اپنی اپنی تنہائی میں

یہ تحریر 381 مرتبہ دیکھی گئی

مٹّی کی مٹتی قبروں کے دائیں بائیں
گھاس گھنی ہے، خوب ہری ہے۔
اِن قبروں میں سونے یا کھو جانے والے
مجھ کو شاید بھول چکے ہوں۔
میں بھی، جیسے میری یادوں پر بھی ہر سُو
گھاس اُگی ہو،
اُن کو ٹھیک طرح سے یاد نہیں کر سکتا شاید۔

آج بھی اُن کا چہرہ مہرہ، باتیں، لہجے
یاد آتے ہیں، جیسے دھوپ بھی ہو
اور کہیں بُوندا باندی بھی۔
نام اگر یاد آجاتے ہیں تو
شکل نہیں بنتی ہے کوئی۔
چہرے یاد آجائیں اگر تو
نام غروب ہوے جاتے ہیں۔

آج یہاں پر کوئی نہیں ہے۔ گھاس اور قبریں
اور سنّاٹا۔ گزرے ہوے کچھ کہنا چاہیں
آج میں اُن کی کتنی باتیں سُن سکتا ہوں؟
لیکن جو مٹّی اور گھاس کی سی دھیمی آواز میں بولیں،
میں کہ شور کا عادی ہوں،
اُن کی باتیں کب سمجھوں گا۔

یا شاید وہ آپس ہی میں باتیں کرتے رہتے ہوں گے،
میرے وجود سے غافل یا بے پروا۔
اُن کو اتنی دُور پہنچ کر
اب میری پروا بھی کیوں ہو؟
ایسے گُم صُم کونوں میں چپ رہنا آخر
سب سے بہتر۔
۲۰۱۵ء