اوراق گم گشتہ

یہ تحریر 626 مرتبہ دیکھی گئی

دوسرا ورق:

چھجو دا چوبارہ:
امریکہ میں تھا تو لاہور کے ایک دوست نے میسج کیا کہ واپس آجاؤ تمہارے بغیر لاہوراداس ہو گیا ہے پھر لکھا کہ جو سکھ چھجو دے چوبارے نہ بلخ نہ بخارے-

چھجو کے چوبارے والی یہ کہاوت توزباں زد عام ہے میں نے سوچا کیوں نہ آج چھجو کے بارے میں کچھ لکھا جائے اور اُس کے چوبارے کا تعارف بھی کروایا جائے جو اس کہاوت کی وجۂ تسمیہ ہے-
بھگت چھجورام بھاٹیہ شاہجہاں /جہانگیر کے دور کے ایک آزدمنش وسیع المشرب صوفی تھے جو لاہور کےرہنے والےتھے- پیشے کے اعتبار سے وہ صراف اور بہت متمول تھے مگر مزاج اُن کا فقیرانہ تھا اور انہیں صوفیاء اور فقراءسے خاص رغبت تھی پھر ایک وقت آیا کہ وہ تارک الدنیا ہوگئے اور اُنہوں نے زندگی کے باقی ایام میں ریاضت و عبادت کے ساتھ ساتھ خلق خدا کی خدمت کو شعار بنا لیا-چھجو بھگت کی زندگی میں اس تبدیلی کا بنیادی محرک حضرت میاں میر اور میاں وڈا کا فیض صحبت تھابھگت چھجو کا لاہور کے ان بزرگوں سے بڑا قریبی تعلق تھا اور وہ باقاعدگی کے ساتھ ان کی صحبت عارفانہ سے فیض یاب ہوتے تھےاب چھجو کے ڈیرے پر فقیروں اور سادھوؤں کامیلہ لگا رہتا، وہاں ہر مذہب، رنگ اور ذات کے لوگ ایک لڑی میں پروئےہوئے دانے نظر آتے اور صرف ایک ذات کی مالاجبتے تھےجو سب کاخالق ، مالک اور اور پالن ہار ہے-

فقیروں اور سادھوؤں کی خدمت کرکے وہ بہت سکون محسوس کرتےیہاں تک کہ اپنےہاتھ سےاُن کا کھانا بناتے اور اپنے ہوادار چوبارے پر اُن کےلئے شب بسری کا بندوبست کرتےتھے،صبح اُن کو رخصت کرتے ہوئےزاد راہ کےطور پر نقدی بھی دیتے تھے -چھجو بھگت انسان دوست، وسیع المشرب اور وحدانیت پر ایمان رکھنے والےصوفی تھے- معروف مورخین سیدمحمد لطیف اور نوراحمد چشتی نےچھجو بھگت سے کئی کرامات منسوب کی ہیں،ایک مرتبہ اُنہوں نے اپنےمعتقدین کے لئے پانی کا چشمہ جاری کردیا تھا-چھجو بھگت کی وفات بھی محیر العقول حالات میں ہوئی تھی- کہا جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ اوپر اپنےحجرےمیں تخلیےمیں عبادت کیا کرتے تھےاورلکڑی کی سیڑھی کے ذریعے اوپر جانا اُن کا معمول تھاایک روز حسب معمول چھجوبھگت عبادت وریاضت کے کے کئے اوپر حجرے میں گئے مگر خلاف معمول سیڑھی اوپر کھینچ لی اور پھر کبھی حجرے سے نیچے نہیں آئے یعنی الللہ کو پیارے ہوگئے-لاہور میں سرائے رتن چند کےجنوب اور میو ہسپتال کے وسط میں چھجو دا چوبارہ کبھی ایک بہت خوبصورت وسیع تاریخی عمارت تھی جو اگرچہ اب زمانے کی چیرہ دستیوں کی نذر ہوکرمعدوم ہو چکی ہےمگر آج بھی اس کے آثار قدیمہ کی باقیات میو ہسپتال لاہور کی شمس شہاب الدین صحت گاہ میں فقط ایک حجرے کی شکل میں موجودہے جہاں مریضوں کےلواحقین نماز ادا کرتے ہیں-
چھجو دا چوبارہ عرصہ تک لاہور کی تہذیبی اور ثقافتی زندگی کا مرکزرہنےکےساتھ ساتھ عوام الناس کے لئے سرچشمۂ فیض تھاجو ماضی کے دھندلکوں میں کہیں گم ہوکر آج بھی کہاوت کی شکل میں زندہ ہے؀

ہرگز نہ میرد آں کہ دلش زندہ شدبعشق

ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما۔