اوراق گم گشتہ

یہ تحریر 383 مرتبہ دیکھی گئی

-خانوادۂ آزاد کا وارث’ دیرینہ دوست’آغا سلمان باقر :

خانوادۂ آزادکی تاریخ قابل رشک نیز حُریت فکر وعقل کی آئینہ دار ہےمولانا آزاد کے والد اور آغاسلمان باقر کے جدامجد مولوی محمد باقر دہلی کالج کے استاد اور دہلی کے معروف صحافی تھے-دہلی کالج کی ملازمت کے زمانہ میں ان کی علمی و تحقیقی خدمات کے پیش نظر کلکٹردہلی مٹکاف کی سفارش پرحکومت نے اُن کا دہلی کالج سے کلکٹر کے دفتر میں تبادلہ کردیا جہاں وہ ترقی پا وہ تحصیلداردہلی کےعہدےتک پہنچ گئے-بعد ازاں انہوں نے یہ ملازمت ترک کی اور “دہلی اُردواخبار”کی ادارت سنبھال لی یہ اخبار ہندوستان کی آزادی کا داعی تھا- مولوی محمد باقر جنگ آزادی کے پُرجوش حامی تھے اور آزادی کی جنگ میں قلمی میدان میں سرگرم صحافی تھے جنانچہ اسی جرم کی پاداش میں ۱۶-ستمبر ۱۸۵۷ء کو گرفتار کئے گئے اور بغیر کسی مقدمے کے دو دن بعد انہیں توپ کے گولے سے اڑا دیا گیا اورافسوس کہ یہ سب اُن کے بیٹے مولانا آزاد کی آنکھوں کےسامنے کیا گیا- مولانامحمدحسین آزاد نابغۂ روزگار تھے اور اپنےمعاصرین میں نمایاں تھے بلکہ بعض حوالوں سےاپنے بیشتر معاصر ین سےآگے تھے “سخندان فارس” سے”آب حیات” تک ،کیا ہے جو درویش صفت مولاناآزاد کےکشکول میں نہیں!

برعظیم کےاسی فاضل علمی خانوادہ کے موجودہ جانشین آغا سلمان باقر ہیں جن کی ادبی اور تصنیفی خدمات کا دائرہ وسیع اور کثیر الجہت ہے-سلمان باقر بےشمارکتب کے مصنف ہیں جن میں تحقیقی کتب سر فہرست ہیں شاعر ی کےمیدان میں بھی اُن کا مرتبہ بہت بلند ہے-اس تمام ادبی پس منظر میں آغا سلمان باقر کو بجا طور پر کوخانوادۂ آزاد کی ادبی و شعری روایت کا حقیقی وارث قرار دیاجاسکتاہے-آغاسلمان باقر سےمیرا دیرینہ اورقریبی تعلق ہے-وہ اخلاص و مروت کا مجسمہ اور مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک ہیں-گزشتہ ہفتے لمبے عرصے کے بعد میں اُن کے گھر ملاقات کے لئے گیا تھا،میں نے اُنہیں ویسا ہی سلمان باقر پایا جیساپچاس سال قبل تھے جب ہم پہلی مرتبہ اوریئنٹل کالج میں ملے تھےگفتگو میں وہی علمی تمکنت،محبت اور اخلاص کا وہی اندازالللہ تعالئ اُن کوہمیشہ سلامت رکھے-اس ملاقات کے دوران میں ناصر کاظمی کا یہ شعر ہمہ وقت میرے ذہن میں گونجتا رہا جو میں سلمان باقر کی نذر کرتا ہوں ؀۔

آج دیکھاہےتجھ کو دیر کے بعد

آج کا دن گزر نہ جائے کہیں