اوراق گم گشتہ

یہ تحریر 393 مرتبہ دیکھی گئی

– ڈاکٹر غلام مصطفئ حبیب الللہ، موسس یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور:

انسانوں کی بھیڑ میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن سے قدرت فلاح انسانیت کےلئےکوئی بڑا کام لینا چاہتی ہے-ویسے تو یہ لوگ عام انسانوں کی مانند ہوتے ہیں مگرحقیقت میں سب سےیکسرالگ ہوتے ہوتےہیں-انہیں لوگوں میں سےایک ڈاکٹر مصطفئ حبیب اللہ بھی تھے- میری خوش قسمتی کہ مجھے کم وبیش پانچ سال تک اُن کے ساتھ بلکہ اُن کے ماتحت کام کرنے کا موقع ملا ہے کہ وہ میرے وائس چانسلر تھے(اگرچہ اُنہوں نےہمیشہ برابری کا برتاؤ روارکھااورمجھےکبھی اپنے ماتحت نہ سمجھا) میرے یونیورسٹی آف ایجوکیشن جانے کا قصہ کچھ یوں ہے کہ جب میں جامعہ ازہر مصر سے پاکستان چیئر کی ذمہ داری سے سبک دوش ہوکر وطن واپس آیا تو لاہور میں کسی کالج میں پروفیسر کی سیٹ خالی نہیں تھیں چار و نا چار ایک ماہ پوسٹنگ کے انتظارمیں گھربیٹھنا پڑا کہ اچانک ایک دن سیکریٹریٹ سے سیکشن آفیسر کا فون آیا کہ لاہور میں ایک سیٹ نکل آئی ہے آج ہی سیکرٹری سے مل کر بات کر لیں میں جب ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ پہنچاتومعلوم ہوا کہ یہ سیٹ کوئر مال کے ٹریننگ کالج میں ہے جو اب ایجوکیشن یونیورسٹی کا ڈویژن آف آرٹس اینڈ سوشل سائنسز بن چکا ہےاوراس کالج میں تقرر اب وائس چانسلر ڈاکٹرمصطفئ حبیب اللہ کےاختیار میں ہے-میں اُنہیں ملنےکے لئےسیدھا یونیورسٹی کے کیمپ آفس پہنچا جو تب سی آر ڈی سی کی بلڈنگ میں وحدت روڈ پر تھا- میں نے اپنا پرانا جامعۂ ازہر کا کارڈ اندر بھجوایا تو فورا” خود ہی باہر آ گئے اور گرم جوشی سےگلےملےاور میری دل جوئی کے لئے بولے-آئیے ڈاکٹر صاحب میں تو کب سے آپ کا منتظر ہوں حالانکہ ہم دونوں صرف ایک مرتبہ مصر میں ملے تھے جب وہ دو سال قبل ایک وفد کے ساتھ جامعۂ ازہر کے دورہ پرآۓ تھے-پھر ہاتھ پکڑ کے ابر اپنے آفس میں لے گئے اور خوب تواضع کی- مجھ سے پوچھا آپ کب مصر واپس جا رہے ہیں؟ میں نے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو کبھی نہیں-کہا کیسے؟میں نے تفصیل بتائی تو انٹر کام پررجسٹرار کو بلایاجوریٹائرڈ کرنل تھے اور کہا کہ خط بناکر لائیں اورسیکرٹری ایجوکیشن سے ڈاکٹر صاحب کی خدمات یونیورسٹی کے لئے مانگیں- پھر ایجوکیشن منسٹر اختر سعید کو فون ملا کراُن سے اسی خواہش کا اظہار کیا-مجھ سے کہا کہ آرڈرہوتے رہیں گے آپ کل سے یونیورسٹی جوائن کر لیں اور وی سی آفس میں میرا ہاتھ بٹائیں ، ایسا دبنگ آدمی میں نے بہت کم دیکھا ہےڈاکٹر صاحب منکسرالمزاج، خوش خلق اور تخلیقی ذہن کے مالک انسان تھے اُن کےذہن میں ہمیشہ نت نئے خیالات جنم لیتے رہتے تھے-بیٹھے بیٹھے اچانک کوئی نیا آئیڈیا اُن کے ذہن میں آتا اور مجھ سے مخاطب ہوتے-ڈاکٹر صاحب اس طرح نہ کر لیں اور پھر اپنا آئیڈیا زیر بحث لاتے جوہمیشہ تعلیمی تنوع یا تحقیق میں اساتذہ کو جدیدسہولیات کی فراہمی کے حوالے کے بارے میں ہوتا-یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور ڈاکٹر صاحب کی اسی تخلیقی اُپچ کا ایک جیتاجاگتاشاہکارہے کہ اس کی تاسیس ڈاکٹر غلام مصطفی حبیب اللہ کے ہاتھوں ہوئی ہے-مجھے ذاتی طور پر علم ہےکہ اس یونیورسٹی کےآئیڈیا سے لے کر پلاننگ ، عمل درآمداورسب سے بڑھ پروجیکٹ کے لئے حکومت کو آمادہ کرنےکےمشکل ترین مرحلے تک ،سب کچھ اُنہوں نے تن تنہا کیاڈاکٹر نے پنجاب بھر میں پھیلےہوئے زنگ آلودہ تالوں میں مقید مدت سے بند ایلیمنٹری ٹیچرز ٹریننگ انسٹی ٹیوٹس کو اپنی انتھک کوشش سے انتہائی قلیل مدت میں یونیورسٹی کے اعلئ تربیتی مراکز میں تبدیل کر دیا بلکہ سکول کے اساتذہ کوتحقیق کی جانب مائل کرکے صوبۂ پنجاب میں ایم فل اور پی ایچ ڈی اساتذہ کی ایک بڑی کھیپ تیار کردی جو آج کل ہمارے ہائیر ایجوکیشن اداروں میں اہم خدمات انجام دے رہی ہےمجھے فخر ہے کہ میں اس جدوجہد میں ہمہ وقت اُن کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلتا رہا اورہمیشہ اُن کے شانہ بہ شانہ رہا-وہ ایک معروف ریاضی دان اورمحقق ہونے کےساتھ پاکستان کی تعلیمی ترقی کے داعی تھےمجھے یقین ہے کہ اگرہمیں ایک دواور ڈاکٹر مصطفئ حبیب الللہ مل گئے ہوتے تو آج ہم تعلیمی ترقی کےاوج ثریا تک پہنچ چکے ہوتے؀

ہر گز نہ میرد آں کہ دلش زندہ شدبعشقثبت است بر جریدہ عالم دوام ما