ایک بلا عنوان کہانی

یہ تحریر 989 مرتبہ دیکھی گئی

پرویز جب اس دن غزالہ سے ملنے کے لیے ریسٹورنٹ میں پہنچا تو اس کے انداز میں کوئی ایسی بات تھی جس نے غزالہ کو چونکا دیا۔ زندگی کی پچاس سے زیادہ بہاریں، خزائیں دیکھ چکے، وہ دونوں کالج کے زمانے کے دوست تھے۔ پھر برسوں بعد ان کی اچانک ملاقات ہوئی تو پرانی یادیں اور موجود تنہائی سے بچنے کے لیے کبھی کبھی کسی عوامی مقام پر وہ مل بیٹھتے تھے۔ دو تین گھنٹے بغیر کسی غرض کے ایک دوسرے کے ساتھ دکھ سکھ بانٹتے۔ وہ دونوں جب اٹھتے تو انھیں لگتا کہ وہ بالکل ہلکے پھلکے ہوچکے ہیں۔

اس دن جب پرویز کو بیٹھے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی تو اس نے غزالہ کو بتایا کہ ہوسکتا ہے کہ آج وہ زیادہ دیر نہ بیٹھ سکے۔ اسے ایک ضروری فون کا انتظار ہے اور پھر اسے بتائی ہوئی جگہ پر پہنچنا ہوگا۔ یہ بات خلاف معمول تھی۔ غزالہ نے اس کی وجہ پوچھی۔ پرویز کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا۔ پھر ٹھہر ٹھہر کر بولا، ”ایک حساب چکانا ہے۔ جس سے حساب چکانا ہے وہ بھول چکا ہے، مگر وہ نہیں جانتا کہ جس نے حساب چکانا ہوتا ہے، وہ نہیں بھولتا“۔ پرویز کے جواب نے غزالہ کو مزید الجھا دیا مگر اس کے بعد پرویز نے مکمل خاموشی اختیار کرلی۔ غزالہ نے اس کی کیفیت کو دیکھتے ہوئے اسے مزید کریدنا مناسب نہ سمجھا۔ ایسا لگتا تھا کہ بظاہر تو پرویز اس کے سامنے بیٹھا ہے، مگر موجود وہ کہیں اور ہے۔

پرویز بظاہر تو اس جدید ساز و سامان سے آراستہ ریسٹورنٹ میں غزالہ کے سامنے بیٹھا تھا لیکن صبح کے وقت ایک نامعلوم نمبر سے آنے والی کال نے اسے چالیس سال پہلے کا ایک وعدہ یاد دلایا تھا۔ وہ وعدہ جو پرویز بھول بھی چکا تھا، مگر وہ اس کے وجود میں اتنا گہرا اترا ہوا تا کہ یک دم اپنی پوری تابانی کے ساتھ روشن ہوگیا۔ تب سے اب تک وہ اسی زمانے میں زندہ تھا۔ پرانے شہر کے وہ گلی محلے جس میں پرویز کا بچپن گزرا تھا، اس کے حافظے میں ایک ایک کرکے تازہ ہو رہے تھے۔ شہر کے ایک چھوٹے سے بازار سے ملحق تنگ سی گلی جس میں موجود پرائمری سکول میں اس نے تختی پر ا، ب اور گنتی لکھنا سیکھا تھا۔ بچپن کے وہ دوست جن میں گل ریز کا چہرہ سب سے نمایاں تھا۔ دونوں کے گھر ساتھ ساتھ تھے۔ وہ دونوں اکٹھے سکول جاتے، اکٹھے کھیلتے، محلے میں آباد گھروں کی چھتوں پر گرمی کی دوپہروں میں آسمان پر اڑتی پتنگوں اور پرندوں کو دیکھتے، بچپن میں زندگی کی تھوڑی سی ضرورتوں کے لیے بھی ایک دوسرے کا منہ تکتے، وہ بس بڑے ہوتے گئے تھے۔ وہ دو اور ان کے ساتھ تیسری منی جو استاد کی اکلوتی بیٹی تھی اور جس کے ہونے سے یہ تگڑم بے خوفی سے کھیلتی کودتی تھی کہ استاد کے سامنے کسی کو دم مارنے کی مجال نہ تھی۔

ان دونوں نے جب بچپن سے لڑکپن میں قدم رکھا تو جیسے کسی طے شدہ قاعدے سے استاد نے انھیں اپنی کفالت میں لے لیا۔ استاد کا اصل نام تو کچھ اور تھا مگر اب وہ اسی نام سے مشہور تھا اور اسی نام سے پکارا جانا پسند کرتا تھا۔ استاد اسی جگہ کی جم پل تھا اور وہ اپنے چھوٹے سے کاروبار سے اپنے خاندان کی ضروریات پوری کرنے کی تگ و دو میں لگا رہتا۔ زندگی ایسے ہی گزرتی رہتی اگر ایک دن ایک معمولی واقعہ ایک بڑی لڑائی میں تبدیل نہ ہو جاتا۔ استاد لڑائی جھگڑے سے دور روہتا تھا۔ وہ معمولی قد و قامت کا مرد تھا۔ اس کے لیے اپنا خاندان سب سے اہم تھا۔ پھر استاد کی زندگی میں فردوس آئی۔ دونو ں کی محبت جب سرگوشیوں سے زبانو ں کی نوک پر آئی تو فروس کے خاندان والوں نے دونوں کے ملنے پرم پابندی لگا دی۔ یہاں تک تو بات معمول کے مطابق اور قابل برداشت تھی، مگر جب تین محلے دور کے ایک بدمعاش نے سر راہ استاد کو روکا اور فردوس سے ملنے پر اس کی ماں بہن کا برا حال کرنے کی دھمکی دی تو استاد سے برداشت نہ ہوسکا۔ اس نے پھل کی دکان سے چھری اٹھائی اور اس بدمعاش کے پیٹ میں گھونپ دی۔ استاد نے صرف اسی پر بس نہ کیا وہ خون آلود چھری لیے اس بدمعاش کے گھر پہنچا اور اس کے دو چھوٹے بھائیوں کو للکارا۔ وہ اپنے علاقے کے نامی گرامی بدمعاش تھے۔ یہ برداشت نہ کرسکے مگر یا تو اس دن ان تینوں بھائیوں کی قسمت بری تھی یا استاد کا ستارہ عروج پر تھا۔ باقی دونوں بھی استاد کے ہاتھ سے مارے گئے۔ استاد نے اس گھر میں موجود عورتوں اور بچوں کو کچھ نہ کہا۔ وہ جانتا تھا کہ بدمعاش آپس میں جتنی بھی دشمنی رکھتے ہوں، ایک دوسرے کے گھر والوں پر کبھی حملہ نہیں کرتے۔

استاد نے آلہ قتل غائب کردیا اور خود گھر آکر کپڑے بدلے اور چھت پر جا کر ان کو آگ لگا دی۔ شام تک یہ بات پورے علاقے میں پھیل چکی تھی۔ ایک ہی دن میں ہونے والے تین قتلوں نے عجیب خوف و ہراس کی فضا پیدا کردی تھی۔ ہر شخص ڈرا اور سہما ہوا تھا۔ فردوس کے گھر والوں کی حالت دیدنی تھی، مگر استاد نے انھیں کچھ نہ کہا۔ استاد کا باپ، ماں اور بہن بھی ڈر کے مارے کانپ رہے تھے۔ اس نے انھیں تسلی دی اور بھاگنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ رات کو پولیس نے چھاپا مارا۔ استاد خود گھر سے باہر آیا اور اس نے اپنی گرفتاری دی۔ تھانے میں مار پیٹ کا سلسلہ تو چلا مگر استاد نے آلہ قتل کے بارے میں کچھ بھی بتانے سے صاف انکار کردیا اور وہ اس پر قائم رہا۔ تھانے سے عدالت اور کیمپ جیل تک استاد اپنے جرم سے انکار پر قائم رہا۔ واردات تو سب کے سامنے ہوئی تھی لیکن کوئی بھی گواہ بننے کو تیار نہیں تھا۔ اس بدمعاش خاندان میں اب کوئی بالغ مرد موجود نہیں تھا۔ خواتین کہاں تک مقدمے کی پیروی کرتیں۔ شہر میں موجود ایک دو با اثر افراد جن کے بدمعاشوں سے دشمنی کے معاملات چل رہے تھے۔ استاد کی مدد کو آئے اور تین چار سال میں استاد باعزت بری ہوکر آگیا۔

اب علاقے میں استاد کی دھاک بیٹھ چکی تھی۔ فردوس کے والدین کو کوئی پیغام ملا تھا یا انھوں نے خود ہی اس کی شادی کسی دوسری جگہ نہیں کی تھی۔ بعض لوگ یہ کہتے تھے کہ فردوس نے اپنے والدین کو صاف صاف بتا دیا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے، وہ صرف استاد ہی سے شادی کرے گی اور اگر اسے زیادہ مجبور کیا گیا تو اپنی زندگی اپنے ہاتھوں سے ختم کرلے گی۔ استاد کے رہا ہو کر آنے کے چھ ماہ بعد دونوں کی شادی ہوگئی۔ استاد اب بظاہر تو اپنا پرانا کاروبار کرتا تھا، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس نے جائیداد کی خرید و فروخت کا سلسلہ بھی شروع کردیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کے پاس پیسے نظر آنے لگے تھے اور ایسا لگتا تھا کہ اب استاد کی زندگی میں بس خوشیاں ہی خوشیاں ہیں کہ ابھی شادی کو دو سال بھی نہ گزرے تھے کہ اپنے پہلے بچے کی پیدائش کے دوران فردوس کا انتقال ہوگیا۔ دائی بچی کو بچانے میں کامیاب ہوگئی۔ منی نے اس دنیا میں آنے کے بعد جو پہلی آواز سنی وہ شاید اس کی اپنی ماں کی ہچکی تھی۔

استاد اس صدمے کو شاید منی کی وجہ سے برداشت کرگیا۔ منی کی پرورش استاد کی ماں کرتی رہی۔ استاد اپنے کاروبار کے چکروں میں پڑا رہتا، مگر جیسے ہی فارغ ہوتا، سیدھا گھر آتا۔ گھر میں سارا وقت اپنی یبٹی کے ساتھ گزارتا۔ گھر میں استاد کو دیکھ کر کوئی یہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ یہ وہی فرد ہے جس کی شہرت اب شہر کی دیواروں اور دروازوں سے باہر بھی نکلنے لگی ہے اور جسے کئی جھگڑوں کے فیصلوں میں منصف کے طور پر بلایا جاتا ہے۔ جس کا اپنا ڈیرا ہے جہاں ہر وقت آٹھ دس بندے موجود رہتے ہیں۔ یہ بھی سنا گیا تھا کہ استاد نے کئی لوگوں کو فائر مارے ہیں، مگر اس بات کی کوئی معتبر گواہی نہیں ملتی تھی، اور پہلے واقعے کے بعد شاید ہی ایسا ہوا تھا کہ استاد کو تھانے بلایا گیا ہو۔ علاقے کے ایک اہم خاندان کے ساتھ استاد کی گاڑھی چھنتی تھی۔

منی کے باپ کا نام اس بات کے لیے کافی تھا کہ وہ آزادانہ گلیوں میں کھیلتی کودتی پھرے۔ اپنے محلے کے سب لڑکوں لڑکیوں میں اسے پرویز اور گل ریز کے ساتھ کھیلنا اچھا لگتا تھا۔ وہ دونوں بھی منی کے محافظوں کی طرح ہر وقت اس کے ساتھ لگے رہتے۔ استاد اس سب سے واقف تھا، مگر اس کی جہاں دیدہ نگاہ جانتی تھی کہ یہ تینوں ایک ایسے رشتے میں بندھے ہیں جسے توڑنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ جب انھوں نے لڑکپن میں قدم رکھا تو استاد نے گل ریز اور پرویز کو اپنے گروہ میں شامل کرلیا کہ اس سے اچھا کاروبار دونوں کے لیے کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ استاد باہر چاہے کچھ بھی کرتا ہو، مگر وہ اپنے محلے میں سر جھکا کر چلتا۔ گلی محلے کی کسی عورت یا لڑکی کو آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتا۔ ضرورت مند کی ضرورت خاموشی سے پوری کردیتا۔ ماں کے کہنے کے باوجود استاد نے دوسری شادی سے صاف انکار کردیا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کی زندگی میں صرف منی ہی بامعنی وجود ہے۔

استاد نے گل ریز اور پرویز کو اپنی جائیداد کے کاروبار تک محدود رکھا تھا اور انھیں کبھی لڑائی جھگڑے میں اپنے ساتھ لے کر گیا تھا نہ انھیں ہتھیار چلانے یا رکھنے کی اجازت دی تھی۔ منی اب بھی دونوں سے بے حجاب ملتی تھی۔ گل ریز نے پرائمری کے بعد کبھی سکول کی شکل نہ دیکھی تھی، مگر پرویز کسی نہ کسی طرح میٹرک کا امتحان اچھے نمبروں میں پاس کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ استاد نے پرویز کا حوصلہ بڑھایا کہ وہ کالج میں داخلہ لے اور شام کو استاد کے دفتر میں کچھ لکھت پڑھت کا کام کردیا کرے۔ ادھر گل ریز کے اتھرے پن کو استاد نے پوری طرح قابو کر رکھا تھا۔

لگتا تھا کہ سب کچھ ایسا ہی سکون اور اطمینان سے چلتا رہے گا کہ ایک دن ایسا واقعہ ہوا کہ سب ہل گئے۔ سامنے کے محلے میں رہنے والے رفیع نے منی کو دیکھ کر کچھ نازیبا کلمات کہے۔ منی، استاد کی بیٹی تھی اور کسی میں اتنی جرأت نہ تھی کہ الٹی سیدھی بات کرے۔ منی نے رفیع کو سخت الفا ظ میں ڈانٹ دیا۔ رفیع جوانی کے جوش میں حواس کھو بیٹھا۔ اس نے پستول نکالی اور تین فائر سیدھے منی کو مار دیئے۔ منی جب گول کھا کر گری تو رفیع کے ہاتھ میں پستول کانپا۔ وہ اپنے قدموں میں بیٹھتا چلا گیا۔ پھر چیختا چلاتا ایک طرف کو بھاگ گیا۔

جب تک استاد کو خبر ہوتی منی تڑپ تڑپ کر ختم ہوچکی تھی۔ استاد، گل ریز اور پرویز تقریباً ایک ساتھ جائے وقوع پر پہنچے۔ کہنے سننے کی گنجائش نہیں تھی۔ گل ریز نے رفیع کا پستول اٹھایا اور رفیع کے گھر کی طرف بھاگا۔ استاد نے پیچھے سے اسے آواز دی۔ اس کے الفاظ میں جانے کیا تھا کہ گل ریز الٹے قدموں واپس آیا:”صرف اس سے بدلہ لینا ہے جس نے یہ کیا ہے۔ کسی بے قصور کو قتل نہیں کرنا“۔ تب ان تینوں نے اکٹھی قسم کھائی کہ رفیع کا قتل ان پر واجب ہے، جب جہاں، جل حال ملے گا۔

استاد کا شمار شہر کے بڑے نامی گرامی بدمعاشوں میں ہونے لگا۔ وہ دس سال ٹاپ ٹین میں سب سے اوپر رہا اور پھر ایک لڑائی یا پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ گل ریز نے بھولا کے نام سے استاد کی جگہ سنبھالی۔ پھر اس کا شمار بھی ٹاپ ٹین میں ہونے لگا۔ پرویز نے پڑھتے پڑھتے پہلے ملازمت اختیار کی پھر اپنا کاروبار شروع کردیا۔ شہر کے ایک اہم کاروباری مرکز میں ایک بڑی دکان جہاں الیکٹرونک کا سامان اور موبائل کا کاروبار اچھا چل رہا تھا۔

یہ سب تو تھا، مگر اس دن کے بعد رفیع کا کوئی پتہ نہ چلا۔ بعض لوگوں نے بتایا کہ وہ علاقہ غیر میں چلا گیا تھا۔ وہاں سے کسی دوسرے ملک کو نکل گیا۔ جب تک استاد زندہ رہا، وہ تینوں ملتے رہے۔ استاد کے مرنے کے بعد بھولا اور پرویز اب شاید ہی کبھی ملتے تھے مگر جب بھی ملاقات ہوتی، بھولا پرویز کو کئی ایسی باتیں بتاتا کہ پرویز کو لگتا تھا کہ بھولا مسلسل اس کی خبر رکھتا ہے۔ پرویز بھی اخبار میں چھپنے والی خبروں پر نگاہ رکھتا اور پرانے ملنے والوں سے بھی پوچھ گچھ کرتا رہتا۔ دونوں اب دو مختلف دنیاؤں کے باسی تھے، مگر ایک تار تھی جس نے ان دونوں کو باندھ رکھا تھا۔ انھوں نے اپنی زندگی میں بہت کچھ کیا تھا مگر شادی سے وہ بچتے آئے تھے۔

چند سال پہلے پرویز اور بھولا کی ملاقات ایک پرانے دوست کی بیٹی کی شادی کے موقعے پر ہوئی۔ دونوں ایک دوسرے سے دیر تک بغل گیر رہے۔ پھر ایک کونے میں الگ بیٹھ گئے۔ پہلے ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔ پھر اچانک بھولا نے کہا:”بھولے تو نہیں، بھولے تو نہیں“ پرویز نے آہستگی سے جواب دیا:”مجھے پتا چلا ہے وہ کہیں ہالینڈ میں اپنے خاندان کے ساتھ رہ رہا ہے۔ بس اطلاع کے پکا ہونے کا انتظار ہے۔ جاتے ہوئے مجھے بھی ساتھ لے جانا“۔ پرویز کے لہجے اور چہرے کے تاثرات نے بھولے کو حیرت اور خوشی سے دوچار کیا۔ وہ پھر اٹھا اور اس نے پرویز کو کمھینچ کر پھر گلے سے لگا لیا۔ اس بار ان کے گلے ملنے کی بات ہی کچھ اور تھی۔

اور اس صبح جب پرویز غزالہ سے ملنے کے خیال سے مسرور تھا، اسے بھولا کی کال ملی۔ سلام دعا کے بعد اس نے بتایا ”تیار ہو جاؤ وہ پاکستان آچکا ہے۔ یہاں ڈیفنس میں ایک بڑا گھر لے کر چھ ماہ سے رہ رہا ہے۔ اطلاع پکی ہے“۔

”کب جانا ہے؟“

”آج ہی“

”کہاں آنا ہوگا؟“

”دوپہر کو فون کرکے بتاؤں گا“۔

فون خاموش ہوچکے تھے، لیکن پرویز کے جسم میں خون کی روانی تیز ہوچکی تھی۔ غزالہ سے آج کی ملاقات تو طے تھی، مگر وہ جانتا تھا کہ اٹھارہ سال کی عمر میں کیا گیا وعدہ اٹھاون سال کی عمر میں ساقط نہیں ہوا تھا۔ غزالہ کے سامنے بیٹھ کر کھانا کھاتے ہوئے بھی پرویز کے ذہن میں بہت کچھ چل رہا تھا۔ ابھی انھوں نے کھانا ختم ہی کیا تھا کہ پرویز کے فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف بھولا پوچھ رہا تھا کہ شہر کے فلاں علاقے میں وہ کتنی دیر میں پہنچ سکتا ہے؟

”آدھ گھنٹے میں“۔

”ٹھیک ہے آجاؤ“۔

اس نے سامنے بیٹھی غزالہ کی اجازت لی۔ بل ادا کیا اور ریسٹورنٹ کی پارکنگ میں کھڑی نئے ماڈل کی سیاہ رنگ کی ٹیوٹا میں چل پڑا۔

اس مشہور شاپنگ مال کی پارکنگ میں گاڑی کھڑی کئے پانچ منٹ ہوئے تھے کہ دوبارہ فون کال آئی۔ اب بھولا نے بتایا کہ وہ چند منٹ میں اس کے ساتھ اپنی گاڑی کھڑی کرے گا۔ وہ اس کے پاس آجائے۔ پرویز کی گاڑی اس کے لوگ لے آئیں گے۔ چند منٹ بعد ایک نہایت قیمتی گاڑی اس کی گاڑی کے پیچھے آکر رکی۔ گاڑی کا پچھلا شیشہ کھلا۔ پرویز کو بھولا کی شکل دکھائی دی۔ وہ اپنی گاڑی سے نکلا اور بھولا کے ساتھ بیٹھ گیا۔ گاڑی میں اگلی سیٹ پر ایک مسلح آدمی موجود تھا، جب کہ پرویز کو جلد ہی احساس ہوگا کہ ان کے پیچھے آنے والی تین گاڑیاں ان کے ساتھ ہیں۔ پرویز کی چوتھی گاڑی سب سے آخر میں تھی۔

وہ شہر کے نواح میں ایک وسیع فارم ہاؤس میں داخل ہوئے۔ فارم ہاؤس کا وسیع رقبہ صاف شفاف تھا۔ گھاس کے وسیع قطعے تھے اور درمیان میں ایک گول عمارت جس کے چاروں طرف چوڑی نہر تھی۔ فارم ہاؤس کی دیواروں پر دور دور لگے کیمرے اور چاروں کونوں میں چھوٹے چھوٹے کمرے جن میں مسلح لوگ موجود تھے جو فارم میں داخل ہونے والے کسی بھی ممکنہ فرد کو روکنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ بھولا پرویز کو لے کر عمارت کے اندر چلا گیا۔ باقی لوگ باہر رک گئے۔ اس دوران انھوں نے آپس میں زیادہ بات نہیں کی تھی۔ عمارت میں داخل ہو کر وہ ایک بڑے کمرے میں آگئے۔ بھولا نے پستول نکالا جو بہت پرانا دکھائی دیتا تھا۔ اسے میں نے اب تک چلنے کی حالت میں رکھا ہے۔ چاہو تو ایک دو فائر کرکے دیکھ لو۔ آوا ز اس کمرے سے باہر نہیں جاتی۔ ویسے تم آرام کرنا چاہو تو بھی ٹھیک ہے۔

انھوں نے باقی وقت فارم ہاؤس ہی میں گزارا۔ وہیں رات کا کھانا کھایا۔ کھانے سے پہلے بہترین شراب کے دو دو پیگ لیے۔ بھولا بہت پرسکون تھا، جب کہ پرویز اپنے اندر عجیب بے چینی اور گھبراہٹ محسوس کر رہا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد وہ دونوں ان دنوں کی باتیں کر رہے تھے جو ماضی کی دھندلکوں میں گم ہوچکے تھے۔ بھولا وقفے وقفے سے اپنے سیل فون پر آنے والے پیغامات پڑھتا۔ کسی کسی کا جواب بھی دیتا، مگر اب تک اس فون پر کوئی کال نہیں آئی تھی۔ بھولا نے بتایا کہ یہ اس کا مخصوص نمبر ہے جو صرف چند لوگوں کے پاس ہے۔ اسی سے وہ پرویز سے بات کرتا ہے۔ گیارہ بجے بھولا نے گھڑی دیکھ کر پروی کو اٹھنے کے لیے کہا۔ وہ باہر نکلے اور گاڑیوں کا قافلہ پھر شہر کی طرف چل پڑا۔

غزالہ اس دن ایک عجیب بے چینی اور اضطراب لیے اٹھی۔ وہ پرویز کو برسوں سے جانتی تھی۔ دونوں ایم ایس میں اکٹھے پڑھے تھے۔ پرویز ان دنوں ایک بڑا ہنس مکھ اور بے چین طبیعت کا نوجوان تھا۔ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد غزالہ کی شادی ہوگئی۔ اس کے ہاں تیسری لڑکی کی پیدائش ہوئی تو شوہر نے اسے چھوڑ دیا۔ وہ تو غنیمت ہوئی کہ اسے سرکاری کالج میں پڑھانے کی ملازمت مل چکی تھی۔ اس لیے شوہر کے چھوڑنے پر اس نے خود کو سنبھال لیا اور ساری توجہ اپنی بیٹیوں کی تعلیم و تربیت پرصرف کردی۔ اب جب کہ وہ اپنی دو بیٹیوں کی شادی کرچکی تھی اور تیسری پڑھائی کے آخری سال میں تھی تو شدید تنہائی اسے اچانک بری طرح گھیر لیتی تھی۔ تب کچھ عرصہ پہلے اس کی پرویز سے اچانک ملاقات ہوئی۔ انھوں نے تھوڑے تردد کے بعد ایک دوسرے کو پہچان لیا اور پھر ان کی رسمی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ وہ بس اچھے دوستوں کی طرح ایک دوسرے سے ملتے۔ دو تین گھنٹے ایک دوسرے کی معیت میں گزارتے۔ کھانا کھاتے، چائے پیتے اور پھر اگلی ملاقات تک کے لیے ایک دوسرے کو خدا حاف کہہ دیتے۔ غزالہ رات دیر تک جاگتی رہی۔ اسے آج پرویز کی حرکات پراسرار سی لگی تھیں۔ آج اس کا انداز بھی بہت مختلف تھا۔ کئی بار اس کا دل چاہا کہ وہ پرویز کو فون کرکے اس کی خیریت دریافت کرے، مگر اس کے اندر کوئی حس تھی جو اسے ایسا کرنے سے ہر بار منع کردیتی۔ دوسری صبح وہ قدرے دیر سے اٹھی۔ جلدی سے تیار ہو کر کالج چلی گئی۔ دوپہر کو واپس آکر کھانا کھاتے ہوئے اس نے حسب عادت ٹی وی پر اپنا پسندیدہ نیوز چینل لگا لیا۔ کھانا کھاتے ہوئے وہ کبھی کبھی نظریں اٹھا کر ٹی وی سکرین پر بھی ڈال لیتی۔ ایک خبر نے اسے چونکا دیا۔ شہر کے پوس علاقے میں بیرون ملک سے آئے ایک خاندان کے پانچ افراد کو بے دردی سے قتل کردیا گیا تھا۔ گھر میں موجود کسی قیمتی شے کو نہیں چھیڑا گیا تھا۔ پولیس کے خیال میں معاملہ دیرینہ دشمنی کا معلوم پڑتا تھا۔