” ایک ساتھ سوتے ہیں تاکہ ایک ساتھ مر سکیں”

یہ تحریر 229 مرتبہ دیکھی گئی

” ایک ساتھ سوتے ہیں تاکہ ایک ساتھ مر سکیں”

یہ شاعری اور افسانہ نہیں ہے
زندگی ہے, زندگی کا شعور بھی اور زندگی کا دکھ بھی
“زندگی میں دکھ ہی دکھ ہے اور دکھ کا کارن خواہش ہے”
ایک ساتھ سونے اور ایک ساتھ مرنے کی خواہش کتنی بڑی ہے اس کا دکھ کتنا بڑا ہے
شمع کا دکھ بڑا ہے یا پروانے کا
مسلسل سلگنا اور ایک پل میں خاکستر ہو جانا
کتنا دشوار اور کتنا آسان ہے
ایک ساتھ سونے اور ایک ساتھ مرنے کی خواہش کتنی بڑی ہے
یہ وہ زندگی ہے جو نگاہ سے اوجھل ہے
اس زندگی کو جینے کی خواہش کتنی بڑی ہے
موت کا تجربہ موت ہی بیان کر سکتی ہے
ایک ساتھ مرنے کا تجربہ
تنہا مرنے کے تجربے سے کتنا صبر آزما ہے
یہ شاعری اور افسانہ نہیں ہے
اگر یہ شاعری اور افسانہ نہیں ہے تو پھر افسانہ اور شاعری کیا ہے؟
افسانہ اور شاعری حقیقت کی جس کھردری اور سخت زمین کا پتہ دیتی ہے
وہ زمین خون کی کتنی پیاسی ہے
زمین کتنی لال ہو چکی ہے
ایک بچے کی پیشانی اور سر سے نکلتا ہوا خون
زمین کے جس حصے پر گرا ہے
وہ زمین کیا کہتی ہے، کیا سوچتی ہے
اس پر کیا گزری ہوگی
بچے کا ننھا سا وجود زخمی باپ کی گود میں کتنا آسودہ تھا
یہ آسودگی بھی دراصل اسی آرزو کی ایک گواہی ہے
ایک ساتھ سوتے ہیں تاکہ ایک ساتھ مر سکیں
بچے نے اپنی زبان میں کچھ کہا ہوگا
اس کی آواز کہاں تک گئی ہوگی
ایک ساتھ سوتے ہیں تاکہ ایک ساتھ مر سکیں
سوتے اور جاگتے کا قصہ
اپنی معنویت کھو رہا تھا
وہ بھی تاریخ کا ایک عمل ہے
اسی تاریخ کے دوراہے پر سوتے اور جاگتے کا قصہ
نئے معنی سے ہمکنار ہو رہا ہے
یہ سونا بھی دراصل جاگنا ہے اور جاگنا بھی اصل میں ایک طرح کا خواب ہے
یہ ایک تاریخی سخن جس لہولہان سرزمین سے نکل کر ہمارے علاقے میں آیا ہے
اس کی صرف ایک زبان ہے
اس کا داخلی آہنگ اسی زبان کا پتہ دیتا ہے
زبان کا لباس ادھڑتا جاتا ہے
پیشانی اور سر سے رستا ہوا خون زبان بھی ہے، تاریخ بھی ہے
اور وہ علاقہ بھی جو ابھی نگاہ سے اوجھل ہے
وہ نہ شاعری ہے اور نہ افسانہ
لیکن وقت کہتا ہے کہ یہی شعر بھی ہے اور افسانہ بھی
اسی سے بڑی شاعری اور بڑے افسانے کا معیار متعین ہوگا
مگر اس میں تھوڑا وقت لگتا ہے
بچے کی پیشانی اور سر سے رستا ہوا خون
نئی زندگی کی قبا لے کر آیا ہے

(فلسطین سے متعلق سلیم سہیل کی ایک پوسٹ سے متاثر ہو کر)

سرور الہدیٰ
16/10/2023