگ بکھرنے لگتے۔ ان جسموں کی حرکات و سکنات نگاہوں کے انداز، ہونٹوں پر بکھری مسکراہٹیں، سب اس بات کا پتہ دیتیں کہ وہ ایک دوسرے کی قربت سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس لیے کبھی کبھار یہ سوچنے کے باوجود کہ یہ سب سعی لاحاصل ہے وہ کچھ دنوں کے بعد پھر وہی موجود ہوتے۔

ان کی پہلی ملاقات بس اتفاقی انداز میں ایک ایسی محفل میں ہوئی جو ڈھلتی عمر کے مرد کے لیے سجائی گئی تھی اور اس عورت کا موجود حسن اتفاق ہی کہا جاسکتا تھا۔ محفل کے اختتام پر وہ عورت مرد کے پاس آئی اس کے لیے اچھے جذبات اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ دونوں کے درمیان موبائل نمبروں کا تبادلہ ہوا۔ چند دن کے بعد مرد کے دل میں نجانے کیا آئی کہ اس نے عورت کا نمبر ملایا۔ دوسری جانب دو تین بار گھنٹی بجنے کی آواز سنائی دی پھر اس کے کانوں نے عورت کی آواز سنی۔ اس نے اپنا نام بتایا۔ دونوں نے حال احوال پوچھا چند ادھر ادھر کے جملوں کا تبادلہ ہوا اور پھر مرد کے کسی قدر تردید کے بعد اس سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ دوسری جانب سے ہچکچاہٹ کے بعد ملنے پر آمادگی ظاہر کردی گئی۔ بہت بعد میں عورت نے بتایا کہ اس کے ابتدائی ملاقات والے دن جب وہ بیرونی دروازے سے باہر جاچکی تھی۔ اپنی عادت کے خلاف وہ واپس آئی تھی تاکہ اس سے بات کرسکے۔

جب وہ پہلی بار اس ریسٹورنٹ میں ملے تھے تو ان دونوں نے خود کو یہ یقین دلانے کی پوری کوشش کی تھی کہ ان کی یہ سرسری ملاقات، ایک شعبے میں کام کرنے والے دو افراد کے درمیان باہمی دلچسپی کے امور پر اظہار خیال کا بہانہ ہے۔ رفتہ رفتہ ان کے درمیان تعلقات نے کئی شکلیں اختیار کیں۔ اس میں دو تین بار کے لڑائی جھگڑے تند و تیز جملوں کے تبادلے اور ایک آدھ بار ایک دوسرے کے انتہائی قریب آنے کا رنگ بھی شامل تھا۔

لیکن ان دونوں کے درمیان ایک میز کی دوری کا جو تعلق آخر تک قائم تھا۔

ریسٹورنٹ کی فضا میں وہ اکثر ایک دوسرے کے ساتھ اتنے کھوئے ہوتے کہ انھیں اپنے اردگرد کا خیال بھی کم ہی آتا مگر ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ دوسروں سے بالکل ہی بے خبر ہو جاتے ہیں۔ جب بھی ریسٹورنٹ میں زیادہ رش ہوتا اور کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تو وہ اکٹھے سوچتے کے بیٹھنے کے لیے یہ کوئی معقول جگہ نہیں۔ یہاں اس قدر شور ہے کہ ان کے لیے ایک دوسرے کی خاموشی کو سننا بھی ممکن نہیں ہو پا رہا مگر ایسا کم کم ہی ہوتا تھا۔ کبھی کبھی ایسے مناظر بھی دیکھنے کو ملتے جو انھیں کچھ کرنے کے لیے اکساتے۔ جیسے ایک دن ان کے بائیں جانب کی میز پر بیٹھے نوجوان لڑکی لڑکا ایک دوسرے میں اس حد تک کھوئے تھے کہ انھیں ریسٹورنٹ کے عوامی مقام ہونے کا احساس بھی نہیں رہا تھا۔ لڑکی نے سینڈل سے اپنا پاؤں نکالا اور میز کی دوسری جانب بیٹھنے لڑکے کی پنڈلی کو اپنے پاؤں کے انگوٹھے سے سہلانا شروع کردیا۔ بعد میں عورت نے مرد کو اس بات کے بارے مبں بتاتے ہوئے پوچھا تھا کہ کیا آپ نے دیکھا تھا۔ مرد نے صاف انکار کردیا تھا۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ سارا منظر اس نے خود بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اس کے دل میں بھی شدید خواہش پیدا ہوئی تھی کہ کاش اس کے سامنے بیٹھے عورت کے پاؤں کا انگوٹھا اس کی پنڈلی کو اس کے ہونے کا احساس دلانے یا وہ خود اپنے پاؤں کی ہلکی سی تھاپ سے اس سامنے بیٹھی عورت کے اندر کے وجود کو جگانے ایک بار تو اس نے اپنا بایاں پاؤں جوتے سے نکال بھی لیا تھا لیکن اسے یاد آیا کہ اس نے موزے پہن رکھے ہیں۔

ریسٹورنٹ ہی میں ایک دن عجیب بات ہوئی تھی۔ ایک نوعمر لڑکی کو دیکھ کر اس کے چہرے کے رنگ بدلے تھے۔ مرد کی بدلتی کیفیات کو عورت کی آنکھوں نے فوراً بھانپ لیا تھا۔ مرد کی نظروں کے تعاقب میں اس نے نوجوان لڑکیوں کے جھرمٹ کو دیکھا اور ایک لمحے کے لیے اس کے چہرے پر مردنی چھا گئی۔ اسے اپنی عمر کے ڈھلنے کا شدت سے احساس ہوا۔ اس نے شگفتہ لہجے میں مرد سے پوچھا۔ کیا ہوا۔ پہلے تو وہ چپ رہا۔ پھر قدرے سنبھلے ہوئے کہا کہ آپ اپنے بائیں جانب بیٹھی لڑکیوں میں بیٹھی، جین کی پینٹ اور گلابی قمیض والی لڑکی کو دیکھ رہی ہو۔ کیا آپ کو بہت اچھی لگی ہے۔ عورت کی بات نے مرد کو چونکا دیا۔ اس نے آہستہ آہستہ ٹھہر ٹھہر کر کہا نہیں۔ لیکن یہ مجھے کسی اور کی یاد دلا رہی ہے۔ ایک بھولے بسرے واقعے کی جو آج بھی میری رگ جاں کو کھینچتا ہے۔ اس کے جواب نے عورت کو چونکا دیا۔ مرد اپنے آپ میں گم ہوچکا تھا۔ عورت کو اپنا وجود بے معنی لگا۔ اس سامنے بیٹھے مرد کے لیے شاید اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ آپ اسے جی بھر کر دیکھ لیں۔ عورت کے اقرار کے باوجود مرد نے دوبارہ اس لڑکی کی جانب نہیں دیکھا۔ وہ اسے کیا بتاتا کہ یہ لڑکی اسے جس کی یاد دلاتی ہے اسے دیکھنے کے لیے چہرے پر لگی آنکھوں کی ضرورت نہیں۔

بعض اوقات تو ان کی ملاقات اتنی دلچسپ اور بھرپور ہوتی کہ دونوں کافی دن تک اس کے خمار میں ڈوبے رہتے۔ وہ کافی کافی دیر تک ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے۔ ایک دوسرے کے گلاس سے پانی پیتے۔ ایک دوسرے کی بریانی کی پلیٹ سے اپنی بھوک مٹاتے۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ انھوں نے ایک دوسرے کے کافی کے کپ اپنے ہونٹوں سے لگائے ہوں۔ اس دن ان کے جسموں کی تال الگ ہوتی، ان کے ہونٹوں کی ہلکی ہلکی لرزش کسی نئے سفر کی تمنائی ہوتی۔ ایسے میں وہ عورت بڑے اطمینان سے کہتی آپ کے پاس پندرہ منٹ بچے ہیں۔ وہ بالکل نہ سمجھ پاتا کہ وہ اپنے جانے کے وقت کا اعلان کر رہی ہے یا اسے کچھ کرنے پر اکسا رہی ہے۔ بس وہ محتاط سا اپنی جگہ بیٹھا کرسی میں کسمساتا اور گھسے پٹے شعروں سے اس کا دل پرچانے کی کوش کرتا۔ یہ تعلق جیسا بھی اور جتنا بھی تھا وہ اسے جاری رکھنا چاہتا تھا۔

وہ دونوں الگ الگ ملاقات کے لیے پہنچتے۔ کبھی مرد پہلے آجاتا اور کبھی عورت۔ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ انھوں نے ملنے کا طے کیا ہو اور ملاقات نہ کی ہو۔ اگر عورت پہلے آجاتی تو مرد کے آنے پر وہ بڑے ہلکے پھلکے انداز میں اسے خوش آمدید کہتی۔ اگر مرد پہلے سے موجود ہوتا تو کھڑے ہو کر عورت کا استقبال کرتا۔ میز پر مرد اور عورت کی کرسیاں طے تھیں ہمیشہ اپنے والی کرسی پر بیٹھے باتیں کرتے ہوئے وہ زیادہ تر اپنی اپنی کرسی سے ٹیک لگائے رہتے مگر کبھی کبھی آگے کو چل کر قدرے آہستہ آواز میں بھی ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے۔ اتفاق سے کبھی دونوں کے ہاتھ ایک دوسرے سے چھو جاتے تو وہ غیر ارادی طور پر پیچھے ہٹا لیتے۔ واپسی کے لیے اٹھتے ہوئے کبھی دونوں اکٹھے ریسٹورنٹ سے با ہر آتے کبھی الگ الگ مرد کو یہ جرأت کبھی نہ ہوئی کہ وہ عورت کو دعوت دے کہ وہ اسے اس کے گھر تک اپنی کار میں لے جانا چاہتا ہے اور نہ کبھی اس عورت نے ایسی خواہش کا اظہار کیا۔

ان کے تعلقات میں ایک ٹھہراؤ اور سکون تھا۔ کئی کئی دن ان کا آپس میں رابطہ نہ ہوتا۔ موبائل پر پیغامات کا تبادلہ ہوتا بھی تو بس سرسری باتیں کبھی کبھی دونوں ایک دوسرے سے اپنی کسی ضرورت کا اظہار بھی کردیتے۔ ایک دن باتوں باتوں میں عورت نے فون پر بتایا کہ آج وہ گھر میں مچھلی خرید کر لائی ہے۔ مرد کے منہ سے نکل گیا کہ اسے تلی ہوئی مچھلی بہت پسند ہے۔ بات ختم ہوگئی دوسرے دن عورت ن ے مرد سے ملنے کا اظہار کیا۔ دو دن بعد کے طے پایا۔ تیسرے دن مرد وقت سے تھوڑا پہلے پہنچ گیا۔م عورت جب آئی تو اس کے ہاتھ میں ایک نفیس سا بیگ تھا۔ مرد نے سمجھا کہ شاید شاپنگ کرکے آرہی ہے۔ کھانے کے وقت عورت نے بیگ سے چھوٹا سا ہاٹ پورٹ نکالا۔ اس میں تلی ہوئی مچھلی کے قتلے تھے۔

کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ وہ ایک دوسرے کے پیروں کی تعریف کردیتے یا بالوں کے انداز کے بارے میں پسندیدگی کا اظہار کرتے مگر ایسا کم ہی ہوتا کہ انھیں اگلی ملاقات تک یاد رہا ہو کہ پچھلے بار کس نے کس کے کپڑوں کی تعریف کی تھی۔ بس ایک بار ایسا ہوا تھا کہ عورت تین چار ملاقاتوں پر ایک ہی لباس پہن کر آئی مرد نے اس بات کو محسوس تو کیا لیکن اپنا وہم جان کر چپ رہا۔ ایسا ان دونو ں کے درمیان اس اکلوتے واقعہ کے بعد ہوا تھا جس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا تھا۔

دونوں ایک دوسرے سے دبی دبی کہیں اور ملنے کی خواہش کا اظہار تو وقتاً فوقتاً کرتے رہتے تھے مگر ایسا بس سرسری انداز میں ہوتا تھا۔ پھر نجانے کیوں مرد کے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اس عورت سے اکیلے میں کہیں ملے۔ اس طرح جیسے ایک مرد ایک عورت سے ملتا۔ پھر اس کا ایک بہانہ بھی پیدا ہوگیا۔ پہلے تو عورت نے آنے سے انکار کیا لیکن جب مرد کا اصرار بڑھا تو وہ راضی ہوگئی۔ ملاقات کی ابتدا اسی سرسری انداز میں ہوئی جیسے وہ ملنے آتے تھے۔ مگر رفتہ رفتہ ان کے ہاتھوں نے ایک دوسرے کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ اس دن جب وہ جدا ہوئے تو ان کے درمیان پرانی دوری تو ختم نہ ہوئی تھی لیکن کچھ کچھ قربت کا احساس دونوں میں جاگا تھا۔ مرد نے اس رات پہلی بار نئے سوٹ میں اپنی سیلفی عورت کو بھیجی اور عورت نے بھی خوشی کا ا ہار کیا۔ اصل میں وہ دن مرد کی سالگرہ کا دن تا اور اس کی زندگی میں پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ اس نے اپنی سالگرہ اپنی پسند کی عورت کے ساتھ منائی ہو۔

دوسرے یا تیسرے دن کی بات ہے کہ فون پر بات کرتے ہوئے عورت نے کہا کہ وہ تو آنا نہیں چاہتی تو مگر مرد کے اصرار پر مجبوراً چلی آئی۔ مرد کے دل میں بنا سارا گھروندہ ٹوٹ گیا وہ جیسے تعلق کا اظہار سمجھا تھا وہ اپنائیت نہیں مجبوری تھی۔ مجبوری کے تعلق یا رشتے سے اسے زندگی میں سب سے زیادہ نفرت رہی تھی۔ اس نے اپنی حیثیت کے باوجود کبھی کسی کی مجبوری سے فائدہ نہیں اٹھایا تھا مگر اسے لگا کہ جس تعلق اور جذبے کو وہ اپنی زندگی کے لیے سب سے اہم اور خوب صورت سمجھتا تھا وہ تو صرف ایک مجبوری تھی ایک سیراب تھا۔

میل ملاقات کا سلسلہ جاری رہا۔ مرد یہ فیصلہ کرنے کے باوجود کہ اسے اس بے معنی تعلق کو ختم کردینا چاہیے۔ عورت نے کئی بار کہا کہ وہ اپنی مرضی سے آئی تھی۔ اور مجبور کرنے کی بات تو اس نے صرف اپنے دل کو سمجھانے کے لیے کی تھی۔ وہ ملتے رہے۔ اسی پلیٹ اور ایک کپ کافی کے لیے تعلق کو نبھاتے رہے۔