انتظار حسین کا ناول “بستی”

یہ تحریر 7533 مرتبہ دیکھی گئی

انتظار حسین افسانہ نگار،ناول نویس، مترجم،ڈرامہ نگار، نقاد، تذکرہ نگار، سوانح نویس، سفر نامہ نگار،صحافی، مدون،مدیر، بچوں کا ادب۔ انتظار حسین نے اپنی پہلی کہانی ”قیوما کی دکان“مختار صدیقی کی صدارت میں،حلقہ ارباب ذوق میں،۴۸ ۱۹ء میں پیش کی تھی۔ اس لیکھے جوکھے میں طالب علمی کے زمانے کی تحریریں شامل کریں تو لگ بھگ پون صدی کا قصہ بن جاتا ہے۔دو چار برس کی بات نہیں رہتی۔تخلیق کی دھن اور اتنی پکی،اپنی ذات کی دریافت کی لگن اور ایسی سچی۔نحیف جان اور اتنے جنجال۔ ایک سر اور ایساسودا۔

انتظار صاحب پر بہت لکھا گیا۔ہندوستان سے ۷۵۲صفحات پر مشتمل تنقیدی تحریروں کا ایک انتخاب چھپ چکا ہے۔یہ ۱۹۹۶ء کی بات ہے۔ جس لکھاری کے بارے میں اتنا لکھا جا چکا ہو اور اس سے کہیں زیادہ بولا جا چکا ہو،اس کے بارے میں کچھ لکھنایابات کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔کئی طرح کے خوف دامن گیر رہتے ہیں۔پہلاکھٹکا تو یہ لگا رہتا ہے کہ میں اس میں کوئی اضافہ بھی کر سکوں گا یا نہیں۔دوسرا ڈر یہ کہ میں پہلے کا لکھا دہرا ہی نہ دوں۔ تیسرا خطرہ اپنے نتائج کے استخراج سے متعلق ہوتا ہے یا آدمی کسی تاثر یا تعصب کی نظر بھی ہو سکتا ہے۔

اس جگہ انتظار حسین کے ناول”بستی“ کے بارے میں کچھ لکھنا ہے اور میں درج بالا صورت حال کا سامنا کر رہا ہوں۔ ”بستی“ پہلی مرتبہ ۱۹۷۹ء  میں چھپا۔ اس سے پہلے ”چاندگہن“۱۹۵۳ اور ”دن اور داستان“۱۹۶۲چھپ چکے تھے۔ ”تذکرہ“اور ”آگے سمندر ہے“ بعد میں چھپے۔ ”بستی“کی تخلیق سے پہلے اردو ناول کی روایت جڑ پکڑ چکی تھی۔رتن ناتھ سرشار، عبدالحلیم شرر، ڈپٹی نذیر احمد،مرزا ہادی رسوا،سجاد ظہیر،عزیز احمد، قرۃالعین حیدر، عبداللہ حسین اس روایت کو مستحکم کر چکے تھے۔”فسانہ آزاد“،”سیرکہسار“،”فردوس بریں“،”ابن الوقت“، ”توبتہ النصوح“،”امراء جان ادا“، ”لندن کی ایک رات“، ”ایسی بلندی ایسی پستی“، ”آگ کا دریا“، ”آخر شب کے ہمسفر“، ”اداس نسلیں“چھپ چکے تھے۔ان کے بعد بستی نے اپنی آمد کا اعلان کیا۔

یوں تو یہ ناول ۱۹۷۹ء سے ہمارے پاس تھا مگر ۲۰۱۳ میں، مین بکر بین الاقوامی ادبی انعام میں شارٹ لسٹ ناول نگاروں کی فہرست میں اس ناول نویس کی شمولیت نے دھوم مچادی۔اچھا لگا۔ مغرب والوں کو بھی کوئی ہمارا لکھنے والا پسند آیا۔اور پھر آج کل تو مغرب کی جے ہے اچھی خبریں تو مغرب سے آتی ہیں۔مشرق سے تو جب بھی آتی ہے مغرب کے ”التفات سے“سناونی آتی ہے۔فلسطین، عراق، ایران، شام، افغانستان، مصر، یمن، برما، پاکستان کی صورتحال آپ کے سامنے ہے۔ پاکستان میں زبان اور مذہب کے نام پردہشت گردی اور امریکہ کی طرف سے کئے جانے والے ڈرون حملوں کے نتیجے میں ملنے والی سناونیاں ہم بھلا کیسے فراموش کر سکتے ہیں۔

اب”بستی“پر آتے ہیں۔ انتساب کے بعد جو محمد حسن عسکری صاحب کے نام ہے  بات کا آغاز کرتے ہیں۔ اگلے صفحے پر قران کریم کی یہ آیت مبارکہ درج ہے: ”لااقسم بھذا البلد“۔ترجمہ:میں اس شہر کی قسم کھاتا ہوں۔ اس کے فوراً بعد آیت کریمہ ملاحظہ ہو:”وانت حل بھذالبلد“۔ترجمہ: اور آپ اس شہر میں مقیم ہوں۔یہ سورۃ البلد کی ددآیتیں ہیں۔اس جگہ شہر سے مراد شہر مکہ ہے جس میں اس وقت، جب اس سورۃ کا نزول ہوا، نبی اکرمﷺ کا قیام تھا۔ آپﷺ کا مولد بھی یہی شہر تھا۔یعنی اللہ نے آپﷺ کے مولد و مسکن کی قسم کھائی جس سے اس کی عظمت کی وضاحت ہوتی ہے۔یہاں اس وقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جب مکہ فتح ہوا تھا۔ اس وقت اللہ نے نبی ﷺ کے لیے اس بلد حرام میں چند ثانیوں کے لیے قتال کو حلال فرما دیا تھا اگرچہ اس میں لڑائی کی اجازت نہیں تھی۔صحیح بخاری میں درج ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:”اس شہر کو اللہ نے اس وقت سے حرمت والا بنایا ہے،جب سے اس نے آسمان و زمین پیدا کیے ہیں۔ پس یہ اللہ کی ٹھیرائی ہوئی حرمت سے قیامت تک حرام ہے، نہ اس کا درخت کا ٹا جائے، نہ اس کے کانٹے اکھاڑے جائیں، میرے لیے اسے صرف دن کی ایک ساعت کے لیے حلال کیا گیاتھا۔“

یہ آیت اس ناول کی کلید ہے اور یہی اس ناول کے پلاٹ کا مرکزہ ہے۔انتظار حسین کی”بستی“ناول نگار کا رومانس ہے جس میں اس کا بچپن گزرا ہے۔روپ نگر، ویاس پور، لاہور اور لاہور کے اندر شیراز۔ناول نگار نے اس ناول کو گیارہ حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ظاہر ہے ہر حصے میں بیان کیے جانے والے مناظر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اس اختلاف کے باوجود ان میں ایک منطقی ربط موجود ہے۔ روپ نگر ناول نگار کی جنت گم گشتہ ہے:

”جب دنیا ابھی نئی نئی تھی، جب آسمان تازہ تھا اور زمین ابھی میلی نہیں ہوئی تھی، جب درخت صدیوں میں سانس لیتے تھے اور پرندوں کی آوازوں میں جگ بولتے تھے۔ کتنا حیران ہوتا تھا وہ اردگرد کو دیکھ کر کہ ہر چیز کتنی نئی تھی اور کتنی قدیم نظر آتی تھی۔ نیل کنٹھ، کھٹ بڑھیا، مور، فاختہ، گلہری، طوطے جیسے سب اس کے سنگ پیدا ہوئے تھے، جیسے سب جگوں کے بھید سنگ لیے پھرتے ہیں۔ مور کی جھنکار لگتا کہ روپ نگر کے جنگل سے نہیں برندا بن سے آ رہی ہے۔کھٹ بڑھیا اڑتے اڑتے اونچے نیم پہ اترتی تو دکھائی دیتا کہ وہ ملکہ سبا کے محل میں خط چھوڑ کے آرہی ہے اور حضرت سلیمان کے قلعے کی طرف جا رہی ہے اور گلہری منڈیر پردوڑتے دوڑتے اچانک دم پہ کھڑی ہو کے چک چک کرتی تو وہ اسے تکنے لگتا اور حیرت سے سوچتا کہ اس کی پیٹھ پہ پڑی یہ کا لی دھاریاں رام چندر جی کی انگلیوں کے نشان ہیں اور ہاتھی تو حیرت کا ایک جہان تھا۔اپنی ڈیوڑھی میں کھڑے ہو کر جب وہ اسے دور سے آتا دیکھتا تو بالکل ایسا لگتا کہ پہاڑ چلا آ رہا ہے۔ یہ لمبی سونڈ، بڑے بڑے کان پنکھو ں کی طرح ہلتے ہوئے، تلوار کی طرح خم کھائے ہوئے دو سفید سفید دانت دو طرف نکلے ہوئے اسے دیکھ کے وہ حیران اندر آتااور سیدھا بی اماں کے پاس پہنچتا۔۔۔“

اس بہشت کے بیان میں ناول نگار نے کمال ہنرمندی سے کام لیا ہے۔ ایک ایک جگہ، ایک ایک رشتہ، رہن سہن، رسم و رواج، غم، خوشی، حجاب، روایت، قدامت، وبا، علاج، روشن خیالی، غرض اُس سماج کا ایک نقشہ ہماری آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے۔ ذاکر، ابا جان، صابرہ، بھگت جی، حکیم بندے علی، منشی مصیب حسین اس گم گشتہ بہشت کے روشن کردار ہیں۔

اس کے بعد ایک پیچ پڑ جاتا ہے۔ بساط اُلٹ جاتی ہے۔ ذاکر کو اپنے خاندان کے ہمراہ اپنا روپ نگر چھوڑنا پڑ جاتا ہے۔ نیا دیس، نئے لوگ، نئی رسمیں، نئے غم، نئی خوشیاں اور اس تمام کے ساتھ رُوپ نگر کی یاد کی پھانس۔ پرانی حویلی، کربلا، پرندے، جانور اور فطرت۔ نئے دیس میں ذاکر کو جب بھی کوئی نیا دُکھ ملتا ہے اُسی وقت اُسے آسودگی کے لمحات یاد آ جاتے ہیں۔ اپنا ماضی آئینہ بن کر حال کے متوازی کھڑا ہو جاتا ہے۔ نیا دیس، پاکستان اور اس کا شہر لاہور اور لاہور میں شیراز۔ شیراز میں ذاکر اپنے لیے نئی دنیا تعمیر کرتا ہے۔ افضال، عرفان، اجمل، سلامت۔ اس نئی دنیا کے نئے کردار۔ ان کرداروں کے درمیان ذاکر کو آسودگی تو ملتی ہے لیکن پُرانے غم برابر کچوکے لگائے رکھتے ہیں۔ چین کہیں نام کو بھی نہیں ملتا۔ ہجرت اور اس کے بعد سانحے پر سانحہ۔ 47، 58، 65، 71۔ آشوب در آشوب در آشوب کی صورت حال ہے۔ 65 کی اجتماعیت محض چھ سال میں انتشار میں بدل گئی اور ہم بشارتوں کا انتظار کرتے رہے۔

یہاں میں نے اس ناول کی روداد بیان کی ہے۔ اس روداد سے ناول کے اندر کا حال نہیں کھلتا۔ اس ناول کی جزئیات میں جھانکا جائے تو اس میں بیان کردہ ہر منظر کی ایک کہانی ہے۔ روپ نگر میں بیان کیے جانے والے مناظر کی مدد سے پتا چلتا ہے کہ وہ معاشرہ آپس میں کتنا جڑا ہوا معاشرہ تھا۔ پنڈت، بھگت جی، حکیم بندے علی، منشی مصیب حسین، ذاکر، ذاکر کا باپ ایک ہی گھر کے فرد لگتے ہیں۔ روپ نگر کے تمام باسی ذاکر کے ابا جی کا احترام کرتے ہیں اور ان سے مذہبی رسومات میں مشاورت کرتے ہیں اور جب ان کی گرفت روپ نگر پر ڈھیلی پڑتی ہے اور مذہبی رسوم میں اجتہاد کی صورتیں سامنے آتی ہیں تو منظر بدل جاتا ہے:

”روپ نگر پہ ابا جی کی گرفت ڈھیلی پڑتی جا رہی تھی۔ بی اماں اللہ کو پیاری ہو چکی تھیں اور بستی میں بجلی آ گئی تھی۔ ابا جان بجلی کو مسجد میں آنے سے نہ روک سکے، جس طرح وہ تاشے کو محرم میں راہ پانے سے نہ روک سکے تھے۔ بجلی کے خلاف محاذ، زمانے کی بدعتوں کے خلاف ان کا آخری محاذ تھا۔ اس کے بعد وہ خانہ نشین ہو گئے۔ گھر ہی میں نماز پہ بیٹھے بیٹھے سفر کے لیے استخارہ کیا۔ استخارہ آ گیا، سفر کا سامان ہونے لگا۔“ (۲)

       (انتظار حسین، ۱۹۸۳ء)

روپ نگر پر ذاکر کے ابا کی گرفت کا ڈھیلا پڑ جانا ایک بڑا تہذیبی حادثہ ہے۔ ہند اسلامی تہذیب میں نئی کروٹ اور شاید یہی وہ گرفت تھی جس نے اقدار کو سہارا دیا ہوا تھا۔ اس کے بعد کیا ہوا۔ عالم موچی بن گئے اور موچی عالم، جوتے کے تسمے باتیں کرنے لگے، بیٹیاں برمانگنا شروع ہوئیں اور لکڑیاں بولنا شروع ہو گئیں۔ اس ناول میں گرفت کا ڈھیلا پڑ جانے والا مکالمہ عام مکالمہ نہیں۔ مجھے یہ الفاظ تہذیبی انہدام کا پتا دیتے نظر آتے ہیں۔ روپ نگر میں طاعون اور اُس سے بچنے کے لیے اباجی کا لکھا ہوا تعویز۔ روپ نگر میں بجلی کا آنا۔ صابرہ کاویاس پور میں رہنے کا فیصلہ۔ مسجد میں بجلی کا لگ جانا۔ عبادت میں بجلی کی وجہ سے کھنڈت پڑنا۔ عزاداری میں تاشوں کا بجنا۔ اپنی اپنی سطح پر ایک تہذیب کا بستر لپٹنے اور نئی روشنی کی آمد کا پتا دیتے ہیں۔

ناول نگار آدم زاد ہے۔ آدم جنت سے نکالے گئے تھے اور آج تک آدم زاد اُسی بہشت کو تلاش کرتا پھر رہا ہے۔ ہجرت کی کئی سطحیں ہوتی ہیں۔ پہلی ہجرت آدم کا زمین پر آنا۔ دوسری ہجرت بطن مادر سے انسان کا جدا ہو کر ان دیکھی دنیا میں آنا۔ تیسری ہجرت کا تعلق سرحد سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان بے چین و بے قرار نظر آتا ہے۔

انتظار حسین اپنے فکشن میں ایک ہنر آزماتے ہیں۔ اس ہنر کی طرف مظفر علی سیّد نے کمالِ مہارت سے اشارہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انتظار حسین ایک طرف ماضی کو رکھتے اور اس کے بالمقابل حال اور ان دو زمانوں کے تقابل و تصادم سے اپنی جزئیات کو طاقت دیتے ہیں۔ ناول نگار دو آبہ میں پلے بڑھے۔ گنگا کے کنارے پیدا ہوئے اور جمنا کے کنارے تعلیم حاصل کی۔ راوی کے کنارے عمر بسر کی اور ساری زندگی فرات کا سامنا رہا۔ یہاں گنگا جمنا ماضی، راوی حال اور فرات کو اسطوری ماضی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

اس ناول کا کرداری مطالعہ کیا جائے تو اس مقصد کے لیے ایک فرانسیسی اصطلاح کا سہارا فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ Roman a clef  اس کا مطلب ہے ناول مع کلید۔ اس ناول کا ہر کردار اپنی حیثیت میں انگلی پکڑ کر قاری کی رہنمائی کرتا نظر آتا ہے۔ ذاکر، افضال، عرفان، سلامت، اجمل کے کردار اس صورت حال کی عمدہ مثالیں نظر آتے ہیں۔

آخر میں ایک جملے کی وضاحت ضروری ہے اور وہ جملہ ہے کہ یہ بشارت کا وقت ہے۔ ہم ۱۸۵۷ء سے آج تک بشارتوں کے منتظر ہیں۔ غدر میں ہم ایران کا انتظار کرتے رہے۔ ۱ ۷ میں امریکی بیڑے کا راستہ دیکھتے رہے۔ بیڑے نے آنا تھا نہ آیا۔ اس صورت حال میں بستی ایک ناول کے ساتھ ساتھ ایک قمچی کا روپ دھار لیتا ہے جس کا نشانہ ڈیڑھ سو سال سے لے کر آج کے انسان کی کمر پر ہے۔ ہم ڈیڑھ سو سال سے ایک ہی طرح کا مزاج رکھتے ہیں۔ باتیں بہت کرتے ہیں مگر کام والا خانہ خالی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انتظار حسین کے اس ناول بستی میں اکثر کردار ہوٹلوں میں بیٹھے رہتے ہیں یا لایعنی گفتگو کا سہارا لیتے نظر آتے ہیں۔ کسی کے پاس کوئی لائحہ عمل ہی نہیں۔ ہر طرف بے معنویت پھیلی ہوئی ہے جس میں وہ اپنی آوازیں سن سن کر خوش یا ناراض ہوتے رہتے ہیں۔

بستی میں وقت کو جس طرح زاویے بدل بدل کر دیکھا گیا ہے۔وہ اس ناول کو منفرد بناتا ہے۔ ایک تو ذاتی ماضی ہے، دوسرا اجتماعی ماضی ہے اور پھر ذاتی حال ہے۔ ناول کے نصف آخر میں ذاتی حال اور اجتماعی ماضی آپس میں گڈمڈ ہو گئے ہیں۔ پتا چلتا ہے کہ جس آشوب سے ناول کا مرکزی کردار اور اس کا گرد و پیش دوچار ہے وہ نیا نہیں۔ یہ قیامتیں وہ ہیں جن کی جڑیں تاریخ میں دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ جو الم ناکی دیکھنے کو ملتی ہے وہ یہ ہے کہ آشوب کو تکرار ہے یعنی ہر پھر کر اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ذاتی ماضی جو بچپن اور لڑکپن میں حاصل آزادی اور طرح طرح کی حیرت سے عبارت تھا کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔ عمر جوں جوں گزرتی جاتی ہے بہت پرانا ذاتی ماضی روشن تر اور محبوب تر معلوم ہوتنے لگتا ہے اور ذاتی حال بے معنی، وارداتوں کا ایک الجھاوا۔ انتظار صاحب نے ان کیفیتوں کو بڑی ہنرمندی سے بستی میں سمویا ہے۔ ناصر کاظمی کا یہ شعر انتظار حسین پر صادق آتا ہے:

جنگل میں ہوئی ہے شام ہم کو

بستی سے چلے تھے منہ اندھیرے

حوالہ جات:

۱۔             انتظار حسین، بستی، لاہور: سنگِ میل پبلی کیشنز، ۱۹۸۳ء، ص۷

۲۔            ایضاً  ،  ص۳۷

سلیم سہیل
http://auragesabz.gamecraftpro.com/%d8%b3%d9%84%db%8c%d9%85-%d8%b3%db%81%db%8c%d9%84/