ایک سمندر کے پرندے

یہ تحریر 1188 مرتبہ دیکھی گئی

اے سمندری پرندو
انہی سبز ساحلوں سے
کبھی تم آڑے سفر پر
کبھی ہم سفر کو نکلے
وہی دور کے بلاوے
وہ ہوا کے تازیانے
وہی وقت کے بھنور ہیں
وہی ڈوبتے زمانے
وہی دُور دُور جانا
وہی لَوٹ کر بھی آنا
وہی رسم ہے پرانی
وہی کام ہے پرانا
یوں ہی مُڑ رہی ہیں صدیاں
یوں ہی ہم بھی مڑ رہے ہیں
جہاں جھاگ اُڑ رہی ہے
وہاں ہم بھی اُڑ رہے ہیں