اِک بحرِ پرآشوب و پراسرار ہے رومی

یہ تحریر 1011 مرتبہ دیکھی گئی

(3)

”پانی“ مشرقِ وسطیٰ کے تمام ممالک میں لطفِ الٰہی کی علامت رہا ہے اور قرآن اعلان کرتا ہے: وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیْءٍ ح َیٍّ (۱۳) (۲۱:۳۰)۔ رومی بھی اس علامت کو اس کی گونا گوں حتیٰ کہ متناقض صورتوں میں استعمال کرتے ہیں۔ ”پانی“ کی علامت منطقی طور پر باغ کی علامت پر منتہی ہوتی ہے۔ کیا قرآن نے اپنی متعدد آیات میں اہلِ ایمان کو بشارت نہیں دی کہ وہ دل کش اور پاکیزہ باغوں میں رہیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں؟ باغ اور جو کچھ اس میں ہے، خدا کی شانِ ّخلاقی اور رحمت کی علامت ٹھہرا اور گویا بہشت کی سعادت کی ایک ایسی دلالت جس کا تجربہ اہلِ ایمان آخرت میں کریں گے۔

قرآن حکیم نے اہلِ ایمان کو اللہ کی نشانیاں ہر جگہ مشاہدہ کرنے کی تلقین کی ہے: اَفَ لَا یَنْظُرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ (۱۴) (۸۸:۱۷)۔ یہ گویا مولانا کے ہاں حیوانی تماثیل کا نقطۂ آغاز ہے۔ وہ اس طرح کی تمثالوں کے بڑے شایق تھے اور ان کے اشعار ان کی د ّقتِ مشاہدہ کے گواہ ہیں جس میں بعض نہایت معمولی مخلوقات کا احاطہ بھی کیا گیا ہے جو شاعر پر اللہ کی قدرت کو منکشف کرتی ہیں یا پھر انسانی طرزِ عمل کی واضح اور روشن مثالیں تشکیل دیتی ہیں جیسا کہ کلیلہ و دِمنہ کی حکایات سے ظاہر ہوتا ہے اور جن پر دیگر عرفا کی طرح خود رومی نے گہرا انحصار کیا ہے۔ رومی کے آثار میں کسی حیوان کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا: شیر سے چیونٹی تک، اونٹ سے مچھر تک، دریائی گائے سے سیہہ تک نیز گوناگوں پرندے جنھیں رومی کے  پیش رووں سنائی اور عطار نے اپنی عارفانہ شاعری میں برتا، یہ سب رومی کی تمثالوں کے اہم پہلو کی تشکیل کرتے ہیں۔

لیکن غیر نامیاتی اشیا، نباتات اور حیوانات کی دنیا سے کہیں بڑھ کر عالمِ انسانی رومی کے لیے سب سے زیادہ کشش کا باعث ہے اور انسانی زندگی کا شاید ہی کوئی گوشہ ایسا ہو جسے انھوں نے نہ چھؤا ہو۔ قرآنِ حکیم نے انسان کی معجز آثار تخلیق کو متعدد بار بیان کیا ہے: وہی تو ہے جس نے تمھیں مٹی سے، پھر نطفے کے قطرے سے، پھر خون کی بوٹی سے پیدا کیا اور پھر بچوں کی صورت میں تمھیں مشہود کیا (۲۲: ۵)۔ رومی اس خیال کو شرح و بسط سے اختیار کرتے ہیں اور عہدِ وسطیٰ کے قونیہ کے بچوں کی زندگی کی اصطلاحات کا سہارا لے کر ان کے کھیلوں، ان کی بے زاریوں اور ان کے میلانات کی واضح اور روشن تصویر کھینچ کر، انسان کی روحانی ترقی کی نشان دہی کرتے ہیں۔ رومی جانتے ہیں کہ ”خدواند لوگوں کو اپنی کھلی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ وہ متذ ِّکر رہیں (۲:۲۲۱) ____ ایسی نشانیاں جو صوفی روزمرہ زندگی کے ہر لمحے میں حتیٰ کہ ترکی حمام یا قصاب یا موچی کی دکان تک میں ڈھونڈ نکالتا ہے۔ یہ نشانیاں روزمرہ کے نان و نمک پر غور کرنے سے بھی ہاتھ آتی ہیں۔ قرآن حکیم نے ابن آدم پر لازم ٹھہرایا ہے: کُلُوْا وَاشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّٰہِ (۱۵) (۲:۶۰) اور رومی اگرچہ، جیسا کہ ان کے بعض سوانح نگاروں نے لکھا ہے، بہت سختی سے روزے کے پابند تھے، تمثال کاری کے لیے کہیں بھی مختلف انواع کے کھانوں سے کام لینے میں تامل نہیں کرتے تاکہ ہمیں کم و بیش ایک ایسی ”عارفانہ فہرستِ غذا“ فراہم کرنے کے قابل بنا سکیں جو تیرھویں صدی کے قونیوی مطبخوں میں معمولاً تیار ہوتی تھی۔

اگر ہمیں رومی کی شاعری میں ”امراض“ کی تمثالیں نہ ملتیں تو ہمارے لیے یہ بات باعثِ تعجب ہوتی۔ خارجی امراض اصلاً باطنی نقص کے مظہر ہیں لیکن اہلِ ایمان کو علم ہے کہ: وَ اِذَا مَرِضْتُ فَہُوَ یَشْفِیْنِ (۱۶) (۲۶:۸۰)۔ قونیہ کے مکینوں کی صنعت و حرفت مولانا کے بعض اعلیٰ اشعار کے لیے الہام بخش رہی ہے۔ بافندگی اور ّخیاطی کی نہایت کہنہ تمثال کاری نے قرآن حکیم کی اس بشارت کے ہمراہ: وَ لِ بَا سُہُمْ فِیْھَا حَرِیْ رٌ (۱۷) (۲۲:۲۳) خدا یا عشق کو قسمت کے ”عظیم بافندے“ یا ”خیاطِ حیات“ کی علامت کے تحت ظاہر کرنے اور اسی تاثر آفرینی کے ساتھ خطاطی کی تمثال نے، جو اسلامی ممالک کے تمام شعرا میں بے حد مقبول رہی ہے، خدا کو ”خطاطِ اعظم“ کے روپ میں جلوہ گر کرنے کے متعدد مواقع فراہم کیے۔ کیا خود خدا نے قرآن میں نہیں فرمایا: نٓ وَالْ قَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَ (۱۸) (۶۸:۱)

اس سے آگے بڑھیں تو سلجوقی دربار کے اعلیٰ عہدیداروں کے مشاغل اور سرگرمیاں بھی رومی کے مذہبی تصورات کے لیے مثالوں کا کام دے سکتی تھیں۔ قرآن نے تو دو ٹوک لفظوں میں کہہ رکھا ہے کہ وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْ یَ آ اِلَّا لَعِبٌ وَّلَھْوٌ (۱۹) (۶:۳۲ و دیگر آیات)۔ اس لحاظ سے عہدِ وسطیٰ کی مسلم دنیا میں کھیلے جانے والے کھیل اعلیٰ فکری مراتب اور روحانی تجربات کو علامت کے روپ میں بیان کرنے کے لیے خوب موزوں تھے۔

یہ بات خوب معلوم ہے کہ خود قرآن حکیم نے عربی زبان اور نتیبحتہًً تمام مسلم زبانوں کو سیکڑوں تمثالیں عطا کیں: وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لِلنَّاسِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ(۲۰) (۱۸:۵۴)۔ قرآنی قصص کے مرکزی کردار عین اسی طرح مسلمانوں کی روز مرہ زندگی کا جزوِ لاینفک بن گئے جس طرح قرآن کی نہایت مؤثر آیات اور یہ بغیر کسی دشواری کے گوناگوں اسلامی اصطلاحات و محاورات کا حصہ بنا لیے گئے۔ قرآن انسانوں کو گذشتہ قوموں کی تاریخ پر غور کرنے کی بھی دعوت دیتا ہے: تِلْکَ اُمَّ ۃٌ قَدْ خَلَتْ (۲۱) (۲:۱۲۸)۔ سو رومی جیسے شاعر نے خود کو بعض شہروں، دریاؤں اور پہاڑوں کے متداول ناموں تک محدود نہیں رکھا۔ وہ معاصر اور اپنے عہد کے قریب کی تاریخ سے خوب آگاہ تھے تاکہ ان سے اپنی شاعری میں بہ طور حوالہ استفادہ کریں۔

یہ مسلمہ بات ہے کہ عارف کو صوفیانہ روایت سے خوب فایدہ اٹھانا چاہیے۔ وحیِ قرآنی میں سکینت بخش الفاظ میں صوفیہ اور اہل اللہ کا ذکر: اَلآَ اِنَّ اَوْلِیَاءَ اللّٰہِ لَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ (۲۲)(۱۰:۱) کی آیت میں ہوتا ہے اور یہ آیت اصلاً اس طلائی زنجیر کی تشکیل کرتی ہے جو صوفی۔ شاعر سے حضور اکرمﷺ تک منتہی ہوتی ہے۔ اِن کی حکایات عہدِ وسطیٰ کی مسلم دنیا میں وسیع پیمانے پر گردش میں تھیں اور کسی بھی شاعر کے لیے ان کا حوالہ دینا آسان تھا۔ رومی بھی اس روایت کی پاس داری کرتے ہیں اور بعض اوقات ان شخصیات کو بڑے حیران کن اشعار میں منور کرتے ہیں۔

لیکن شاید رومی کی شخصیت کا نمایاں ترین اظہار اس تمثال کاری میں ہوتا ہے جس کا تعلق موسیقی اور رقص سے ہے۔ چرخ زن درویشوں کا راہ نما موسیقی کے سحر انگیز اثر سے آگاہ تھا اور مثنوی کے آغاز میں نغمہئ نے اصلاً قرآنِ حکیم کے قصہئ تخلیق سے مربوط ہے جب اللہ نے آدم کے باب میں فرمایا: وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحی (۳۲) (۵۱: ۹۲)۔ گویا انسان وہ بانسری ہے جو محبوب الٰہی کے نفس سے مس ہو کر گویا ہوتی ہے۔

رومی کی شاعری میں تمثالوں کی یہ کثیر تعداد بڑے تسلسل سے ظہور کرتی ہے اور عارفانہ خیال کے مختلف پہلوؤں پر اس کے محتاط اطلاق کے مطالعے کے نتیجے میں ہم ان کے اندازِ فکر کا گہرا ادراک کر سکتے ہیں۔ جہاں تک رومی کی عارفانہ الٰہیات کا تعلق ہے، اس ضمن میں اس کی کوئی ملخص تصویر پیش کرنا خاصا مشکل ہے کیوں کہ مختلف اوقات میں اس موضوع پر ان کے اقوال و اظہارات خاصے متفاوت ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اللہ کی عظمت و جلالت رومی کی تمام زندگی کا رخ متعین کیے ہوئے تھی ¾¾ عظمت و جلالت جو بہترین انداز میں صاحب تقویٰ مسلمان کے قلب میں آیۃ الکرسی: اَللّٰہُ لَا اِلٰ ہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ القَیُّوم (۲:۲۵۵)(۲۴) کے توسط سے خود کو منکشف کرتی ہے، رومی کی الٰہیات اس حی و قیوم خدا کے ساتھ مسلسل مکالمہ کرتی ہے جس نے اس کائنات کو پیدا کیا ہے اور جو ہر لمحہ، ہر لحظہ عدم کے پاتال سے حیاتِ تازہ کے ظہور پر قادر ہے البتہ وہ جو شے بھی پیدا کرتا ہے اس کا مقصد حق سبحانہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی تسبیح کرنا ہے: وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ (۱۷:۴۴)۔(۲۵) آفرنیش میں اعلیٰ اور شریف ترین مقام انسان کو بخشا گیا ہے جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے: وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیٓ آدَم (۷۱:۷۰)(۲۶) کیوں کہ مخلوقات میں انسان تنہا مخلوق ہے جو خیر و شر کے مابین انتخاب پر قادر ہے اور اس اعتبار سے حیوان و فرشتہ سے افضل ہے۔ رومی نے عرفانی نفسیات کا کوئی نظام تو مرتب نہیں کیا مگر وہ بعض اوقات نفس و قلبِ انسانی کے اعماق میں جھانکنے کے لیے گہرے بصائر مہیا کرتے ہیں۔