ایوان دینیسیووچ کی زندگی میں ایک دن

یہ تحریر 631 مرتبہ دیکھی گئی

مصنف: الیکساندر سولژے نِتسن
ناشر: پنگوئین بکس (انگلستان)
صفحات:143
قیمت: 2 روپیے 43 پیسے
سولژے نتسن کا یہ ناول جب 1962ء میں شائع ہوا تو روس اور اشتراکی بلاک کے ملکوں میں تہلکہ مچ گیا۔ استالن کے عہد میں روس کے دور افتادہ اور سرد، بے مہر خطوں میں جو متعدد لیبر کیمپ تھے ان میں سے ایک کا اس ناول میں بیان تھا۔ ایک تو جلاوطنی، دوسرے موسم کے شدائد، تیسرے صبح سے شام تک بیگار، چوتھے محافظوں کی بدسلوکی_ غرضکہ ان لیبر کیمپوں میں مقید انسانوں کی زندگی ایک مسلسل عذاب تھی۔ یہ تو ایک لمحے کے لیے بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ اس ناول کی اشاعت سے قبل اہل روس اس قسم کے لیبر کیمپوں کے وجود سے بے خبر تھے۔ اس طرح کی سادہ لوحی کا دور بیت چکا ہے۔ تاہم اس بات سے لوگوں کو سخت تعجب ہوا ہوگا اور شاید صدمہ بھی پہنچا ہو کہ ایسے ناول کو چھپنے کی اجازت ملی تو کیونکر، جس میں روس کی تاریخ کے ایک گھناؤنے پہلو کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ جیسی کہ توقع کی جا سکتی تھی روس سے باہر اس ناول کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا جو لوگ روس کے معاملات سے اچھی طرح باخبر ہیں انھوں نے فوراً یہ رائے ظاہر کی کہ یہ ناول بھی ان سیاسی چالوں میں سے ایک چال ہے جو خردشچیف آج کل رائے عامہ کو استالن کے خلاف کرنے کے لیے بڑی سرگرمی سے چل رہا ہے ان کی اس رائے میں کچھ نہ کچھ حقیقت ضرور ہے کیونکہ اس قسم کا ناول روس میں حکام بالا کے اشارے کے بغیر شائع نہ ہو سکتا تھا۔ اس بارے میں تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ آیا خرد شچیف کی استالن کو لوگوں کی نظر میں خوار کرنے کی کوشش کامیاب ہوگی یا نہیں مگر اتنا یقینی ہے کہ سولژے نِتسن کی تصنیف اس ناشائستہ سیاسی کھیل کا مہرہ نہیں بن سکتی۔ وجہ یہ ہے کہ یہ تصنیف پروپاگنڈا نہیں ہے، ادب ہے۔ دوسری بات یہ کہ یہ خاص طور پر استالن کے خلاف نہیں۔ اس میں تو ایک بہت قدیم موضوع ہے یعنی انسان کی انسان سے بدسلوکی۔ سولژے نِتسن لیبر کیمپوں سے خوب آشنا ہے کیونکہ اس نے اپنی زندگی کے آٹھ سال اس میں بسر کیے ہیں۔ وہ 1918ء میں ایک درمیانی طبقے کے خاندان میں پیدا ہوا تھا۔ روستوف یونیورسٹی سے ریاضی کی ڈگری لینے کے بعد وہ فوج میں چلا گیا۔ فوج میں وہ بہت کامیاب رہا اور ترقی کرتے کرتے کیپٹن کے عہدے پر فائز ہو گیا۔ یہ 1945ء کا ذکر ہے۔ اسی سال اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے خلاف فردِ جرم یہ تھی کہ اس نے ستالن کے متعلق توہین آمیز کلمات کہے ہیں۔ سزا سے بچنا محال تھا اور اس کے اگلے آٹھ برس “عام” اور “خاص” لیبر کیمپوں میں بسر ہوئے۔ 1953ء میں استالن مرا تو اس کے سر سے بلا ٹلی۔ اسے رہا تو کر دیا گیا لیکن روس (یو پی روس مراد ہے) واپس آنے کی اجازت نہ ملی اور مزید تین برس تک جلا وطن رہنا پڑا۔ ایسے صبر آزما مراحل سے جو آدمی گزر چکا ہو اس کے دل کی کیفیت خدا ہی جانتا ہے۔ کچھ بھی سہی، یہ ناول گواہ ہے کہ اس طول طویل اور ہولناک آزمائش سے گزرنے کے باوجود دسولژے نِتسِن نے اپنی سالمیت اور فنی احساس کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ یہ قابل ذکر امر اس کی انسانیت پر دال ہے۔ اس چھوٹے سے ناول میں جس میں ایک لیبر کیمپ کے ایوان دہنیسووچ نامی قیدی کی زندگی کے صرف ایک دن کی کہانی ہے، تلخی اور غصہ و غم کا شائبہ تک نہیں۔ پینیسووچ کا یہ دن سردیوں کی ایک صبح کو پانچ بجے شروع ہوتا ہے۔ ٹھٹھرتے ہوئے قیدی پریڈ کے میدان میں جمع ہوتے ہیں، پھر ناشتہ کرنے جاتے ہیں، پھر انھیں بار بار گنا جاتا ہے۔ گنتی ختم ہوتے ہی انھیں بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی طرح ہانک دیا جاتا ہے۔ پیدل چل کر وہ اس جگہ پہنچتے ہیں جہاں انھیں بیگار کرنی ہے۔ سورج ڈوبنے تک وہ غلاموں کی طرح کام میں جتے رہتے ہیں۔ پھر رات کو چاندنی میں ان کا پیدل کیمپ کی طرف جانا۔ بیہڑ کا منظر، چاقو کی طرح تیز ٹھنڈی ہوا کے تھپیڑے، پھر وہی گنتی اور گندی بارکیں اور رات کا بے مزہ کھانا اور دوبارہ گنتی اور سہ بارہ گنتی۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ سب کسی زمستانی دوزخ میں لعنت کی ماری ہوئی روحیں ہیں اور ایک ہی کام بار بار کرتی رہتی ہیں، کرتی رہتی ہیں اور کسی چیز کا کچھ حاصل نہیں_ ایک کبھی ختم نہ ہونے والا بے معنی ریہرسل۔ آدمی کی بنائی ہوئی دوزخ سے زیادہ ڈراؤنی اور اعصاب فرسا چیز اس دنیا میں کوئی نہیں۔ اگر یہ نہ ہو تو سولژے نِتسِن کے ناول کے کوئی معنیٰ نہیں رہتے۔
یہاں یہ بتا دینا بے محل نہ ہوگا کہ لیبر کیمپوں کے بارے میں یہ پہلی تحریر نہں ہے جس کا دنیا بھر میں چرچا ہوا ہے۔ ایسے کیمپوں کے متعلق پچھلے بیس پچیس برسوں میں متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں سے ہر ایک سفاکی اور انسانیت سوز مظالم اور بے کس مظلوموں کا خونریز مرقع ہے۔ آج سے آٹھ دس سال پہلے ایسی تمام دستاویزوں کو سامراجی پروپاگنڈا قرار دے کر بہ آسانی نظر انداز کر دیا جاتا تھا۔ بے شمار لوگ، خواہ وہ اشتراکی ہوں یا نہ ہوں، روس میں لیبر کیمپوں کے وجود پر یقین کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ استالن کی موت کے بعد رفتہ رفتہ یہ یقین بے یقینی کی طرف مائل ہونے لگا۔ سولژے نِتسِن (جسے سلطانی گواہ سمجھنا چاہیے) کے ناول کے بعد خوش فہمی یا خوش اعتقادی کا جواز ڈھونڈے نہیں ملتا۔
مذکورہ بالا بیان سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ لیبر کیمپوں کے چشم دید گواہوں کی کتابوں اور سولژے نِتسِن کے ناول میں اس کے سوا کوئی فرق نہیں کہ ناول روس میں شائع ہوا ہے اور دوسری کتابیں امریکہ یا انگلستان میں۔ فرق ہے اور وہ بھی خاصا اہم۔ سولژے نِتسِن کا ناول ادب ہے اور چشم دید گواہوں کی تحریریں صحافت۔ سولژے نِتسِن کا اندازِ بیان دلچسپ ہے اور کردار بہت تہہ دار نہ سہی، سوچنے سمجھنے والے انسان ضرور معلوم ہوتے ہیں۔ ایوان وینیسووچ، سیزار (TSEZAR) اور کیپٹن بوئنووسکی، تینوں پڑھنے والے کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں: ان کرداروں کو اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ کہیں کہیں مزاح کا پہلو بھی نکل آتا ہے__ ایسا مزاح جس کے حوالے سے انسانی کمزوریوں اور حماقتوں پر مسکرانے کا موقع ملتا ہے۔ دوزخ میں اگر کسی قسم کے مزاح کی گنجائش ہوئی تو وہ اس ناول میں پیش کردہ مزاح سے شاید مختلف نہ ہو۔
مجھے پتا نہیں کہ ناولوں سے اخلاقی نتیجہ نکالنا چاہیے یا نہیں۔ بہرحال اس ناول سے دو باتیں ذہن میں ضرور آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ عشق اور مشک کی طرح اس قسم کا لیبر کیمپ چھپائے نہیں چھپتا۔ دوسری بات یہ کہ انسان کو انسان خواہ کیسی ہی اسفل اور تیرہ و تار دوزخ میں ڈال دے وہ پھر بھی زہندہ رہنے کا کوئی نہ کوئی جواز ڈھونڈ لے گا او اگر ممکن ہوا تو اپنے ناگفتہ بہ تجربے کو آرٹ یا ادب میں تبدیل کر دے گا۔ صرف اسی طرح وہ ان لوگوں کو معاف کر سکتا ہے جنھوں نے اسے دوزخ میں دھکیلا تھا۔ معافی کی اور کوئی صورت نہیں۔