اِک بحرِ پرآشوب و پراسرار ہے رومی

یہ تحریر 1260 مرتبہ دیکھی گئی

(۴)

اگر انسان عموماً اللہ کی خلاقیت کا بہترین مظہر ہے تو پیغمبر اسلامﷺ انسانوں کے مابین ایک خاص مرتبہ رکھتے ہیں۔ اللہ ان کے بارے میں صراحت سے فرماتا ہے: وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْن (۲۱:۱۰۷)۔(۲۷) ان کی مقدس شخصیت ہر مسلمان کے زہد و تقویٰ کا محور ہے۔ جلد ہی عارفوں نے ان کی شخصیت کے گرد بے شمار معجز آفرین صفات کا ہالہ کھینچ دیا۔

اللہ کے حضور انسان کے تمام سفر کو مسلمان صوفیہ اور دیگر مذاہب کے عرفا نے مسلسل روحانی حرکت سے تعبیر کیا ہے گویا ایک نردبان ہے جو بہشت تک پہنچتی ہے جیسا کہ ارشاد خدواندی ہے: لَ تَرکَبُنّ طَبَقًا عَنْ طَ بَقٍ (۸۴:۱۹)(۲۸) لیکن یہ ترقی بغیر قربانی کے ممکن نہیں۔ حیاتِ ابدی کے لیے موت لازمی ہے، نئی تعمیر کے لیے تخریب لازم ہے۔ اللہ کا خلاقانہ فعل اس مسلسل تبدیلی کا مظہر ہے: یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ (۳۰:۱۹ و دیگر متعدد مقامات)( ۲۹) اگر دنیا کی ہر حرکت کے پسِ پردہ عشق کی قوت کارفرما نہ ہوتی تو اعلیٰ مراتب وجود تک رسائی کے لیے مسلسل قربانی اور مرنے اور رحلت کرنے کا بے پایاں تجربہ ناممکن ہوتا۔ صوفیہ نے جلد ہی کلمہء الٰہیہ کو پا لیا تھا: یُحِبُِھُمْ وَ یُحِبُّوْنَ ہٗ (۵:۵۴)۔(۳۰) انھوں نے اس آیت سے اس صداقت کا کھوج لگا لیا تھا کہ عشقِ الٰہی عشقِ مجازی پر متقدم ہے۔ باہمی محبت کا یہ احساس اور یہ شعور کہ آفرینش کی تمام زندگی میں عشق ہی تنہا اہم چیز ہے، رومی کی فکر کا مرکزی نکتہ تشکیل دیتا ہے اور رنگا رنگ اسلوب و آہنگ میں ان کی شاعری میں وقتاً فوقتاً صداے بازگشت کی طرح ظہور کرتا ہے لیکن عبدو الٰہ میں اس باہمی محبت کا آخری اور عالی ترین تجربہ نماز میں نظر آتا ہے جب انسان الوہی دعوت پر لبیک کہتا ہے: اُدْعُوْنِیٓ اَسْتجِبْ لَکُمْ (۴۰:۶۲)(۳۱) اور عاشقانہ تسلیم و رضا کے ذریعے اتحاد مطلق تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔

یہ کتاب مولانا سے چالیس سال کے مکالمے کا حاصل ہے۔ یہ یقینا ایک ذاتی مکالمہ ہے___ یہی وجہ ہے کہ یہاں وہ ایک پیرِ عارف سے زیادہ، جس کے اشعار نو افلاطونی افکار کا رنگ لیے ہوئے ہیں، شدید حساسیت کے حامل ایک انسان کی صورت میں جلوہ گر نظر آئیں گے ___ کلمہء انسان کے اعلیٰ ترین مفہوم میں ___ جو قرآن اور کلاسیکی اسلامی عرفان میں مستغرق ہے۔ اپنے جلال و جمال کے جلو میں آفتاب الٰہی کا نور رومی کو شمس الدین تبریزی کی صورت میں نظر آتا تھا۔ اس نور سے منقلب ہوکر اور اس آگ میں جل کر، رومی نے دنیا کو ایک نئی روشنی میں دیکھا۔ انھوں نے ہر جگہ اللہ کے جلال و جمال کا مشاہدہ کیا، ہر مخلوق کے ہمہمہء حمد کو سنا اور پھر اپنے پیروکاروں کو اپنے ناقابلِ فراموش اشعار کے ذریعے یہ یاد دلایا کہ حیاتِ اصلی، تنہا عشق کے حضور تسلیم و رضا کی صورت میں ممکن ہے۔

حواشی و تعلیقات:

(از قلم مترجم)

۱-             سپہ سالار کا اصل نام فریدون بن احمد تھا۔ اس کی تصنیف کردہ کتاب کا نام رسالہئ فریدون بن احمد سپہ سالار در احوال مولانا جلال الدین رومی ہے۔ سعید نفیسی نے ۱۳۲۵ھ ش میں اسے مدون کر کے تہران سے شایع کیا۔ افلاکی نے اپنی ضخیم کتاب مناقب العارفین میں سپہ سالار سے جا بہ جا استفادہ کیا ہے۔

۲-            پورا نام فریڈرخ ریوکرٹ تھا۔ شوائن فرٹ میں ۱۷۸۹ء میں پیدا ہوا۔ اپنے عہد کا نہایت قادر الکلام شاعر تھا۔ اس نے لڑائی اور آزادی کے موضوعات پر روح کو گرما دینے والی شاعری کی۔ ریوکرٹ کو مشرقی تحریک کی روح و رواں کہا جا سکتا ہے۔ وہ مشرق اور مغرب کے درمیان ایک ممتاز سفارت کار کی حیثیت رکھتا ہے۔ واضح رہے کہ اس کا مشرق صرف عرب اور ایران تک نہیں بلکہ ہندوستان اور چین تک پھیلا ہوا تھا۔ وہ رومی اور حافظ کی شاعری کا عاشق تھا۔ اس نے سنسکرت شاعری کو جرمن میں ڈھال کر اس کو بڑا ثروت مند کیا۔ اس نے عربی، فارسی اور سنسکرت کا گہرا مطالعہ کیا اور چند ہی برسوں میں اس کا شمار یورپ کے نہایت ممتاز شرق شناسوں میں ہونے لگا۔ اس نے متعدد نظمیں لکھیں جو رومی کی مثنوی میں بیان کردہ حکایات سے متعلق ہیں۔ اس نے مشرق کے متعدد دیگر نمایندہ شعرا کی شاعری کو بھی جرمن میں ڈھالا، ۶۶۸۱ء میں وفات پائی۔ تفصیل کے لیے ر۔ ک: The Influence of India & Persia on the Poetry of Germany (مصنفہ آرتھر ایف جے ریمی)، نیویارک ۱۹۶۶ء ص ۳۸-۴۵۔ نیز ملاحظہ کیجیے دیباچہئ پیام مشرق اور Wolfgang Menzel کی کتاب German Literature (جلد چہارم) ص ۱۶۲-۱۶۶۔

۳-            این میری شمل نے اپنی دل چسپ آپ بیتی “Orient & Occident” میں اپنے استاد کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ اس کا پورا نام ہانزہا نرخ شیڈر تھا۔ شمل کے بقول اس کے  بال جلد سفید ہو گئے تھے۔ وہ ایک فطری خطیب تھا جو اپنی مرصع خطابت سے سننے والوں پر سحر طاری کر دیتا تھا۔ جدید فارسی پر اس کے لیکچر سحر انگیز ہوتے تھے اور وہ بیچ بیچ میں افلاطون، چینی شعریات اور عہدِ وسطیٰ کی موسیقی کی جانب بھی پھسل جاتا تھا۔ اس نے بعد ازاں شمل کو ایلیٹ اور مابعدالطبیعیاتی شعرا سے متعارف کیا۔ اس کے دلچسپ احوال کے لیے ملاحظہ ہو متذکرہ صدر کتاب کے ص ۳۴، ۳۵۔

۴-            مثنوی کے ابتدائی اشعار جس رمزی اور علامتی ثروت سے بہرہ دار ہیں اس کا کیا مذکور:

بشنواز نے چوں حکایت می کند 

                وز جدائی ہا شکایت می کند

کزنیستان تا مرا ببریدہ اند

در نفیرم مرد و زن نالیدہ اند

ہر کسے کو دور ماند از اصل خویش

باز جوید روزگارِ وصلِ خویش

سینہ خواہم شرحہ شرحہ از فراق 

تا بگویم شرحِ دردِ اشتیاق

۵-            شمل نے کئی جگہ اسماعیل نجار سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کیا ہے۔ قونیہ کے رہنے والے اس درویش صفت انسان سے اُن کی کئی ملاقاتیں رہیں۔ شمل نے اُسے ”قلب زندہ“ سے تعبیر کیا ہے جو مولانا روم کے نصب العینوں کی زندہ اور جیتی جاگتی تفسیر تھا۔ اسماعیل ان لوگوں میں سے تھا جن کے وجود میں درویش کی مثالیت اس خوبی سے نفوذ کر گئی تھی جس کی مثال بقول شمل دنیاے اسلام میں نایاب ہے۔ درد مندی، بے مثل مہمان نوازی، سادہ دلی اس کی شخصیت کے جوہر تھے۔ اس کا گھر مولانا کے غیر ملکی عشاق کا مرکز بن چکا تھا۔ اس نے اچانک جرمنی میں بیالیس برس کی عمر میں وفات پائی۔ وفات کا سبب معمولی بخار اور جریانِ خون تھا۔ یہ واقعہ لیلۃ القدر میں پیش آیا۔ اس سادہ منش مگر نہایت زیرک عارف کی زندگی کی تفصیل کے لیے ر۔ک “Orient & Occident” میں “My Brother Ismail”  کے زیر عنوان ص ۱۱۴-۱۱۹۔ جہاں تک یاد پڑتا ہے شمل نے اسماعیل نجار پر “Pakistan Quarterly” میں بھی ایک یادداشت شایع کی تھی۔

۶-            منجملہ اور عرفا کے شمل کو شاہ بھٹائی سے بھی غیرمعمولی عقیدت تھی۔ اس ضمن میں اس کی کتاب “Pain & Grace” کا پانچواں، چھٹا اور ساتواں باب قابلِ ملاحظہ ہے۔

۷-            یہ رومی کے فرزند اکبر تھے۔ شبلی کا کہنا ہے کہ علوم ظاہری و باطنی میں یگانہء روزگار تھے۔ رومی کی وفات پر انھیں سجادہ نشین بنانے پر اصرار کیا گیا مگر ان کے ایماء اور اصرار پر رومی کے یارِ عزیز حسام الدین چلبی کو خلافت کی مسند دی گئی۔ چلبی کے بعد آپ مسند خلافت پر متمکن ہوئے۔ حقایق و اسرار پر ان کی تقاریر بڑی جالب اور جاذب ہوتی تھیں۔ ۷۱۲ھ میں ۹۶ برس کی عمر میں انتقال کیا۔ افلاکی کی مناقب العارفین میں ان کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔ پورا نام بہاء الدین سلطان ولد تھا۔ ان کی تصانیف میں ولد نامہ (مرتبہ جلال ہمائی، تہران) رباب نامہ، معارف اور انتہا نامہ شامل ہیں۔

۸-            ابنِ عربی کے معروف شارح اور رومی کے دوست، عارف باللہ تھے۔ پورا نام محمد بن اسحق ابن محمد بن یوسف بن علی۔ سالِ وفات ۱۲۷۳ یا ۱۲۷۵ عیسوی بتایا جاتا ہے۔ ظاہری و باطنی اور عقلی علوم میں دسترس رکھتے تھے۔ ابنِ عربی کے زیر اثر تربیت پائی اور ان کے ممتاز شاگردوں میں شمار ہوئے۔ شافعی المذہب تھے۔ متعدد کتب کے مصنف تھے جن میں النصوص فی تحقیق السطور المخصوص، اعجاز البیان، مفتاح الغیب اور شرح الاسماء الحسنیٰ معروف ہیں۔ مزار شریف قونیہ میں ہے۔

۹-            “The Triumphal Sun” کے ایرانی مترجم حسن لاہوتی نے اپنے ترجمے شکوہِ شمس میں اس کا متبادل ”صدور گرای“ استعمال کیا ہے۔ میرے نزدیک “emanationalist” کا زیادہ موزوں ترجمہ ”صدوریت پسند“ ہے۔ ”صدور“ ایک فلسفیانہ اصطلاح ہے جس کا لفظی معنی ”کسی جگہ سے باہر آنا“ ہے۔ روایت ہے کہ ”صدور“ کا تصور سب سے پہلے قبل مسیح کے فلسفی پوسیدونیس “Posidonius” نے پیش کیا۔ بعد میں اسے وضاحت کے ساتھ فلاطینوس (Plotinus) نے مرتب کیا۔ فلاطینوس کے تصورِ صدور کی رُو سے سے اِس عالم نے ذاتِ حق سے ایک جریانِ لازم کے طور پر صدور کیا۔ جیسے سورج سے نور کا صدور و ظہور ہوتا ہے۔ اس تصور پر غزالی نے کڑی تنقید کی ہے۔ مسلم فلاسفہ کا تصورِ صدور دو اصولوں پر قایم تھا، اوّل یہ کہ ذاتِ حق سے، جو واحد ہے، فقط وحدت ہی کا صدور ممکن ہے۔ اسی تصور نے اس کلیے کو جنم دیا: ”ایک سے ایک ہی کا صدور ممکن ہے۔“ دوسرا اصول یہ تھا کہ ذات یا واجب ہے یا ممکن یا یہ ماہیّہ ہے یا اَنیّہ۔ صرف ذاتِ حق میں ماہیّہ اور اَنیّہ مثلِ یک دیگر ہیں۔ دوسری تمام ذوات میں ماہیّہ، اَنیّہ سے الگ ہے۔ ”صدور“ کا مبحث (مسلم علم کلام میں) بڑا وضاحت طلب ہے جس کا یہ موقع نہیں۔ تفصیل کے لیے یونانی اور مسلم علم کلام پر کتب ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ انگریزی میں اس موضوع پر عمدہ مباحث کے لیے ایم ایم شریف کی  مر ّتبہ A History of Muslim Philosophy (جلد اوّل) اور سید حسین نصر اور اولیور لیمین کی مر ّتبہ History of Islamic Philosophy کی دونو جلدیں ملاحظہ ہوں۔

۱۰-           ”صدور“ کی جزئیات میں جائیں تو بتایا جاتا ہے کہ المبدء الاول سے، جو واجب الوجود ہے، عقلِ اوّل کا صدور ہوا۔ عقلِ اوّل، عددی اعتبار سے واحد ہے۔ اس کا وجود فی ذاتہ ممکن ہے اور المبدء الاول کے توسط سے واجب۔ گویا سید محمد ذوقی شاہ کے بقول عقل اول ”علم الٰہی کی شکل کا وجود میں محل“ ہے — علم الٰہی قلمِ اعلیٰ کے ذریعے سے لوحِ محفوظ کی طرف نازل ہوا۔ یہ لوح اس کے تعین و تنزل کا محل ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے ”ّسرِ دلبراں“ ص ۲۶۸-۲۶۹۔

۱۱-           یہ فرانسیسی لفظ ہے انگریزی میں اسے “balas” کہتے ہیں یا “balas ruby” یعنی لعل بدخشاں۔

۱۲-           ہم ان کو اپنی نشانیاں عن قریب اسی دنیا میں دکھائیں گے اور خود ان کی ذات میں بھی (حٰم السجدہ)

۱۳-          ہم نے پانی سے ہر جان دار چیز کو بنایا ہے۔ (الانبیاء)

۱۴-          یہ لوگ کیا اونٹ پر نظر نہیں کرتے کہ اس کی خلقت کیسی ہے (کیسی عجیب صورت میں پیدا کیا گیا ہے)۔ الغاشیہ

۱۵-          کھاؤ پیو اللہ کے دیے ہوئے رزق میں سے۔ (البقرہ)

۱۶-           اور جب میں بیمار پڑتا ہوں تو وہی شفا دیتا ہے۔ (الشعراء)

۱۷-          وہاں ان کی ریشم کی پوشاک ہوگی۔ (الحج)

۱۸-          نون، قسم ہے قلم کی اور اس کی جو وہ (فرشتے) لکھتے ہیں۔

۱۹-           اور دنیوی زندگی تو کچھ بھی نہیں بجز کھیل تماشے کے (الانعام)

۲۰-          اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لیے ہر قسم کے عمدہ مضامین طرح طرح سے بیان کیے ہیں۔ (الکہف)

۲۱-           یہ آیتِ کریمہ سورہ بقرہ میں دو جگہ آئی ہے۔ پہلی دفعہ ۱۳۴نمبر پر اور دوسری مرتبہ ۱۴۱ نمبر پر۔ شمل نے آیت کا حوالہ درست نہیں دیا: آیت کا ترجمہ ہے: ”یہ ایک جماعت ہے جو گزر چکی۔“

۲۲-          سنو، اللہ کے دوستوں پر قطعاً نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غم گین ہوں گے۔ شمل نے آیت کا حوالہ درست نہیں دیا۔ آیت کا صحیح نمبر ۶۲ ہے۔

۲۳-          اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دوں۔ (الحجر)

۲۴-          اللہ وہ ہے کہ کوئی معبود اس کے سوا نہیں، وہ زندہ ہے سب کا سنبھالنے والا ہے۔ (البقرہ)

۲۵-          اور کوئی بھی ایسی چیز نہیں جو حمد کے ساتھ اس کی پاکی نہ بیان کرتی ہو۔ (بنی اسرائیل)

۲۶-          اور ہم نے بنی آدم کو عزت دی ہے۔(بنی اسرائیل)

۲۷-          اور ہم نے آپ کو دنیا جہان پر اپنی رحمت ہی کے لیے بھیجا ہے۔ (الانبیاء)

۲۸-          کہ تم کو ضرور ایک حالت کے بعد دوسری حالت پر پہنچنا ہے۔ (الانشقاق)

۲۹-          وہ باہر لاتا ہے جان دار کو بے جان سے اور باہر لاتا ہے بے جان کو جان دار سے۔ (الروم)

۳۰-          جنھیں وہ چاہتا ہوگا اور وہ اسے چاہتے ہوں گے۔ (المائدہ)

۳۱-          شمل نے نمبر شمار کی غلطی کی ہے۔ یہ سورہئ المومن کی آیت نمبر ۶۰ ہے بہ مفہوم ذیل:                 میں تمھاری درخواست قبول کروں گا۔