اوراق گم گشتہ

یہ تحریر 696 مرتبہ دیکھی گئی

پہلا ورق- تمہیدی کلمات

مجھے آج کل فرصت کے کچھ لمحات میسر ہوئے ہیں تو سوچا کیوں نہ کچھ ادھراُدھر کی باتیں لکھ لی جائیں شاید کسی کو دلچسپی ہو ان میں-

-شہزادی بمباں کی کہانی:

لاہورکی جیل روڈ پرانگریز دور کا ایک قدیم قبرستان ہے جو”گوراقبرستان”کے نام سے مشہور ہے-میرا اس قبرستان میں کئی مرتبہ جانا ہوا ہے-آخری مرتبہ برسوں پہلے پیارے دوست اور منفرد شاعر گلزار وفا چودھری کی تدفین کے موقع پر گیا تھا قبرستان تو سب ہی گنج ہائے گراں مایہ کا خزینہ ہوتے ہیں مگر یہ قبرستان نہ صرف لاہور بلکہ برعظیم کی قدیم تاریخ کا بڑا ذخیرہ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے- قبرستان کے ایک گوشے میں شہزادی بمباں کی قبر بھی ہے جس پر یہ کتبہ کندہ ہے-/۱

اس کتبے پر کسی نا معلوم شاعر کے اس فارسی قطعہ نے مجھے چونکا دیا تھا؀
فرق شاہی و بندگی برخاست
چوں قضائے نوشتہ آید پیش
گر کسے خاک مردہ باز کند
نہ شناسد تونگر از درویش

(جب موت کا بلاوا آتا ہے تو بادشاہی اور بندگی کا فرق ختم ہو جاتا ہے،اگر کوئی قبر کو کھول کر دیکھے تو وہ بتا نہیں سکے گا کہ قبرمیں کوئی بادشاہ دفن تھایا بھکاری ) خلاصہ اس گفتگو کا یہ ہے شہزادی بمباں مہاراجہ رنجیت سنگھ ،جس نے کم وبیش نصف صدی تک بلا شرکت غیرےپنجاب پر حکومت کی تھی، کی پوتی تھی اور زندگی کے آخری ایام تک ماڈل ٹاؤن کے ایک بنگلے میں رہائش پذیر تھی-
بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں بمباں نے ڈاکٹر ڈیوڈ سدرلینڈ سے شادی کر لی تھی جو تب کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہوکے پرنسپل تھے- ڈاکٹر سدر لینڈ کے انتقال کے بعد مہارانی نے کریم بخش سوپرا کو بطور سیکرٹری رکھ لیا تھا جو گھر کی دیکھ بھال اور شہزادی کے دیگر امور انجام دیا کرتے تھے-اپنے والد کی طرح شہزادی بمباں کی آنکھیں انتہائی حسین تھیں جو فروری ۱۹۵۷ ہمیشہ کے لئے بند ہوگئیں اور شہزادی بمباں صوفیہ دلیپ سنگھ لاہور کے گورا قبرستان میں منوں مٹی کے نیچے دفن ہوگئی-