انوکھا لاڈلا

یہ تحریر 532 مرتبہ دیکھی گئی

مدھن بھیا دیکھنے میں نہایت بھلے مانس لگتے ۔ہماری بڑی نانی یعنی نانی کی بہن کے نواسے تھے ۔ بیچارے کے باپ ان کی دنیا میں آمد سے پہلے خالق حقیقی سے جا ملے ۔بیاہ کو چھ ماہ بھی پورے نہ ہوئے تھے ۔مہندی رچے ہاتھوں والی کم عمر صفیہ خالہ سر سے بیوگی کی چادر لپیٹے بابل کی دہلیز پر لوٹ آئیں۔ ایک دفعہ انہیں نکاح ثانی کی تجویز پیش کی گئ تو مٹی کا تیل اور ماچس لیکر حرام موت مرنے کو تل گئیں تو انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ۔مدھن بھیا کو جی بھر کے لاڈ دلار میں ماموں خالاوں نےبگاڑ ا ۔ آٹھ سال کی عمر میں لوٹھا کے لوٹھا اسکول پڑھنے بھیجے گئے ۔ ڈ سے توتلے تھے استانی نے سبق سنانے کو کہا تو جیسے گھر میں لڈیاتے تھے اور ننھیالی واری صدقے جاتے بولے
“ٹم اپنے بچوں ٹو ڈھوڈھو پلاؤ ہم نہیں سناٹے”
یہ استانی کی دکھتی رگ تھی اولاد نہ ہونےکی وجہ سے سوکن لابٹھائ تھی میاں نے کلیجے پر مونگ دلنے کے لیے ۔جلال میں آکر چھڑی مدھن میاں کی کمر پر توڑ ڈالی اور گھر بھجوادیا ۔ پھر موصوف نے پلٹ کر اسکول کی شکل نہ دیکھی ۔
دن بھر کھیلنےکھانے اور ادھر ادھر پھرنے کے سوا کچھ نہ کرتے ۔
نانی کے خوف سے انہیں کسی نے کچھ نہ کہا اور کوئ کہتا بھی کیوں ! ماں گوشئہ تنہائ میں پڑی رہتیں باپ سر پہ ہوتے تو ان کے کل کی فکر کرتے ۔ یونہی پھرتے پھراتے بیس پچیس سال کے ہوگئے ۔ سنا تھا گلابی رنگ کے لال گلابوں کے حاشیوں والے رائٹنگ پیڈ پر کسی خطاط سے محبت نامے لکھوا رکھے تھے ۔ زبان ان کی قلم بھاڑے کا ۔ ایک ورق پر مکمل حال دل ۔ صرف مبینہ محبوبہ ومعشوقہ کے نام کی جگہ خالی تھی ۔ جب کوئ حسینہ دیکھتے فٹ اس کے نام کاپہلا لفظ خالی جگہ پرکر کے پیش کردیتے ۔ پکڑے جانے پر دو چیزیں ان کو الزام سے بچانے آڑے آجاتیں ۔ ایک تو ان کی نانی حضور اور دوسرے ان کی ” ان پڑھی ” ۔ ہر بار صاف بچ نکلتے ۔ خاندان محلہ رشتہ دار سمدھیانےکی ہرمعقول صورت لڑکی کو گلابی لفافہ کا یہ اعزاز بخش چکے تھے ۔ کنیاوں کے ہاتھوں ذلیل ہونے کے بعد مہینوں سرد آہیں بھرتے پھرتے یہاں تک کہ کوئ نئ صورت ان کا دل جیت لیتی پھر گلابی لفافہ لیے کوئے یار کو چل دیتے خدا جانے ان کے دل میں ٹھاٹھیں مارتے محبت کے دریا کب تک بہتے۔ لیکن وقت بھی کب تک ان کے موافق رہتا ۔پہلے ماں اور پھر نانی داغ مفارقت دے گئیں ۔ استانیوں استادوں سے پٹنے والوں نے رفعتیں پائیں اور مدھن بھیا خودی کو بلند کرتے رہے ۔ کوئ ڈاکٹر ہوا کوئ انجینئر بنکر بن گیا تھا اور یہ موصوف نانی کے ہاتھ کے تر نوالے کھاتے اینڈتے پھرے رہے تھے ۔اب آبائ حویلی جائیداد بکنے حصے بٹ جانے کے بعد محبتوں کے مارے مدھن بھیا صفیہ خالہ کے جہیز کی مسہری ، اپنے جھولے ، نانی کی نماز کی چوکی ،چند ٹرنک پرانے کپڑوں سے بھرے لیے دوکمروں کے مکان میں منتقل ہوگئے۔ سب رشتہ داروں پیاروں نے انکھیں ہی پھیر لی تھیں ان کے لچھن بھی رفتہ رفتہ سب پر کھل گئے تھے ۔ بہوبیٹیوں والے ایسے دل پھینک کوکہاں گھروں میں گھساتے ۔ کسی کے گھرجاتے بھی تو مہمان خانے میں بٹھاکر رخصت کردیے جاتے ۔ خوددار تو بہت تھے خود ہی جانا آنا چھوڑ دیا ۔ رشتہ دار ملتےملاتے نہ تھے لیکن ان کی ٹوہ میں رہتے ۔ مدھن بھیا کے بارے میں خبریں اڑتی رہتیں
پتہ چلا بمشکل ویگن ڈرائیوری کی نوکری ملی تھی ۔ کسی نے بتایا ویگن میں دکھی دکھی گیت بجاتے سر جھکائے سٹیئرنگ گھماتے سڑکوں پر دھول اڑاتے پھرتے ۔ گلابی لفافے اور خوشبو میں بسے رقے کب کے قصئہ پارینہ ہوگئے تھے ۔
وقت نے پھر کروٹ بدلی ویگن کے مالک نے ان کی خاندانی نجابت اور شرافت دیکھ کر اپنی فرزندی میں لے لیا۔ مدھن بھیا کی شادی کی خبر بھی سرسری سنی اور پھر بھلادی ۔
آج میرے گھر سے قریب ہی بنک کے باہر بجلی گیس کے بل جمع کرانے والی قطار میں مدھن بھیا مل گئے۔ افسوس ہوا دیکھ کر کہاں یہ تھکا ہارا بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑا شخص اور کہاں چمکتی آنکھوں والے فلمی ہیر و جیسے مدھن بھیا ۔ میرےتعارف کرانے پر بہت مشکل سے پہچانے یوں لگ رہا تھا جان بوجھ کر انجان بن رہے ہوں ۔ زبرستی نا نا کرتے کو کھینچ کر گھر لے آئ بچوں سےملایا انہیں بتایا یہ بھی تمہارے ماموں لگتے ہیں ۔ ناخلف کہیں کے ! نومولود ماموں کو دیکھکر قطعاً پرجوش نہ ہوئےاور اپنے اپنے گیجٹس میں دوبارہ کھوگئے ۔
مدھن بھیا اور میں بہت دیر نانی کی حویلی کے دن یادکرتے رہے ۔ میں نے چھیڑنے کے لیے کہا
مدھن بھیا مجھے آپ نے گلابی لفافہ دیا تھا بجیا کی شادی پر ! یاد ہے ! میں نے نانی کی چوکی پر رکھا اور گم گیا تھا کیا لکھا تھا اس میں ذرا سا ہنسے لگاجیسے سسک رہے ہوں اور بولے
گڑیا اب پھر خطاط ڈھونڈتا پھر رہا ہوں معافی نامے لکھوانے کے لیے ۔