ایڈورڈ سعید – تعریفوں کا تصادم٭

یہ تحریر 1765 مرتبہ دیکھی گئی

(1)

ایڈورڈ سعید (یکم نومبر ۱۹۳۵ء ___ ۲۵ ستمبر ۲۰۰۳ء) یروشلم میں مقیم اپنے خاندان کے دو منزلہ مکان میں پیدا ہوا۔ یہ مغربی یروشلم کا وہ علاقہ ہے جہاں صرف فلسطینی عیسائی رہتے تھے۔ وہ چار بہنوں کا اکلوتا بڑا بھائی تھا۔ اس کی والدہ نے قاہرہ میں ایک بچے کو جنم دیا جو پیدا ہوتے ہی فوت ہوگیا تھا، تب اس نے عہد کیا کہ اس کا اگلا بچہ یروشلم میں پیدا ہوگا۔ چناں چہ اس کا خاندان قاہرہ سے جہاں وہ کافی عرصے سے مقیم تھا، مہاجرت کر کے یروشلم میں اپنے عزیزوں کے گھر آباد ہوا۔ دراصل سعید کا والد ودیع (Wadie) یروشلم کا باشندہ تھا جو ۱۹۲۹ء میں قاہرہ چلا گیا تھا تاکہ وہاں اسٹینڈرڈ اسٹیشنری کمپنی کو منظم کرسکے۔ ۱۹۳۲ء میں سعید کے والد نے اس کی والدہ حِلدیٰ موسیٰ سے شادی کی۔ حِلدیٰ، ناصرہ (Nazareth) میں پیدا ہوئی تھی۔ سعید کی والدہ لبنانی تھی۔ سعید کا سخت گیر والد تعلیم کی قدر و قیمت سے آگاہ اور امریکہ کا بے آمیز مداح تھا۔ فطری طور پر والد سے زیادہ سعید کو والدہ سے ذہنی اور جذباتی قربت تھی، جس کے بارے میں اس نے لکھا ہے: ”میری زندگی کے پہلے پچیس برس کی میری نہایت قریبی اور گہری رفیق۔“ اگرچہ اس کی تربیت میں اس کے باپ کا بھی حصہ ہے مگر نوجوان سعید کی جمالیاتی تربیت اصلاً اس کی والدہ کی مرہون منّت رہی۔ جب ایڈورڈ سعید ابھی نو برس کا تھا تو وہ اور اس کی والدہ مل کر شیکسپیئر کے شہرہئ آفاق ڈرامے ”ہیملٹ“ کا مطالعہ کرتے تھے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ سعید کے والد اور والدہ دونوں کا امریکہ سے ایک تاریخی رشتہ تھا، تاہم سعید کی والدہ نے کبھی امریکی شہریت اختیار نہ کی۔

ایڈورڈ سعید مغرب میں فلسطینیوں کا نہایت اہم نمائندہ تھا۔ اس نے کتابیں اور مقالے لکھے، وہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے مذاکروں میں باقاعدہ حصہ لیتا رہا اور فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم اور ان سے روا رکھی جانے والی ناانصافی سے امریکی اور مغربی سامعین کو مسلسل آگاہ کرتا رہا۔ اس پیہم جدوجہد کی اسے بڑی قیمت ُچکانا پڑی۔ مقبولِ عام صحافت میں اس کے خلاف بدنام کار مہم چلتی رہی، اسے ”دہشت گرد پروفیسر“ اور ”نیویارک میں یاسر عرفات کا آدمی“ جیسے القابات سے نوازا جاتا رہا۔ کولمبیا یونیورسٹی میں جہاں وہ انگریزی اور تقابلی ادبیات کا پروفیسر رہا، اس کے دفتر پر حملہ کیا گیا اور اسے مسلسل موت کی دھمکیاں دی جاتی رہیں۔

٭  ایڈورڈ سعید کا یہ مقالہ “The Clash of Definitions” کے زیرِ عنوان اس کے مجموعہِ مقالات “Reflections on Exile” میں شایع ہوا۔ ملاحظہ ہوں صفحات ۵۶۹-۵۹۰

سعید کی پہلی کتاب ”جوزف کونریڈ اور خود نوشت سوانح کا افسانہ“ (۱۹۶۶ء) کونریڈ کے فکشن اور اس کی خط کتابت کے باہمی تعامل کے مربوط، متعین اور گہرے تنقیدی جائزے پر مشتمل ہے۔

جس زمانے میں امریکی دانش وروں کا بڑا طبقہ متنی مباحث میں جتا ہوا ”آفاقی حقائق“ تلاش کر رہا تھا سعید نے ”استشراق“ (Orientalism) جیسی کتاب لکھ کر ۱۹۷۸ء میں دھماکہ خیز صورتِ حال پیدا کر دی تھی جس کے باعث ہر سطح کے اہلِ علم کو اپنے علمی کاموں پر نظرثانی کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ اس کتاب پر مستشرقین کے جتھے اور استشراق کا دفاع کرنے والوں نے شدید حملے کیے۔ برنارڈ لوئس نے سعید پر الزام لگایا کہ اس نے ”استشراق“ کے مطالعات میں زہر ملا دیا ہے۔ لوئس نے سعید کو غیر محتاط، آمِر، اہلا گہلا اور غضب ناک قرار دیتے ہوئے لکھا کہ سعید نے بعض عرب، مسلم اور مارکسی نقادوں سے مل کر ”استشراق“ کو آلودہ کر دیا ہے ___ مختصر یہ کہ اس نے ایک معصوم علمی طریقِ کار کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔

”مسئلہ فلسطین“ نامی کتاب سعید کی علمی زندگی کا ایک اور سنگ میل تھی جس سے پتا چلتا ہے کہ یورپی سامراجیت، صہیونیت اور امریکی سیاست سب نے مظلوم فلسطینیوں کو بڑے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپنے وطن سے دور رکھا ہوا ہے۔

”ثقافت اور سامراج“ میں اس نے سامراجی نظریے اور ثقافت کے طرزِ عمل کے باہمی رشتوں کو واضح کرتے ہوئے بتایا کہ جین آسٹن جیسی بڑی ادبی شخصیت کی تخلیق کردہ دنیا میں بھی یورپی نوآبادیاتی کدو کاوش کے عناصر نظر آتے ہیں۔ اس ضمن میں اس کا ناول ”مینسفیلڈ پارک“ قابل توجہ ہے۔

ایک خیال جس نے سعید کی شخصیت کا احاطہ کر رکھا تھا، یہ تھا کہ معاشرے اور دنیا میں دانش ور کا حقیقی نصب العین اور طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے۔ ”دنیا، متن اور نقاد“ نامی اس کی کتاب کا خلاصہ یہ ہے کہ تنقید کو حیات افزا ہونا چاہیے اور اسے ظلم، جبر اور استحصال کی ہر قسم اور ہر صورت کی مخالف ہونا چاہیے۔

۱۹۷۹ء میں سعید نے “Covering Islam” کا آغاز کیا۔ یہ ”استشراق“ والے سلسلے کی تیسری کتاب ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکہ ایک بڑے بحران کی گرفت میں تھا جس کا سبب ایرانی طلبہ کا ۴ نومبر ۱۹۷۹ء کو تہران میں واقع امریکی سفارت خانے کا محاصرہ کرنا تھا۔ ان طلبہ کا امریکی حکومت سے یہ تقاضا تھا کہ وہ مفرور محمد رضا شاہ پہلوی کو مقدمہ چلانے کے لیے ایران کے حوالے کرے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جب ذرائع ابلاغ ”احیاے اسلام“ کے مسئلے کو خصوصی بحث کا موضوع نہ بناتے ہوں۔ سعید کا موقف یہ تھا کہ رپورٹروں اور تجزیہ نگاروں کو چاہیے کہ وہ بین الاقوامیت اور عالمی شعور کا احساس اپنے اندر پیدا کرکے امریکہ کے مصدق حکومت کا تختہ الٹنے اور امریکہ کی تربیت یافتہ ایرانی خفیہ پولیس ساواک کی وحشت و بربریّت کے وسیع سیاق و سباق میں ایران میں ہونے والے واقعات کا جائزہ لیں۔

سعید کی پہلی اہم خود نوشت فکری سوانح ”آخری آسمان کے بعد“ (After the Last Sky) ایک خاص سیاسی صورتِ حال کے ردِّعمل کے طور پر لکھی گئی تھی۔ یہ صورتِ حال ۱۹۸۳ء میں جینوا میں ہونے والی اقوامِ متحدہ کی ایک کانفرنس کے موقع پر پیدا ہوئی تھی۔ اس کی وجہ اس حقیقت کا ادراک تھا کہ اقوامِ متحدہ نے ژاں موہر (فوٹو گرافر) کو فلسطینیوں کی تصویریں چھاپنے کی اجازت تو دے دی مگر ان تصویروں پر لگائی گئی سعید کی سرخیوں کو چھاپنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ سعید کی تصنیف ”آخری آسمان کے بعد“ ایک سیاسی کاوش تھی جس کا مقصد فلسطینیوں کے تجربات کا بیان اور ان کی زندگیوں کی تشکیل نو تھا۔ اس کتاب کے زیادہ تر موضوعات زیاں اور جلاوطنی ہیں۔ جرمن فلسفی تھیوڈور اڈورنو نے کہا تھا:

”اپنے گھر میں ہونے کے باوجود اپنے گھر میں نہ ہونے کا احساس، اخلاقیات کا ایک حصہ ہے۔“

یہی ”بے گھری کا احساس“ ایڈورڈ سعید کو بھی گھیرے ہوئے تھا۔ سعید کا خیال تھا کہ اکثر لوگ اصولی طور پر صرف ایک ثقافت سے آگاہ ہوتے ہیں۔ جلاوطن کم از کم دو ثقافتوں سے واقف ہوتے ہیں۔ چناں چہ اس سے انھیں بیک وقت ان متعدد ابعاد کا اندازہ ہوتا ہے جن کا متعین فرد کو احساس نہیں ہوتا۔

ایڈورڈ سعید کو پڑھنا دو جہتوں سے اہم ہے۔ ایک تو یہ کہ غالب سیاسی قوت ہر جگہ بنیادی انسانی حقوق کی نفی کرتی ہے۔ دنیا بھر کے لوگ ایسے افکار کے متمنی ہیں جو یورپی استعمار یا مقامی نظریات کے دفاعی ردِّعمل کو چیلنج کرکے ان کا قلع قمع کر سکیں۔ چناں چہ ”ہم“ اور ”وہ“ (Us & Them) کی آویزش پر مبنی تقسیم کو چیلنج کرتے ہوئے سعید نے اپنے قارئین کا ایک بڑا حلقہ تشکیل دیا، جس سے نہ صرف اس کے افکار کی قوت کا پتا چلتا ہے، بلکہ انصاف اور انسانی وقار کے مستقبل کے ان امکانات کا بھی اندازہ ہوتا ہے جو ان افکار کے رگ و پے میں رواں دواں ہیں۔ عالمی سیاسی حالات پر سعید کی نظر بہت گہری تھی۔ اس سلسلے میں امریکہ کا کردار بیان کرتے ہوئے وہ کہتا ہے: ”امریکی اچھائی کے (اس) تصور کا مطلب یہ ہے کہ ”ہم امریکی“ انسان دوستی پر مبنی جنگیں لڑتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ”ہم“ دوسروں کے بھلے کے لیے مہم چلاتے ہیں، وغیرہ اس اسطور کا خاتمہ کرنے کی ضرورت ہے اور اس کی جگہ طاقت کا صحیح مفہوم سامنے لانا ہوگا اور یہ بات اس ملک (امریکہ) کے بہت سے اختلافِ رائے رکھنے والے ادیبوں کے ہاں بھی ملتی ہے مثلاً موجودہ دور میں ولیم ایپل مین ولیمز سے لے کر گیبریل کولکو اور نوم چومسکی تک کے ہاں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم انسان دوستی کا ایک نیا تصور دریافت کریں جس کی بنیاد ایک نئے نظریے پر ہو اور اس سلسلے میں قدیم روایات سے بھی استفادہ کرنے کی ضرورت ہے، بشمول اسلامی روایات کے۔“

خون کے سرطان جیسی مہلک بیماری کے باوجود سعید زندگی کی اَن تھک دوڑ میں پوری طرح شریک رہا۔ چناں چہ اس کا تدریس، تحریر، موسیقی نوازی، محاضرات، مظلوم طبقات کی وکالت، بحث مباحثہ اور تحقیق و تفتیش کا سفر ناقابلِ شکست قوت کے ساتھ جاری رہا۔ اس کی شدید بیماری اس کے بڑے آدرشوں اور جذبوں کے مابین حائل نہ ہوسکی۔ اس کے مرض کی تشخیص ہو چکی تھی مگر اس سب کے باوجود وہ زیادہ جذبے اور تیزی سے اپنے محاذ پر کام کر رہا تھا۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔