ایمو

یہ تحریر 2789 مرتبہ دیکھی گئی

نام تو اس کا آمنہ تھا لیکن پنڈ جھبّر میں وہ ایمو جولاہی کے نام سے مشہور تھی۔ میں ایمو جولاہی کو اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ بھرپور جوان تھی اور میں دس سال کا بچّہ۔ سارا گاؤں اس کا عاشق تھا۔ وہ جہاں سے گزر جاتی مسافر راستہ بھول کر اس کے پیچھے چل پڑتے۔ کچھ عورتیں مرد مار قسم کی ہوتی ہیں، ایمو جولاہی بھی اسی قسم کی عورت تھی۔ اس نے اپنی زندگی میں بے شمار عشق کیے۔ کسی زمانے میں اس کے عاشقوں میں سے ایک عاشق میرا باپ بھی تھا۔ تب ایمو جولاہی کلی کی طرح چٹختی تھی۔ میں نے کئی بار اسے اپنی بیٹھک میں آتے دیکھا۔ کالے رنگ کے کُرتے پر ہاتھ سے کڑھائی کی ہوئی فیروزی رنگ کی بُوٹیاں اس کی سفید چمڑی پر خوب کھلتی تھیں۔ یہ کالا رنگ اس کے گورے چٹّے جثے پر بہت پھبتا تھا۔ وہ جب بھی ہماری بیٹھک میں داخل ہوتی تو ہانک لگاتی:

”وے دین محمدا… بختاں والیا…  کتّھے ویں؟“ میرا باپ صحن سے تیز تیز قدم اُٹھاتا بیٹھک کی جانب لپکتا اور دروازے پر رک کر اپنی دھوتی کی گرہیں کس کر باندھتا۔ پھنیر سانپ کی طرح پھن پھیلائے کچھ دیر وہ اسے غور سے دیکھتا اورمونچھوں پرہاتھ پھیرتے ہوے کہتا: ”حکم کر…  اتھریے گھوڑیے، خیر تاں ہے ناں؟“ یہ اتھری گھوڑی بڑے انداز سے اپنی چھاتی میں اُڑسا ہوا کالا بٹوا نکالتے ہوے کہتی: ”ستّے خیراں نیں…  “اور میں اس سے آگے کچھ نہ سُن پاتا۔

میرے لیے بیٹھک کی کھڑکی سے نظر آنے والی ایمو جولاہی کپاس کے پھول کی طرح تھی۔ کئی دفعہ میرا جی چاہا کپاس کے اس پھول کو اپنی انگلیوں میں رکھ کر روئی کے گالوں کی طرح ہوامیں اُڑاتا پھروں۔ اس کی باتیں میرے کانوں میں بازگشت بن کرگونجتی تھیں۔ اکثر رات کے آخری پہرمجھے اس کی گیلی گیلی ہنسی یاد آتی تو اس کی آواز کا لوچ میرے کانوں میں ایسے سرسر کرتا جیسے پہاڑوں میں گونج ہو۔ پھر یہ گونج میرے اندر شب دیگ کی طرح پکتی رہی اورمیرا تن من اس میں ملیدہ ہوتارہا۔

ایمو دیمک کی طرح جوان ہوئی تھی۔ وہ کھانگڑگائے جیسے کسے ہوے جسم کی مالک، جس کی کمر پر موٹی سی چُٹیاپنڈولم کی طرح ہلتی تھی۔ وہ بھی اس گائے جیسی ہی تھی جوبچھڑا جوان کرکے بھی دودھ دینا بندنہیں کرتی۔ میں نے اسے اس کی درمیانی عمر میں دیکھاتھا۔ تب تک وہ بھٹیارنوں کی طرح چمکیلی دھوپ میں گہرا پکّا رنگ اختیار کرچکی تھی۔ جب وہ پندرہ سال کی ہوئی تو گاؤں کا ویٹرنری ڈاکٹر محمداکرام اس کی زد میں آگیا۔  ایمو کا یہ پہلا معاشقہ شہرت کی حدیں پھلانگ گیا۔ ڈاکٹر اکرام ڈھور ڈنگر دیکھنے کے بہانے اس کے گھر آتا۔  مفتے کا یہ سلسلہ دو سال چلتا رہا۔ اس نے کبھی ایمو کے بھائیوں سے بیمارجانور دیکھنے کی فیس نہیں لی تھی۔ پھر یہ دیمک گاؤں کے دوسرے گھروں میں بھی لگنے لگی۔ فریاد حسین، نیتو قصائی، بِلاّ دھوبی اور نجانے کتنے عاشق اس کے مرید ہو گئے۔ ایموجیسی بے باک عورت یہ جانتی تھی مرد اپنا ہو یا بے گا نہ، کسے خرچ کرنا ہے اور کسے جمع پونجی کی طرح رکھنا ہے۔ اس عادت نے اسے بہت سے فایدے دیے۔ ایمو کی جوانی بیری کے درخت کی طرح بڑی تیزی سے پروان چڑھی۔ یہ جنگلی بُوٹی بڑی زہریلی تھی۔ وہ کوئی دھان پان سی دوشیزہ نہیں تھی بلکہ بھاری جسم کی زنانی تھی جس کی ٹانگوں پر گوشت کی تہیں جمی تھیں۔ گوری چٹّی پنڈلیاں شلوار کے نیچے سے ایسے جھانکتیں جیسے لہریں ساحل سے ٹکراتی ہیں۔

جانگلی قوم کی عورتیں بڑی کھلی طبیعت کی ہوتی ہیں۔ ہر گاؤں میں ایمو جیسی دوچار ضرور پائی جاتی ہیں۔ ان عورتوں کے جثے برگد کے پیڑکی طرح ہوتے ہیں جن پر مکھّیاں بھنبھناتی رہیں تو بھی انھیں فرق نہیں پڑتا۔  ان کے جسم کسے ہوے بان کی چارپائی جیسے ہوتے ہیں اورہاتھ پاؤں کچّے پھل کی طرح سخت، جن میں کانٹا بھی چبھ جائے تو ماس کے اندر چھلتر بن کر نظر آتا رہتا ہے۔ کہاں گاؤں کی یہ بھاری بھر کم عورتیں اورکہاں شہر کی نازک پھلیوں جیسی لڑکیاں، جنھیں دیکھ کر چھیلنے کو دل کرتا ہے۔ میں جب بھی ایمو کے جثے کو سوچنے لگتاتومجھے صوبیداراشرف کے کامے کی بات یاد آجاتی۔ اسے زندگی میں ایک بار صوبیدار اشرف کے ساتھ شہرجانے کا موقع ملا تھا۔ وہاں وہ ماچس کی تیلیوں جیسی زنانیاں دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ گرمیوں کی شاموں میں جب بھی لوگ کھلے میدان میں بیٹھتے تو وہ حقّے کی نالی صوبیدار کی جانب موڑتے ہوے بڑے جذباتی انداز میں کہتا:

”جناب! زنانیاں تو شہر کی ہیں بس…  س…  س۔ ہم تو جی کھوتیاں ہی واہتے رہے ہیں۔“

مجمعے کے منھ سے یوں سی ی ی ی کی آواز نکلتی جیسے دانت کترتے ہوے ناخن تک ماس کاٹ لیا ہو۔ ہر بار اس کے اس جملے کو سننے والوں کے منھ سے رالیں ٹپکنے لگتیں۔ لگتا ابھی کھوئے کی قلفی جیسی شہری عورتیں زبان پر رکھنے کو مل جائیں گی۔ میرے ہوش سنبھالنے تک ایمو کی دو شادیاں ہوچکی تھیں۔ پہلی شادی دو سال چلی جس میں سے اس کی ایک بیٹی تھی جو وہ ساتھ لے آئی۔ دوسری شادی صرف پندرہ دن ہی قایم رہی اور ایمو مستقل طور پر اپنے گھر آگئی۔ یہ اس کی عمر کا وہ دور تھا جب گاؤں والوں کے لیے اس کا وجود گندے نالے کی طرح ہو گیا تھا۔ میں گاؤں چھٹّیاں گزارنے آیا تھا۔ ان دنوں میرے خیالات کی زمین پر ایمو کے نام کی فصل کٹ چکی تھی۔ میری ساری توجّہ اپنے پولٹری فارم کی دیکھ بھال پرمرکوزتھی، اس لیے میں گھر سونے کے بجائے وہیں پڑارہتا۔ اُن دنوں مجھے جاڑے کی راتوں اور کتّوں کے بھونکنے میں بڑی مماثلت معلوم ہوتی تھی۔ تنہائی بھی ایسے ہی میرے ٹھنڈے وجود پر چوٹیں کرتی جیسے کتّوں کے بھونکنے کی آوازیں سماعت پرحملہ آورہوتی ہیں۔ میں ابھی دور سے آنے والی مستقل چوں چوں کی آواز سن رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں جانتاتھا اس وقت ریاض کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ میرے دروازہ کھولتے ہی وہ جلدی سے اندر گھس آیا۔ اس نے اپنی بکّل سے شراب کی بوتل نکالی اور چارپائی پر بیٹھ کر غٹاغٹ پینے لگا۔ ”خیریت ہے نا، جھاکے؟ یہ آج تیرے ہاتھ کہاں سے لگ گئی؟“

”بس…  س…  س…  لگ ہی گئی ہاتھ۔“ ریاض نے آنکھ مارتے ہوے جواب دیا۔

مجھے ڈر تھا اگر اس وقت گھر سے کوئی آگیا اور اس نے ریاض کو نشے میں دیکھ لیا تو میری خیر نہیں۔ میں ابھی اسی کشمکش میں تھا کہ ریاض بولا: ”ویرا، مینوں عشق ہوگیا اے۔“ریاض کے اس بیان پر میری بے ساختہ ہنسی چھوٹ گئی اور میں چارپائی کی پائینتی پر بیٹھ گیا۔  ریاض جب بھی نشے میں ہوتا بہکی بہکی باتیں کرتا تھا، اس لیے میں نے اس کی بات کو زیادہ اہمیت نہیں دی اور چپ رہا۔ اتنے میں وہ بولا: ” ایمو جولاہی۔“

مجھے لگا جیسے اس نے میرے کسی پرانے زخم کو ناخنوں سے چھیل دیا ہو۔ مجھے حلق تک تیزابی کھٹاس چڑھتی محسوس ہوئی اوریکدم لگا جیسے جسم میں گیس بھر گئی ہو۔ میں نے اس لمحے خود پر قابو پاتے ہوے کہا: ”لیکن وہ تو تجھ سے عمر میں کافی بڑی ہے۔“نجانے کیوں میں ریاض کا مقابلہ خود سے کرنے بیٹھ گیاتھا۔ ”بس یار! عشق نہ پچّھے ذاتاں، عشق نہ پچّھے ناں۔ او پِیرا، ہو!“ ریاض چارپائی سے اُٹھ کر مستی کے عالم میں گھومنے لگا۔ ایک لمحے کو تو وہ واقعی مجھے جوگی لگا —-  ایسا جوگی جو عشق کی دھونی رما ئے محبوب کے راستے میں بیٹھا ہو۔ محبوب بھی وہ جو اس کی بے بے کی عمر کا تھا۔ ریاض ساری رات میرے پاس رہا اور سویر ہونے تک ایمو کی ہی باتیں ہوتی رہیں۔

ایمو ان دنوں اس عمر میں تھی جب زمانہ سازی سارے داؤ پیچ سکھا دیتی ہے۔ گاؤں میں اس کے ہم عمر لوگ اب اس کے سایے سے بھی بھاگتے تھے۔ ان حالات میں اسے کسی مستقل سہارے کی ضرورت تھی۔ وہ جہاندیدہ عورت تھی، اس لیے اب وہ اپنی عمر سے کم از کم بیس سال چھوٹے لڑکوں سے دوستی گانٹھنے لگی تھی۔ یہ دوستی یاری اس کے مفادات کا پُل تھی۔ ایمو اپنے شکار کو حد سے آگے نکلنے نہ دیتی۔ اس کے یہ شکار اس کی ضرورتیں پوری کرتے رہتے۔ تارا مسیح بھی ایسا ہی ایک شکار تھا۔ ایک دن ایمو میرے پولٹری فارم میں گھس کر مرغی مانگنے لگی۔ اس سے پہلے کہ میں پیسوں کاتقاضاکرتاتارا مسیح نے اسے گھر بھیجا اور پیسے دے کر مجھ سے مرغی لے گیا۔ تارا مسیح بھی ایک مرغاہی تو تھا جو ایمو کے صحن میں روز دانا چگنے جاتا تھا۔ کب اس کی گردن پر چھری پھر ی اورکب وہ اس کی پلیٹ میں روسٹ ہوکرآگیا، مجھے کچھ پتا نہیں۔ بس میں تو اندازے لگاتاتھاکہ ایموکے گال اس مرغے کی روسٹ ٹانگیں کھاکرپھول چکے ہیں۔ ریاض نے گاؤں میں آٹا پیسنے والی چکّی لگائی تو اس جادوگرنی نے اس کے ٹھکانے کے بھی چکّر لگانے شروع کردیے۔ اس کے لیے دو وقت کی روٹی پوری کرنے کے لیے اس سے بہتر شکار اور کوئی نہیں تھا۔ ریاض بیل کی طرح کھر اس کے دونوں بٹوں کوگھماتا رہتا، کنک کے دانے تسلے میں گھومتے اورآٹے کی پونی سرسر کرتی اکٹّھی ہوتی رہتی۔ مجھے اس بیل کے گلے میں پڑی گھنٹی کی آوازسنائی دینے لگتی تومیرا دل ہمکنے لگتا۔ جی میں آتا ابھی چھری لے کرریاض کی چکّی میں گھس جاؤں اوراسے کاٹ کراسی کے بیلوں کی کھلّی میں ڈال دوں۔

جن دنوں وہ میرے باپ کی معشوق تھی بڑی باقاعدگی سے ہمارے گھر دودھ لینے آتی تھی۔ اس کے دودھ کا کٹورا میں خود بھرتا تھا اور وہ بدلے میں ہماری بیٹھک اپنی خوشبو سے بھر جاتی تھی۔ میرے لیے بھی وہ کسی معشوق سے کم نہ تھی اور اب میرا دوست ریاض اس سے صرف عشق کے دعوے ہی نہیں کررہا تھا بلکہ شادی بھی کرنا چاہتا تھا۔ اس کے منھ سے شادی کا ذکر سن کر لگا مجھے خواب میں کسی چڑیل نے دبوچ لیا ہو اور میں ڈر کر اُٹھ گیا۔ میں سمجھتا تھا شاید یہ ریاض کا وقتی لگاؤ اور جذباتی پن ہے، وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ریاض اور ایمو کے عشق کے قصّے گلی گلی مشہورہونے لگے۔ میں چھٹّیاں ختم ہوتے ہی شہر چلا گیا۔ ان چھ ماہ نے میری روٹین بدل دی۔ کاندھوں پر پڑھائی اور کمائی کا بوجھ ڈھوتے ڈھوتے میں ایمو کو بھلا چکا تھا۔ پھر ایک دن ریاض کا فون آیا کہ وہ مجھ سے ضروری ملنا چاہتا ہے۔ میں نے لاکھ بہانے بنائے۔ نجانے کیوں اب مجھے اس سے وحشت سی محسوس ہوتی تھی۔ پھر ایک دن ریاض نے میرے منصوبوں پر پانی پھیر دیا اور مجھ سے ملنے لاہور چلا آیا۔ اسے اپنے سامنے دیکھتے ہی میرے چہرے کا رنگ پھیکے شلجم کی طرح ہو گیا۔

وہ ایمو سے شادی کرنے پرمجبور تھاکیونکہ جب پیڑ پر پھل لگنے والا ہو تودیکھنے والوں کے پیٹ ہی نہیں نظریں بھی بھوکی ننگی ہوجاتی ہیں۔ ریاض کو اس مشکل میں پھنسا دیکھ کر میری خباثت نے سکون کا سانس لیا۔ وہ میری بے زاری کو بھانپ کرشام ہوتے ہی چپ چاپ گاؤں لوٹ گیا۔ جب میں عید کی چھٹّیوں پر گاؤں آیا تو پتا چلا ریاض ایموسے شادی کر کے شیخوپورے چلاگیا ہے۔ مجھے اس دن محسوس ہوا جیسے میں ہی وہ ہرن ہوں جو عین عالمِ بہار میں مستی پر آیاتھا۔ ابھی چاندنی رات کے طلسم میں ہرنیوں کے جھرمٹ میں کھڑا ہی ہو اتھا کہ شکاری نے مجھ پر تیر سیدھا کیا اور اس سے پہلے کہ مشک بُو میرے نافے سے پھوٹتی، کہیں سے اک تیر میرے سینے میں آکر گڑ گیا۔ میرے منھ سے نکلنے والی درد ناک چیخ اندر ہی کہیں گم ہو کر رہ گئی تھی۔

ایمو میں نجانے کیا مقناطیسیت تھی کہ ہر کوئی اس کی طرف کھنچا چلا آتا تھا۔ میں نے شہر میں اس سے کہیں درجہ حسین عورتیں دیکھی تھیں۔ ان کے مقابلے میں تو وہ گوشت کا ڈھیر تھی اور ریاض شہتوت کا سوکھا تنا۔ بس ایک بات ایمو کو ان سب حسین عورتوں سے جدا کرتی تھی اور وہ اس کے جسم سے پھوٹنے والی خوشبو تھی۔ وہ بالکل نیاز بو کے پودے کی طرح تھی، جسے چھونے والے ہاتھ سے کتنی ہی دیر خوشبو پھوٹتی رہتی ہے۔ اب تو یہ نیاز بو ریاض کے گھر لگ گیا تھا اور میں اس کی بُو سونگھتا سونگھتا گاؤں چلا جاتا جہاں اب سب کچھ ویران تھا۔ ایسے لگتا تھا جیسے میری جیب کٹ گئی ہو اور میں بے یارومددگار لاری اڈّے پر مسافروں کے منھ تک رہا ہوں۔ اس دوران میں نے خود کو گاؤں کی دوسری لڑکیوں کی جانب متوجّہ کرنے کی بھی کوشش کی۔ نجّو بھی ان میں سے ایک تھی۔ سانولی سلونی نجّو، جس کے چہرے پر نمک ہی نمک تھا اور میں نمک کی اس ڈلی کو زبان پر رکھنے کے لیے بے چین ہو گیا۔ میرے دوست اکرم کو میری اس چوری کا علم تھا اس لیے جب بھی میں گاؤں جاتا وہ اس ڈلی کا ذکر چٹخارے لے لے کر کرتا۔ پھر ایک دن وہ اس کے اشارے پربیٹھک میں مجھ سے ملنے آگئی۔ میں ڈرتا جھجھکتا اندر داخل ہوا تو وہ دروازے کے پیچھے لگی کھڑی تھی۔ اکرم بیٹھک میں ہماری جانب پشت کیے کمپیوٹر پر مصروف تھا۔ میں نے اپنے اندر کی ساری کمینگی کو دیگچی کے پیندے پرلگے سالن کی طرح کھرچ کھرچ کر ایک جگہ اکٹّھا کیا اور اس سے باتیں کرنے لگا۔ وہ جتنی دیکھنے میں نمکین تھی اس سے کہیں زیادہ شہد جیسی میٹھی بھی لگنے لگی تھی۔ میں نے اس مٹھاس کا ہاتھ پکڑ تے ہوے کہا: ”سوہنیو! پھر کیا ارادہ ہے؟“

پتا نہیں یہ الفاظ کس طرح میرے منھ سے ادا ہوے۔ میں کہنا توکچھ اور چاہتا تھا لیکن عجیب سی بدمعاشی میرے اندر کروٹیں لینے لگی۔ جیسے سوئے ہوے سانپ پر کسی راہ چلتے شخص کا پاؤں پڑ جائے تو وہ کسمساتا ہے، بالکل ویسے میں بھی انگڑائیاں لے رہا تھا۔ اتنے میں نجّوبولی: ”کی مطبل جی!“

”اک چمّی تے دے سو۔“ یہ فقرہ بولتے ہوے میرا منھ تھوک سے بھر گیا۔ دل چاہا یہیں کہیں تھوک دوں کہ اتنے میں نجّو اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوے بولی: ”چمّی تاں میں حالے تک اپھل نوں وی نئیں دتّی۔“ اس کی یہ بات سن کر اکرم کی ہنسی نکل گئی اور میری کمینگی کے غبارے سے ہوا۔

اکرم کے بتانے پرمعلوم ہواکہ اپھل نمبرداروں کا ڈرائیور ہے۔ دل تو چاہا کہ نجّو کے منھ پررکھ کر لگاؤں لیکن اگر اس کے چہرے کا نمک میرے ہاتھ کو لگ جاتا توساری عمرہاتھ دھوتے ہی گزرجاتی۔ میری کمینگی پیشاب کے جھاگ کی طرح بیٹھ گئی اور میں نے نجّو کو ایک لمبی سی گالی دیتے ہوے بیٹھک سے نکال دیا۔ اکرم میری بے بسی پر قہقہے لگا رہا تھا لیکن اس دن مجھے اس کے قہقہے بُرے نہیں لگے۔ میں سوچتا رہا اگر نجّو کی بجائے میں نے ایمو سے اس خواہش کا اظہار کیا ہوتا تو کیا وہ کسی اپھل کو مجھ پر فوقیت دیتی؟ اس جیسی بے باک عورت، جو شراب کی رسیا تھی اور ریاض کے لیے خود پنجابی ٹھرّا لے کر آتی تھی، اس کے آگے ایک چمّی کی کیا اوقات تھی! نجّو کو قریب سے دیکھنے کے بعد مجھے صوبیدار کا کاما شدّت سے یاد آنے لگا۔ کم بخت عورت کے جسم کے ایسے نقشے کھینچتاتھا کہ طبیعت خبطی ہونے لگتی۔ میرے پاس یادوں کی اس پٹاری میں اب کچھ نہیں بچا تھا، اس لیے میں مستقل طور پر ہی شہرچلاگیا۔

دس سال بعد گاؤں جانا ہوا تو سب کچھ بدل گیاتھا۔ گاؤں کے کچّے راستے پر ایمو کے گھر کی پکّی اینٹوں والی دیوار پر لگے اُپلوں میں مجھے اس کی جھلک دکھائی دینے لگی۔ اس کا گھرمیرے پولٹری فارم کے عین سامنے تھا۔ جس طرح لوگ اپنے پیاروں کی قبروں پر فاتحہ پڑھنے آتے ہیں اس دن میں بھی اس شہرِ خموشاں کے باہر کھڑا تھا جہاں کبھی ایمو رہتی تھی۔ جس وقت اس نے ریاض سے شادی کی وہ پینتالیس کے پیٹے میں تھی اور ریاض تیس سال کا تھا۔ پھر سناکہ ریاض سے اس کی دو بیٹیاں ہیں اور پہلے شوہرکی بیٹی بھی اس کے ساتھ ہی رہتی ہے۔ ریاض کی عزّت اور چکّی دنوں بک گئیں۔ اب وہ ٹرک چلاتاہے لیکن ایمو بالکل اس عورت کی طرح رہی جس کی بدچلنی سے اس کاشوہرنہایت عاجزہواتو ایک دن اس نے اپنی بیوی سے یہ کام چھوڑنے کی التجا کی۔ بیوی نے ایک شرط کے بدلے خود کو بدلنے کا وعدہ کر لیا۔ شرط کے مطابق اس کا شوہر روز فقیروں والا چولا پہنے اور ہاتھ میں کٹورا پکڑے مانگنے نکل جاتا۔ ساٹھ دن تک اس کا یہی معمول رہا لیکن اگلے دن جب وہ کاسہ پکڑنے لگا توبیوی نے اسے جانے سے روک دیا۔ شوہر نے احتجاج کرتے ہوے کہا کہ تو بے شک اپنی من مانی کر لیکن اب میں مانگنے سے باز نہیں آسکتا۔ بیوی نے ہنستے ہوے کہا عادت کبھی فطرت کامقابلہ نہیں کرسکتی۔ ایمو بھی اپنے کسب کا گلا نہ گھونٹ سکی۔ ایمو جس تالاب میں تھی وہ تعفّن زدہ تھالیکن مجھے اس کے عشق میں مچھلی کی طرح تیرنااچھالگتارہا۔ جولاہی کی یہ کھڈّی میرے دل کی پونیاں بنابناکراپنی مرضی کے بیل بُوٹے نکال رہی تھی۔ مجھے اس کابس ایک بار اشارے سے اپنے پاس بلانایادہے جب ماں نے اسے میرے باپ کے ساتھ بیٹھک میں رنگے ہاتھوں پکڑا توگھر اکھاڑا بن گیا۔ وہ روزمجھے کمرپرہاتھ رکھّے، کھاجانے والی نظروں سے دیکھتی تھی جیسے مجھے مخبر سمجھ رہی ہو۔ پھرایک دن اس نے آوازلگائی:”او! کُتّیا، ایدھرتاں آ۔“ میں گلی میں آوارہ کتّے کی طرح سرپٹ دوڑااورپیچھے مڑکرنہیں دیکھا۔ میں واقعتا کتّا ہی تھا، گلیوں کاآوارہ کتّا، جسے اَسّو کے مہینے میں مشک مارتی کتیانے دیوانہ بنا رکھّا تھا۔ گلی کے دوسرے کتّے بھی اس کے تعاقب میں تھے اوروہ جوبن پرآئی دوڑ لگاتی کتیا، جس کے پیچھے دوڑنے والے آپس میں لڑرہے تھے۔ وہ زبان نکالے، رال ٹپکائے دیکھتی تھی کہ کون اس دنگل میں جیتے گا۔ واؤ…  واؤ…  کی آوازیں نکالتے، دانت نکوستے، اس کوسونگھنے کوبے قرار کتّے ایک دوسرے کو بھنبھوڑتے رہے اورپھر سب بے دم ہوگئے۔ جاٹوں کے کتّے نے اس مُشک مارتی کتیا کو جیت لیا تھا اوراب میں اس میدان میں کھڑا اس سنجوگ کودیکھ رہاتھا۔ اس دن واپسی پر میں شیخوپورے سے گزرتے گزرتے ریاض کے گھر کی طرف ہو لیا۔ مجھے نہیں معلوم تھا ریاض اس وقت گھر ہو گا یا نہیں۔ میں ایمو کوجی بھر کر دیکھنا چاہتا تھا۔ جیسے ہی میں صحن میں داخل ہوا سامنے چارپائی پر لیٹی ہوئی ایمو اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ وہ مجھے پہچاننے کی کوشش کرنے لگی اور پھر ایک دم پہچان کا لپکا اس کی آنکھوں میں بجلی کی طرح کوندا۔ اب اس کا بھرا بھرا جسم پہلے کی نسبت کچھ کم ہو گیا تھا۔ اس کے دنداسہ مَلے ہوے دانت آج بھی چم چما رہے تھے۔ اس نے مجھے آگے بڑھ کرگلے لگا لیا اور دلار سے میرے گالوں کو چوما۔ وہ مجھے پہلے کی طرح نیاز بُو جیسی خوشبودارمحسوس ہوئی۔ میرے اندر کہیں عجیب سی خنکی دوڑ گئی۔ اس لمحے لگا جیسے چیونٹیاں میرے جسم میں داخل ہو گئی ہوں۔ وہ مجھے کرسی پر بٹھا کرخود چارپائی کی پائینتی پر بیٹھ گئی۔ وہ میرے اتنے قریب تھی جیسے کسی بھی لمحے اُچک کراپنے منھ میں ڈال لے گی۔ اس دن مجھے اس کے چہرے پر ڈھونڈے سے بھی ہوس کے بادل نظر نہیں آئے۔ میں تو بڑی اُمّید لے کر آیا تھا کہ شاید آج میں اس کے جسم میں لگی چکّی میں دانے کی طرح پس جاؤں لیکن اب اَسّو کامہینہ گزر چکاتھا۔ اچانک میرا دل گھبرانے لگا اورپسینے چھوٹنے لگے۔ اس سے پہلے کہ میری نبض بند ہوتی میں نے اُٹھ جانے میں ہی عافیت سمجھی۔ ایمو مجھے دروازے تک چھوڑنے آئی۔ میرا دل چاہا آخری بار اس سے لپٹ کر زارو قطار روؤں لیکن میری بزدلی اس دن بھی اس خواہش کے آڑے آگئی۔ ایمو واقعی اس جولاہی کی طرح تھی جسے معلوم تھا کس سوتر کی پتلی سے ڈوری بُنے گی اور کس سوت کو چاندی کے تار کی طرح بٹ کر سوئی کے ناکے میں پرونا ہے!