ایک نادر روزنامچے کے چند اوراق

یہ تحریر 2353 مرتبہ دیکھی گئی

(اعتذار: یہ مضمون تئیس سال پہلے “فرئیڈے ٹائمز” میں چھپا تھا۔ اب میرے پاس خدا بخش لائبیریری کا شائع کردہ نسخہ نہیں ہے۔ چناں چہ اردو عبارت کے انگریزی ترجمے کو اردو میں ترجمہ کرنا پڑا۔ الفاظ مختلف ہو سکتے ہیں لیکن جو مظہر صاحب نے لکھا اس میں فرق نہیں آیا۔)

بعض حضرات اپنے ساتھ اور اردگرد پیش آنے والے واقعات کو روز بروز لکھتے جاتے ہیں۔ مشہور آدمیوں کی بات اور ہے لیکن جو نامور نہیں ہوتے اور کسی وجہ سے روز کا احوال قلم بند کرتے جاتے ہیں ان کے روزنامچوں پر آخر کیا بیتتی ہے؟ ان میں سے بیشتر منظرِ عام پر نہیں آتے۔ یا تو ان کے اخلاف انھیں ردی سمجھ کر بیچ دیتے ہیں یا اگر سعادت مند ہوئے تو مقفل کرکے رکھ دیتے ہیں اور کسی کو نہیں دکھاتے۔ انجام کار انھیں پتا چلتا ہے کہ جن روزنامچوں کو اپنی دانست میں سنبھال  کر رکھا تھا وہ کبھی کے دیمک کی خوراک بن چکے۔ اخلاف اچھے ہوں یا برے، اپنے والد یا دادا یا کسی اور بزرگوار کی میراث کو برباد کرکے ہی دم لیتے ہیں۔ یہاں مجھے یک دل چشتی کا خیال آیا جنھوں نے 1821ء سے 1861ء تک فارسی میں روزنامچہ لکھا تھا۔ یہ روزنامچہ کیا تھا، لاہور کی سیاسی، معاشی اور معاشرتی تاریخ تھی۔ ایسی کمال کی دستاویز کو چھپنا نصیب نہ ہوا اور گمان ہے کہ اب اس کی کوئی بھی جلد محفوظ نہیں۔

روزنامچے سنبھال کر رکھنے کے لائق ہوتے ہیں اور جتنے پرانے ہوں اسی حساب سے ان کی قدرت و قیمت بڑھ جاتی ہے۔ یہ ایک لحاظ سے خردبینی تاریخ کا درجہ رکھتے ہیں اور روزمرہ کی زندگی کے بارے میں ایسی معلومات فراہم کرتے ہیں جو مستند تواریخ کے دائرہ کار میں نہیں آتیں۔ ان کا فوکس یا ماسکہ محدود ہو سکتا ہے لیکن ہمیشہ باریک اور بصیرت افروز ہوتا ہے۔

سید مظہر علی سندیلوی (1839۔1911) تقریباًچوالیس سال تک روزنامچہ لکھتے رہے۔ خوش قسمتی سے یہ سارے کا سارا آج بھی سلامت ہے۔ کوئی آٹھ ہزار فل سکیپ صفحات ہیں جن کے مجلد نسخے تعداد میں اٹھارہ ہیں۔ یہ تو ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی انھیں شائع کرنے کی زحمت کرے۔ بہرحال، اس روزنامچے کا ایک انتخاب موجود ہے جو 1990 میں خدا بخش اورینٹل لائبریری، پٹنہ سے چھپا تھا۔

مظہر صاحب نے روزنامچہ لکھنے کا آغاز 1867ء میں کیا اور اظہار کے لیے فارسی کو چنا۔ بیس برس بعد انھیں احساس ہوا کہ فارسی میں لوگوں کی دل چسپی بہت کم رہ گئی ہے اور پڑھنے والوں کی تعداد گھٹتی جا رہی ہے۔ لہٰذا انھوں نے فارسی ترک کرکے اردو کو ذریعہ اظہار بنا لیا۔ یہی نہیں بلکہ جو پہلے فارسی میں لکھا تھا اس کا بھی اردو میں ترجمہ کر ڈالا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں امید یا خواہش تھی کہ آنے والی نسلیں ان کے روزنامچے سے مستفید ہوں۔

سندیلہ یو پی میں ایک قصبہ ہے۔ مظہر صاحب کے آبا و اجداد علمائے دین تھے اور فارسی کی تدریس میں مہارت رکھتے تھے، ان کے والد جودھپور میں معلم تھے۔ تنخواہ بہت کم تھی اور وہ بھی وقت پر نہیں ملتی تھی۔ خاندان غربت کی لکیر کے کہیں آس پاس بسر اوقات کرتا تھا۔ مظہر صاحب کی قسمت اچھی تھی کہ انھوں نے عربی اور فارسی کے علاوہ انگریزی بھی سیکھ لی۔ چار سال ایک مقامی سکول میں پڑھاتے رہے۔ بعد میں انھیں ریلوے میں خزانچی کی ملازمت مل گئی جو مدرسی سے بہتر تھی۔ پھر انھوں نے قانون کی ڈگری حاصل کر لی۔ اعزازی مجسٹریٹ مقرر ہوئے اور سندیلہ میونسپلٹی کے اعزازی سکریٹری بھی بنے۔ کچھ جائیداد خرید لی اور آسودگی کی زندگی گزارنے لگے۔ ان کے دو بیٹے انگلستان گئے اور بیرسٹری کی ڈگری لے کر لوٹے۔ غرض کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ محنتی آدمی تھے اور اپنے بل بوتے پر دنیوی زندگی میں سرخ رو ہوئے۔

ہر زمانے کی اپنی خوبیاں ہوتی ہیں اور اپنی خرابیاں۔ جو اقتباسات اب پیش کیے جائیں گے ان سے میرے کہے کی تصدیق ہو گی۔ جو خیالات میں نے اقتباسات کے بارے میں ظاہر کیے ہیں انھیں بریکٹوں میں درج کر دیا ہے۔

میں موسموں کے نرالے تغیرات سے آغاز کرتا ہوں جیسا کہ ان کا ذکر روز نامچے میں آیا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ غیر معمولی موسمی تبدیلیاں آج کل کے زمانے کا خاصہ ہیں اور انھیں بالواسطہ یا بلاواسطہ ایٹمی تجربات اور ماحولیاتی بگاڑ کا نتیجہ سمجھنا چاہیے۔ ماحول کو خراب کرنے میں ہمارا اپنا ہاتھ ہے اور یہ فارسی محاورہ ہم پر صادق آتا ہے کہ “خود کردہ را علاجے نیست”۔ روزنامچے میں درج باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ سو سال پہلے بھی موسم اتنا ہی اوٹ پٹانگ تھا جتنا اب ہے۔ غالباً موسموں میں اس طرح کی غرابت ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔

٭

30 اور 31 اگست، 1888ء۔ آدھی رات سے موسلا دھار بارش جو اس مقام کے لیے غیرمعمولی ہے۔ خریف کی فصل کو نقصان پہنچا۔ سیکڑوں کچے اور پکے مکان ڈھے گئے۔ سندیلہ میں کوئی چھت ایسی نہیں جو ٹپک نہ رہی ہو۔

10 اگست، 1890۔ پورے ہندوستان میں زبردست بارش۔ بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ ایسی بارشیں ان کے تجربے میں کبھی نہیں آئیں۔

16 اگست، 1891۔ سندیلے میں اور گرد و نواح میں چوبیس گھنٹوں میں تقریباً بارہ انچ بارش۔ اس سے ہر طرف سیلابی کیفیت پیدا ہو گئی۔ 25 سے 27 ستمبر تک مسلسل بارش جو ایک لمحے کے لیے بھی نہیں رکی۔

31 اگست، 1892۔ اخباروں کی اطلاع ہے کہ ہندوستان بھر میں شدید بارشیں ہوئی ہیں۔ پل ٹوٹ گئے ہیں۔ ریل کی پٹڑیاں بہہ گئی ہیں۔

26 سے 28 ستمبر، 1908ء۔ حیدرآباد شہر (دکن) میں پندرہ انچ بارش۔ موسیٰ ندی  میں، جو شہر میں سے گزرتی ہے، طغیانی آ گئی۔ ایک چوتھائی شہر برباد ہو گیا۔ ستر ہزار آدمی مر گئے۔

(بارشوں اور ان کے نتیجے میں آنے والے سیلاب آفتوں کا پیش خیمہ تھے۔ لیکن خشک سالی سے لوگ زیادہ خوف زدہ رہتے تھے۔ بعد میں لامحالہ قحط پڑتا تھا۔)

8 اگست، 1877۔ بارش کے کوئی آثار نہیں۔ خریف کی فصل تو گئی۔ ہوا اتنی ہی گرم جتنی مئی جون میں ہوتی ہے۔

11 اگست، 1877۔ بارش کے کوئی آثار نہیں۔ خریف کی فصل تو گئی۔ ہوا اتنی ہی گرم جتنی مئی جون میں ہوتی ہے۔

یکم اکتوبر، 1877۔ دس بجے سے ایسی لُو چلنے لگتی ہے کہ گھر سے باہر قدم رکھنا ناگوار گزرتا ہے۔ راتیں اتنی ہی ٹھنڈی جتنی مارچ میں ہوتی ہیں۔ بارش کی اب کوئی امید نہیں رہی۔ (اس پر حیرت ہی کیا کہ جلد قحط پڑ گیا۔)

7 فروری، 1896ء۔ خشک سالی کی وجہ سے قحط۔ کھانے کے لیے بہت کم بچا ہے۔ اناج کی قیمتیں چڑھ گئی ہیں۔ لوگ اپنے بچے فروخت کرنے لگے ہیں۔

2 اکتوبر، 1896ء۔ بارش اب تک نہیں ہوئی۔ خریف، اگھن (نومبر دسمبر)، کوار (ستمبر اکتوبر) کی فصلیں سب تباہ۔ اگر اس دن کے اندر بارش نہ ہوئی تو ربیع کی فصل کو بھی خیرباد کہنا پڑے گا۔ بھوکوں نے آگرہ میں غلہ منڈی لوٹ لی۔ پولیس انھیں روکنے کے لیے کچھ نہ کر سکی۔ بہت سی جگہوں سے لوٹ مار اور دنگے کی خبریں موصول ہوئی ہیں۔  عجیب بات یہ دیکھنے میں آئی ہے کہ جو پھل عام طور پر مئی جون میں پک جاتے ہیں وہ تاحال پکنے کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ پکے آم اس وقت بھی پک رہے ہیں۔ میں نے سندیلے میں خود نیم کی نمکولیوں کو پکتے اور ٹپکتے دیکھا ہے۔

9 ستمبر، 1899ء۔ اس بار پھر بارش نہیں ہوئی اور گجرات، راجپوتانہ اور شمال مغربی علاقوں میں شدید قحط ہے۔ گزر بسر کی خاطر بہت سے لوگ ڈکیت بن گئے ہیں۔

(انیسویں صدی کے آخری دس برسوں میں شدید بارشوں اور خشک سالی کے علاوہ 1893ء میں کڑاکے کی سردی پڑی۔ کہتے ہیں کہ جہلم، گجرات اور سیالکوٹ تک میں برفباری ہوئی۔ یاد آیا کہ ایک مرتبہ طالب چکوالوی کی آپ بیتی پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ یہ صاحب 1947ء میں بھارت جانے پر مجبور ہو گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ 1923ء میں چکوال میں خاصی برف باری ہوئی تھی۔ واللہ اعلم۔ اس کی تصدیق یا تردید چکوال کے بزرگ ہی کر سکتے ہیں۔)

21 فروری، 1893ء۔ غیر معمولی ٹھنڈ۔ کسی کو یاد نہیں آتا کہ کبھی ایسی سردی پڑی ہو۔ کہتے ہیں کہ کشمیر میں چائے پیالیوں میں جم جاتی ہے۔ انڈے پتھر کی طرح سخت ہو جاتے ہیں۔

8 مئی، 1893ء۔ پروا دن رات چلتی رہتی ہے اور رات کو اگرچہ میں چھت تلے سوتا ہوں، پھر بھی لحاف اوڑھنا پڑتا ہے۔ تمام ہندوستان میں یہی حالت ہے۔ 2 اور 5 فروری، 1905ء۔ بہت برف پڑ رہی ہے اور ہوا کے جھکڑ چل رہے ہیں جن کے سردی دوچند ہو گئی ہے۔ بہت سی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں اور پھل دینے والے درختوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ برتنوں میں پانی جم جاتا ہے اور مخدوم پورے کے تالاب کے ایک حصے پر برف جم گئی ہے۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ آگرہ اور اجمیر جیسے دور دراز علاقوں میں جوہڑ جم گئے ہیں۔ (یوپی کے میدانی علاقوں میں برف کبھی نہیں پڑتی۔ مظہر لازمی طور پر بہت بھاری پالے کا ذکر کر رہے ہیں۔ تاہم یہ بات کہ برتنوں اور تالابوں میں برف کی تہ جم گئی بلاشبہ قابلِ غور ہے۔)

(موسلا دھار بارشیں اور سکھاڑ تو اتفاقی امر تھے لیکن ہیضے، چیچک، ملیریا، ٹائیفائڈ اور طوفان جیسی وبائیں تو ہر برس کا معمول تھیں۔ گلٹیوں والے طاعون کی کی تباہ کاریاں تفصیل کا تقاضا کرتی ہیں۔)

14 مئی، 1900ء۔ طاعون پہلی بار پانچ سال قبل بمبئی میں پھیلا۔ اب ہندوستان کا ہر ضلع اس میں مبتلا ہے۔

6 مئی، 1903ء۔ 1897 سے 1902ء تک طاعون سے مرنے والوں کی تعداد اب سولہ لاکھ تہتر ہزار تک پہنچ گئی ہے۔

18 فروری ، 1905ء۔ 4 فروری کوجو ہفتہ مکمل ہوا اس میں چھتیس ہزار ایک سو سرسٹھ آدمی طاعون سے مرے۔ اس سے پچھلے ہفتے میں مرنے والوں کی تعداد تنتیس ہزار ستاسی تھی۔

29 اپریل، 1907ء۔ 2 اپریل کو ختم ہونے والے ہفتے  میں چھہتر ہزار پانچ سو دس افراد طاعون کی بھینٹ چڑھے۔ اس سے پچھلے ہفتے میں مرنے والوں کی تعداد پچھتر ہزار چار سو بہتر تھی۔

(یہ اعداد و شمار یقینا درست نہیں لیکن ان سے وبا کی شدت کا اندازہ ہوتا ہے۔ طاعون چوں کہ 1895ء سے 1911ء تک پھیلا رہا اور اس کا کوئی تدارک نہ ہو سکا اس لیے فوت ہونے والوں کی تعداد شاید چالیس لاکھ سے زیادہ ہو۔ علاوہ ازیں اس مدت میں لاکھوں لوگ ہیضے اور چیچک کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان ہر سال آنے والی آفتوں اور  شیرخوار بچوں کی بہت بلند شرح اموار کے سبب آدبادی میں یونہی سا اضافہ ہوتا تھا۔)

مظہر علی کے روزنامچے کی ورق گردانی لطف سے خالی نہیں۔ طرح طرح کی دلچسپ ضمنی باتوں پر نظر پڑتی ہے۔ انیسویں صدی یا بیسویں صدی کے پہلے دس سال کے سکوں کو موجودہ رقموں میں بدلنا ذرا ٹیڑھا کام ہے۔ اس سے ماضی کی معاشیات کے مورخ ہی بہتر طور پر نمٹ سکتے ہیں۔ لیکن میں اتے پتے کے طور پر ایک بات پر توجہ دلاتا ہوں۔ مظہر علی بتاتے ہیں کہ 1889ء میں سیر بھر چھوٹا گوشت دو آنے کا ملتا تھا۔

29 مارچ ، 1899ء۔ میں کنور نریندر بہادر سے ملنے گیا۔ ان کی دعوت پر مجھے گھنٹے بھر ایک آلے کو سننے کا موقع ملا جسے حال میں ایک امریکن مسٹر ایڈیسن نے ایجاد کیا ہے۔ اس میں ہر کسی کی آواز، ہر قسم کی آواز محفوظ کی جا سکتی ہے۔ جو بات بھی کی جائے، جو گیت بھی گایا جائے وہ فی الفور پیالے میں درج ہو جاتا ہے۔ (مظہر صاحب نے توے کے بجائے پیالہ لکھا ہے)۔ جب اسے بجایا جاتا ہے تو اصل گیت اور موسیقی ٹھیک ٹھیک سننے کو ملتی ہے۔ کنور صاحب نے یہ آلہ تین سو روپیے میں خریدا ہے۔

23 اگست، 1911ء۔ کل رات کوٹھی میں بجلی کا پنکھا میرے پاس رکھا گیا اور سات بجے شام سے چھ بجے صبح تک چلا۔ اس کی وجہ سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا آتی رہی اور مجھے بڑے مزے کی نیند آئی۔ رات بھر چلا اور اس پر صرف ڈیڑھ آنے کا مٹی کا تیل صرف ہوا۔ اس پنکھے کی قیمت چھیانوے روپیے ہے۔

11 اور 12 اگست، 1893ء۔ بمبئی، کاٹھیاواڑ اور جونا گڑھ میں ہندو مسلم فساد پھوٹ پڑے۔ دو دن کی خوں ریزی میں  اکیاون آدمی مارے گئے اور چھ سو زخمی ہوئے۔

1891ء کی مردم شماری کے مطابق ملک میں دو کروڑ چھبیس لاکھ بیوہ عورتیں تھیں۔ عورتوں کی کل تعداد دس کروڑ تھی۔ اس لحاظ سے ہر پانچویں عورت بیوہ تھی۔ ہندو اور جین بیواؤں کی تعداد ایک کروڑ چورانوے لاکھ تھی۔ مسلمان اور مسیحی بیواؤں کی تعداد صرف بتیس لاکھ تھی۔

4 ستمبر، 1891ء۔ مکہ میں صفائی اور صحت عامہ کے انتظامات بہت ناقص ہیں۔ ہر سال ہیضہ پھیلتا ہے جس سے روزانہ چار پانچ سو حاجی فوت ہو جاتے ہیں۔ مظہر علی نے اس مختصر اطلاع کے بعد 1885ء سے 1891ء تک کے حاجیوں کے مکمل اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔ حاجیوں کی کل تعدادچونسٹھ ہزار چھ سو اڑتیس تھی۔ ان میں سے اکیس ہزار چار سو انچاس واپس نہیں آئے۔ (واپس نہ آنے والوں میں سے بعض نے شاید مکہ میں رہ جانے کو ترجیح دی ہو لیکن یہ فرض کرنے میں کوئی ہرج نہیں کہ بہت سے بعض وجوہ سے فوت ہو گئے ہوں۔ 1888ء خاص طور پر برا سال ثابت ہوا۔ تیرہ ہزار نو سو ستر حاجیوں میں سے سات ہزار چھ سو بیالیس واپس آئے۔)

22 نومبر، 1888ء۔ اب تفصیلات دستیاب ہیں کہ راجا صاحب محمود آباد نے، فضول خرچی کی انتہا کرتے ہوئے، یوپی کے لفٹننٹ گورنر کی ضیافت پر سوا لاکھ روپیے خرچ کر ڈالے۔ (کسی بھی رخ سے دیکھا جائے یہ انیسویں صدی میں بہت بڑی رقم تھی۔)

3 نومبر، 1888ء۔ سر سالار جنگ (متوفی) کسی زمانے میں ریاست حیدر آباد کے وزیر اعظم تھے۔ ان کی پوتی کو امرا میں سے کسی لڑکے سے بیاہ دیا گیا۔ دلھا کی عمر تین سال تھی اور دلھن ابھی ایک مہینے اور سات دن کی ہوئی تھی۔ (اشرافیہ ابلہی کی بدترین مثال جو ہر کسی سے بازی لے گئی۔)

28 ستمبر، 1881ء۔ میری بیٹی کی شادی پر کل دو ہزار سٹھ روپیے خرچ ہوئے۔

27 نومبر، 1874ء۔ عین اس وقت ستائیس روپیے میں ایک لاکھ چھوٹی اینٹ دستیاب ہے۔ میں نے مکان تعمیر کرنے کے لیے کئی لاکھ اینٹیں خریدی ہیں۔ بتیس روپیے میں ایک لاکھ بڑی اینٹ مل جاتی ہے۔

1897ء میں ملکہ وکٹوریہ نے اپنی تخت نشینی  کی الماسی جُبلی منائی۔ ماضی پر حسرت بھری نظر ڈالتے ہوئے مظہر صاحب نے بتایا ہے کہ 1837 میں مختلف اجناس کی قیمت کیا تھی۔ گندم ایک روپیے میں پینتالیس سیر، چنا ایک روپیے میں پنتیالیس سیر، بیجھڑ ایک روپیے میں ساٹھ سیر، جو ایک روپیے میں ساٹھ سیر، باجرہ ایک روپیے میں پنتالیس سیر، ماش ایک روپیے میں پچاس سیر، مونگ ایک روپیے میں پچیس سیر، ارہر ایک روپیے میں چالیس سیر، مقامی مکئی ایک روپیے میں پچاس سیر، چاول ایک روپیے میں بیس سیر، گڑ ایک روپیے میں تیرہ سیر، گھی ایک روپیے میں ساڑھے چار سیر، پکانے کا تیل ایک روپیے میں چودہ سیر۔

15 جون، 1879ء۔ اس بار آموں کی زبردست فصل۔ نہ کبھی آم اتنے بہت سے دیکھنے کو ملے نہ اتنے سستے۔ اس لمحے آپ ایک پیسے میں سو آم خرید سکتے ہیں۔

یکم جولائی، 1893ء۔ آموں کی غضت کی بہتات۔ تین پیسے میں سو آم۔

(یہ فرض کرنے کی ضرورت نہیں کہ سو سال پہلے درختوں پر زیادہ پھل آتے تھے۔ بات صرف اتنی تھی کہ نہ تو پھلوں کو سٹور کرنے کی کوئی سہولت تھی نہ انھیں دور دراز مقامات تک صحیح حالت میں پہنچانے کا کوئی انتظام جس برس آموں کی فصل اچھی ہوتی تو اسے مقامی طور پر جلد از جلد ٹھکانے لگانے کے سوا چارہ نہ تھا۔) 21 نومبر، 1907ء۔ قحط کی صورتِ حال پیدا ہو گئی ہے۔ چارہ مشکل سے دستیاب ہوتا ہے۔ مویشیوں کو خوراک فراہم نہیں کی جا سکتی۔ ہندو اور مسلمان اپنے مویشی قصائیوں کے ہاتھ بیچ رہے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ اس وقت گوشت دو پیسے سیر بک رہا ہے۔