امریکا میں نوے دن

یہ تحریر 672 مرتبہ دیکھی گئی

دسواں صفحہ:

امریکہ کے فرصت کے ایام میں ترتیب دئے گئے اپنے اساتذہ کے گلدستہ کے بعداب یہ میری دوستوں کے لئےمحبتوں کا گلدستہ آپ کےذوق مطالعہ کی نذر- یہاں ایک وضاحت کہ میں نے اپنے  بہت ہی  پیارے استاد اور محسن ڈاکٹر ناظر حسن زیدی صاحب پر بھی لکھاتھا مگر پچھلی قسط میں شامل نہیں کرسکا چونکہ مجھے اُن کی تصویر یہاں مل نہیں سکی تھی بہرحال اب یہ تحریر میں تصویر  کے بغیر ابتداء میں پیش کر رہا ہوں۔

مت سہل ہمیں جانو:

ڈاکٹر ناظر حسن زیدی اُن شخصیات میں سے ہیں جن کے بارے میں بآسانی ثبت است برجریدۂ عالم دوام ماکہاجا سکتا ہے ڈاکٹرناظرصاحب جیّد عالم مسحورکن مقرر ہفت زبان مترجم،دقت نظرکے حامل محقق،ہمہ جہت فلسفی اور سب سے بڑھ کر منکسرالمزاج انسان تھے، حافظہ بلا کا پایا تھا میر انیس و دبیر کے پورے کے پورے مرثیے، میر حسن اورنسیم کی پوری پوری مثنویاں اور شعراء کے پورے کے پورے دیوان انہیں ازبر تھے استاد محترم ڈاکٹر خواجہ زکریا نے”نوائے وقت” کے اپنےکسی کالم  میں لکھاتھا کہ ناظر صاحب کو مختلف شعراء کے کم از کم پچاس ہزار اشعار یاد تھےدیکھنے میں وہ بالکل سیدھے سادےعام سےشخص لگتے تھےتنگ مہری کا پاجامہ گرمی ہو سردی سوتی اچکن قراقلی ٹوپی, ہاتھ میں سائیکل جس پر وہ کم ہی سوار ہوتے تھے زیادہ تر سائیکل ہی اُن کو زیر بار کرتی تھی-علمی سوچ و بچار میں اتنے مگن ہوتے کہ اکثر بھول جاتے کہ سائیکل کہاں کھڑی کی تھی؟ ڈھونڈتے پھرتے یا ہمیں دوڑانے کہ دیکھو سائیکل گئی کہاں ، میں نے تو یہیں کھڑی کی تھی  تو یہ تھے میرے انتہائی محبوب استاد-خدا رحمت کند ایں عاشقان نیک طینت را-میرے نزدیک ڈاکٹر ناظر زیدی صاحب مولانا شبلی نعمانی، حافظ محمودشیرانی اور ڈاکٹر مولوی عبدالحق کے قبیلےسے تعلق رکھتے تھے-علمی تجسس کا یہ عالم کہ کوئی نکتہ سامنے آتا اور کاغذ پاس نہ ہوتا تو اپنے پائنچے پرہی لکھ لیتے اور اسی طرح کلاس پڑھانے آجاتےہم نے کئی مرتبہ اُن کے پاجامے پر نیلی روشنائی سے عبارتیں لکھی دیکھی ہیں- علمی متانت کے باوجود بذلہ سنجی بھی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری  ہوئی تھی- اُن کا ایک قصہ اوریئنٹل کالج میں زبان زد عام تھااُن دنوں اوریئنٹل کالج میں کلاس روم  کے اندرسکرین لگی ہوتی تھی جس کے ایک جانب لڑکے، دوسری جانب لڑکیاں بیٹھتی تھیں -ڈاکٹر ناظر زیدی شاعری کا پرچہ پڑھاتے تھے ایک دن “سحرالبیان” پڑھا رہے تھے جب اس شعر پر پہنچے-اِدھراوراُدھرآتیاں جاتیاں/ پھریں اپنے جوبن کو دکھلا تیاں۔ تو اپنے”کے لفظ پر رک گئے اور بولے آگے خود لگالو،لڑکیوں کی موجودگی میں وہ جوبن کا لفظ بولناتہذیب کے منافی سمجھتے تھے مگر طالبعلم تو طالبعلم ہوتا ہے،لڑکی ہویالڑکا! ایک لڑکی سکرین کے پیچھے سے بول پڑی سر آپ ایک لفظ چھوڑ گئے ہیں ذرا بتادیں ڈاکٹر صاحب نےترت جواب دیا گھر جاکر باوا سے پوچھ لینا-مجھ سے بے انتہا محبت کرتے تھے اس قدر حافظہ کے باوجود بھلکڑاتنے کہ کبھی میں اُن سے قرض لئے ہوئے پیسے تنخواہ ملنے پر لوٹانے جاتا تو پوچھتے اچھا کب لئے تھے تم نے؟ محبت کی انتہا یہ کہ نومبر کی شدیدسردی میں میری بارات  میں شرکت کےلئے بادامی باغ سے کرشن نگر تک خود سائیکل چلا کر آئے تھے-مجھے یادآرہا ہے کہ اس تقریب میں شرکت کرکے کیسے کیسے عظیم  اساتذہ اور بڑے بڑے دانشوروں نےمجھے عزت بخشی تھی-ڈاکٹر عبادت بریلوی، پروفیسر جیلانی کامران،پروفیسر وزیرالحسن عابدی، پروفیسر سجاد باقر رضوی ، ڈاکٹر عبیدالللہ خان،ڈاکٹر تبسم کاشمیری ، ڈاکٹرسہیل احمد خان، پروفیسر دلدار پرویز بھٹی غرض کس کس کا نام لوں-یار عزیزحسن رضوی اور ڈاکٹر آغا مسعود رضا خاکی نے سہرے لکھ کر  پڑھے تھے- بات کچھ لمبی ہوگئی ہے چنانچہ ڈاکٹر ناظر حسن زیدی  صاحب  کی شخصیت کے مصداق میر کی غزل کے ان اشعار پر اس کو ختم کرتے ہیں؀  

سو کاہے کو اپنی تو جوگی کی سی پھیری ہے 

 برسوں میں کبھو ایدھر ہم آن نکلتے ہیں

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں

تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

یہ نصف صدی کا قصہ ہے:

امجد  اسلام امجد کا میرا پچاس سال سے زیادہ کا محبت  کا رشتہ قائم  ہے، میں ان کو ہمیشہ امجد بھائی کہتا ہوں – ہم دونوں کے درمیان کئی ایک اشتراک بھی ہیں سب سےپہلےتویہ کہ دونوں ہم کالج ہیں- وہ اوریئنٹل کالج سے فارغ ہو رہے تھے کہ میں داخل ہوا-پنجاب یونیورسٹی کے ادبی مجلے “محور”کے وہ ایڈیٹر رہے ، میں بھی رہا ہوں اُن کا تعلق ادب کی تدریس سے ہے اور میرا بھی – پھر وہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے ڈائرکٹر رہے اور میں نے بھی اس عہدہ  پرچار سال تک کام کیا ہےسب سے بڑااشتراک یہ کہ وہ کھلے ڈُلے لاہوری ہیں یعنی کھل کر قہقہےلگانے والے، میں بھی لاہوری ہوں اورکھل کر قہقہہ لگاتا ہوں-امجد بھائی کی بڑی خوبی یہ ہے کہ جب بھی مجھے ملے ہیں اُن کے التفات میں مجھے ہمیشہ اضافہ ہی محسوس ہواہے-حال ہی میں ان سے سیاٹل کی ملاقات اور ان کے معانقہ کی گرم جوشی ابھی تک محسوس کر رہا ہوں- آج ان کے ہلال امتیاز ملنے کی خبر پڑھ کر مجھے  دلی خوشی ہوئی -امجد بھائی یہ بڑا اعزاز ملنے پر آپ کو دلی مبارکباد ! آپ ہی کا کلام آپ کی نذر :

محبت ایسا دریا ہے

کہ بارش روٹھ بھی جائے

تو پانی نہیں ہوتا

 ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں:

کچھ دوست بھائیوں جیسے ہو جاتے ہیں ڈاکٹر حسن رضوی ،جنہیں مرحوم کہتے کلیجہ منہ کو آتا ہے، میرے ایسے ہی دوست تھے -کالج میں مجھ سے ایک سال آگے تھے-کہتے ہیں کہ کسی کی صحیح پہچان کے لئے اس کے ساتھ سفر کرنا چاہئے ،ویسے توہم دونوں نےبے شمار اندرون و بیرون ملک سفر اکٹھے کئے لیکن ایسے کھرےاور سچے دوست کی پہچان تو پہلی ہی ملاقات میں ہو جاتی ہے- میری رضوی سے پہلی ملاقات حیدر روڈ کی جامع مسجد میں نماز جمعہ کے بعد اُن دنوں ہوئی تھی جب اُن  کی کرشن نگر میں رہائش تھی۔  بس پھر کیا تھا، چل سو چل دن رات کا ساتھ رہا اور ہمارایہ تعلق پھر قریبی تعلق بن گیا، گھروں میں آنا جانا معمول تھا-مجھے زندگی میں ایک ساتھ آگے پیچھے جو دو بڑے صدمے ہوئے ہیں اُن میں ایک تو اپنے چھوٹے بھائی بریگیڈئیر  ڈاکٹر غضنفر عباس (واہ یونیورسٹی کےبانی وائس چانسلر) اور دوسرے بھائیوں جیسے  پیارے  دوست ڈاکٹر حسن رضوی کی اچانک وفات ہیں- حسن رضوی میں دو صفات میں نے وہ پائیں جو عام طور پر لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہیں ،ایک یہ کہ وہ دوستی میں اس  حد تک آگے چلا جاتا تھا کہ دوست کے مفاد کو اپنے ذاتی مفاد پر ترجیح دینے لگتا،   دوسرے یہ کہ بظاہر دنیادار نظر آنے والا یہ شخص انتہائی دین دار اور پکا نمازی تھا۔ جب کبھی ہمارا اکٹھے برطانیہ،ناروے یا یکہیں اور اکٹھے جانا ہوا تو میں نے دیکھا کہ سارا دن کی مصروفیات اور تھکن کے باوجود رات کو واپس آکرساری نمازیں پوری کئے بغیر اس کو نیند نہیں آتی تھی جب کہ میں کبھی کبھی ڈنڈی مار جاتا تھا-حسن رضوی کے لئے  شاد عظیم آبادی کا یہ ایک شعر؀  

ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

جو یاد نہ آئےبھول کے پھر اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم

بہت جی خوش ہوا حالی سے مل کر:

 ڈاکٹر انوار احمد سے میرا تعلق ۱۹۶۸ سے ہے کہ جب یہ اور مرحوم دوست ڈاکٹر رؤف گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنے       مقالات کے مواد کی فراہمی کے لئے لاہور آیا کرتے تھے اور ہم پر بھی یہی دھن سوارتھی پنجاب یونیورسٹی لائبریری میں دن بھر سر کھپا کر شام کو یونیورسٹی کیفے ٹیریا میں ہماری منڈلی جمتی تھی – کبھی کبھی محترم اساتذہ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا ، ڈاکٹر تبسم کاشمیری اور پروفیسر سجاد باقر رضوی مرحوم بھی اس محفل کو چار چاند لگایا کرتے تھے-اب ڈاکٹر انوار  سے میری دوستی کی طوالت کا اندازہ خود ہی لگا لیجئے-بس ایک جملہ انوار کے لئے – یاروں کا یار ہے-کسی دوست کو کوئی مسئلہ درپیش ہو تو بس چل پڑتا ہے، یہ نہیں دیکھتا کہ پیر میں جوتا بھی ہے یا سر پر ٹوپی-

دوست آں باشد: مجھے لگتا ہے کہ میری ڈاکٹر اختر علی  سے دوستی دقیانوس بادشاہ کے دور سے ہے حالانکہ ہماری ملاقات ۱۹۶۹میں اوریئنٹل کالج میں ہوئی جب اختر نے سال پنجم میں داخلہ لیا اور میں سال ششم میں تھا-تب سے آج تک اختر ہمیشہ میرے دکھ سکھ کا ساتھی رہا ہے زندگی کے کم و بیش تمام معاملات ہم نے مل جل کر  نبٹائے ہیں-مرحوم ڈاکٹر عبیداللہ خان کی مریدی نے ہمیں کبھی جدا ہونے نہیں دیا-یار طرح دار حسن رضوی مرحوم نے اختر کو یہ کہہ شاعری کی طرف مائل کیا کہ یار تم اسماعیل میرٹھی کے شہر کے ہوکر بھی شعر نہیں کہتے چنانچہ اب اختر باقاعدہ یونیورسٹی کے مشاعروں میں جانے لگے اور اختر میرٹھی کے نام سے ان کی پہچان ہوئی- مرحوم ڈاکٹر سہیل احمد خان ان کو بہت پسند کرتے تھے اور شاعری میں ان کو مشورے بھی دیتے تھے-اختر اگر شاعری جاری رکھتے تو مجھے یقین ہے کہ آج کے  نامور شاعر ہوتے مگر روزی روٹی کا چکر انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا اختر کے لئے ایک شعر-دوست آں باشد  کہ گیرد دست دوست/ در پریشاں حالی و در ماندگی

خاکساری اپنی کام آئی بہت:

مصر میں میں میرا قیام کہنے کو تو غیر ملک میں تھا مگرحقیقت میں یوں لگتا ہے کہ میں نے یہ تین سال اپنے  وطن ہی میں گزارے ہیں کہ جامعۂ ازہر کا شعبۂ اردو میرے لئے مثل پاکستان اور برادر عزیز ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم اور خواہر عزیزہ  ڈاکٹر تبسم ابراہیم کا گھر مثل  لاہور تھا- میں نے پہلے بھی کہیں لکھا تھا کہ مجھے ڈاکٹر نجیب جمال نے انگلی پکڑ کرمصرسے  متعارف کروایا تھا جو پہلے سے یہاں شعبۂ اردو،جامعۂ ازہر بوائز سیکشن میں تھےجب کہ میرا تقرر جامعہ کےگرلز سیکشن میں ہوا تھا -ہر پروفیسرکو مصر پہنچنے پر سفارت خانۂ پاکستان کی طرف سے پہلے ایک ہفتہ تک نائل ہلٹن میں ٹھہرایا جاتاتھا تاکہ اس اس دوران میں سرکاری رہائش کا انتظام کیا جا سکے، ڈاکٹر نجیب بولے بھائی  ایک ہفتے تک تو موج کرو ،ویسے بھی یونیورسٹی بند ہے- ایک ہفتہ گزرنے کے بعد وہ مجھے جامعہ ازہر لے گئے ،سب سے پہلے ڈاکٹر ابراہیم سے ملوایا کہ وہ  گرلز سیکشن کے شعبۂ اردو کے صدر  تھے-اس کے بعد تو گویا دبستان کھل گیا- ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم انتہائی مرنجاں مرنج  ،مخلص اور کھلے ڈُلے لاہوری مزاج کے نکلے-ان کے لاہوری مزاج میں کچھ اثر ہماری بھابی ڈاکٹر تبسم کا ضرور ہوگا مگر یہ بھی ہے کہ میں نے بیشتر مصریوں کو اسی مزاج کا پایا ہے-ڈاکٹر ابراہیم کو دیکھ کر     میں سوچتا تھاایسا عالم متبحر ، اتنا خاکسار، تب حالی یاد آتے تھے-میں نے ہر ادنیٰ کو اعلیٰ کر دیا/ خاکساری اپنی کام آئی بہت ڈاکٹر ابراہیم نے میرے قیام مصر کے دوران میں ہر ہر انداز میں میری امداد اور راہنمائی کی- تدریس ہو یا تدوین نصاب یا تصنیف و تالیف، تمام مراحل میں یہ میرے راہنما ثابت ہوئے اور مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ اگر مجھے ان کا تعاون حاصل نہ ہوتا تو میں مصر میں بیٹھ کرطلبہ  کے لئے کم وبیش آٹھ کتب کی تصنیف و تالیف نہ کر سکتا- ان کتب کی اشاعت میں مالی امور  میں سفارت خانۂ پاکستان اور اشاعتی امور میں ڈاکٹر ابراہیم کا عملی  تعاون ہمیشہ  میرے شامل حال رہا-ڈاکٹر صاحب نے میرے لئے ہمیشہ اپنے گھر اور کچن کے دروازے کھلے رکھے، جب کبھی میرا پاکستانی کھانے کو دل ہوتا ڈاکٹر صاحب بھابی تبسم کو فون کر دیتے اور مجھے یونیورسٹی سے سیدھے گھر لے جاتے ڈاکٹر ابراہیم میرے بڑے بےتکلف اور مخلص دوست ہیں-الللہ ان کو ہمیشہ سلامت رکھے- یہ شعر ان کی نذر؀۔ والذمن طیب الشراب علی الظما لقیا الاحبۃ بعد طول غیاب۔ اورشدید پیاس میں پانی کی خوبی سے بڑھ کر ہے کہ پرانے احباب طویل عرصے کے بعد مل جائیں۔

تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو:

ڈاکٹرنجیب جمال سے میرا تعلق تب قائم ہواجب ڈاکٹر انواراحمد کی ملتان یونیورسٹی میں حکمرانی کے دور میں میرا ملتان آناجانا ہوا پھر اسلامیہ یونیورسٹی میں ڈاکٹر نجیب کی حکمرانی شروع ہوئی اور یہ صدرشعبہ سے وائس چانسلر تک پہنچے اورایک آدھ دفعہ  انہوں نے مجھے  وائس چانسلر کی کار میں  یونیورسٹی کی میٹنگ کے بعد ائیرپورٹ تک چھوڑا بھی لیکن ہمارا اصل تعلق تو تب قائم ہوا جب میرا  تقررجامعہ ازہر مصر میں پاکستان چئیر پر ہوا- یہ مجھ سے پہلے ایک دوسری چئیر پر یہاں موجود تھے اس وقت سے نجیب صاحب کی عنایات کی فراوانی کا معترف اور ان کی محبتوں کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہوں – انہوں نے پہلے دن قاہرہ ائیرپورٹ پر مجھے خوش آمدید کہا اور پھر آخر تک انگلی  پکڑ کر مصر میں چلنا پھرنا سکھایا اور ایک ایک مرحلے پر مخلصانہ راہنمائی کی-اس دوران میں مجھے  یاد نہیں کہ کبھی ان کی محبت کی فراوانی میں کمی آئی ہو- اسماعیل پانی پتی کا یہ مصرعہ ڈاکٹر صاحب کے لئے- دھن کی پوری ہے کام کی پکی-