امریکا میں نوےدن

یہ تحریر 494 مرتبہ دیکھی گئی

آخری صفحہ:

امریکہ میں ہم کم وبیش پچاسی روزگزارچکے ہیں، ارادہ دو ماہ کا تھا مگر اولاد کے آگے کب بس چلتاہے،ساٹھ سےنوےدن ہو گئےاب بس آخری چند روز رہ گئے ہیں  جوں جوں جانے کے دن قریب آرہے ہیں دو مقناطیسی قوتیں ہمیں اپنی اپنی طرف کھینچ رہی ہیں حسن،ماہ وِش ،زین اور کاظم امریکہ کی جانب اورعلی، میمونہ، اسجد اور زینب وطن کی جانب ؀ 

ایماں مجھے روکےہے جو کھینچے ہےمجھے کفر   کعبہ  مرے   پیچھے  ہے کلیسا  مرے  آگے مگر بہرحال جانا تو ہےحسن ،ماہ وِش،زین اور کاظم کا شکریہ جنہوں نےاپنی تمام تر  مصروفیات تج کر دن رات ہماری سیوا کی اور امریکہ دکھا دیا اب ہم علی ، میمونہ، اسجد اور زینب کی مصروفیات پر شب خون مارنے کی تیاریاں کر رہے ہیں باقی جو الللہ کومنظور!

ہماری روانگی کی یاد کے طور پر زین اور کاظم نے ایک انتہائی خوبصورت اور دلی جذبات کا آئینہ دار کارڈ تیار کرکے ہمیں خرید لیاہے-یہ کارڈ بچوں کی محبتوں کے ساتھ ساتھ اُن کی ذہانت اور فنی اُپچ  کا آئینہ دار ہے-یہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گادونوں بچوں کی محبت اور خدمت ہمیں  یاد دلاتا رہے گا-

لوٹ کے گھر جانا ہے:

انسان کبھی اپنے اندر جھانکے توراز ہائے نہاں کی تہ در تہ پرتیں یکے بعد دیگرے  کھلتی رہتی ہیں- یہاں امریکہ میں فرصت کے لمحات کی فراوانی تھی تو غور و فکر کی ارزانی بھی ، ورنہ عام طور پر ایسے لمحات کم ہی میسر آتے ہیں بقول غالب
جی ڈھونڈتا ہےپھروہی فرصت کہ رات   دن

بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے

میں جب اپنے اندر جھانکتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ زندگی میں مجھے میرے رب نے ہمیشہ میری اوقات سے بہت سے زیادہ عطا کیا ہےبرٹش کونسل کے وظیفے پرجب تیس سال پہلے برسٹل یونیورسٹی جا رہا تھا تو میری قریبی عزیزہ نے کہا تھا اردو کے پروفیسر کا کیا کام انگلستان میں؟ بات تو اُنہوں نے ٹھیک کی تھی مگر اُن کو کون بتاتا کہ ایک طاقت اوپربھی ہے جس کے لئے ذرے کوآفتاب بنانا کچھ مشکل نہیں ہےمیں تصور بھی  نہیں کرسکتا تھا کہ بڑا بیٹا فل برائٹ اور جارجیا ٹیک اور چھوٹا بیٹاہارورڈ اور ایم آئی ٹی جیسی نامور ترین یونیورسٹیوں میں اپنے بل بوتے پر پہنچ جائیں گے ورنہ میری بساط تولاہور کی انجینئرنگ یونیورسٹی سےآگے نہیں تھی-     اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ-

 چلیئےاب کچھ یہاں کے شب و روز کا ذکر کرتے ہیں-

ریڈمنڈ ٹاؤن سنٹر: حسن اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود  ویک اینڈ کے علاوہ بھی روزانہ ہی کہیں نہ کہیں سیر کے لئےضرور لے جاتا ہے  کبھی ڈاؤن ٹاؤن کبھی کوئی پارک یا کسی کھانے کی اچھی جگہ- یہاں ہر جمعرات کو ٹاؤن سنٹر میں بہت رونق ہوتی ہےکوئی اچھا گانے والا یا گٹار پر دُھنیں سنانے والا اپنی آواز یا سروں کا جادو جگاتا ہے-ہم اکثر و بیشتر  جمعرات کے دن وہاں جاکر لطف اندوز ہوتے رہےہیں-اس مرتبہ تو بہت عمدہ موسیقی سنننے کو ملی-

ٹاؤن سنٹر اچھا  بھلا تفریحی مقام ہوتاہے  یہاں ہر عمر کے لوگوں کے لئے دلچسپی کے سامان فراہم ہوتے ہیں بچے خوشی خوشی رنگ برنگے فواروں میں اٹھکھیلیاں کرنے یا دیگر تفریحی مشاغل میں منہمک ہوتے ہیں جب کہ بڑے گپ شپ اور  اکل و شرب کے ساتھ موسیقی سےبھی  لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں زین اور کاظم یہاں بہت خوش ہوتے ہیں -کہیں اور جانے کا پروگرام نہ ہو تو حسن ہمیں ٹاؤن سنٹر لے آتا ہے جو گھر کے قریب ہی ہے-/۵۔

بوئنگ فلائنگ کلب /رینٹن ائیرپورٹ:

حسن شروع سےہی جہاز اُڑانےکا شوقین ہے-لاہور فلائنگ کلب سے جہاز اُڑانے کی تربیت حاصل کرنے کے بعداس نے لائسنس بھی حاصل کر لیا تھا-

لاہور میں حسن جہاز اُڑانے باقاعدگی سے جاتا تھااور اُس کا یہ مہنگا شوق ابھی تک جاری ہے- یہاں جہاز اُڑانے کا امریکی لائسنس اور بوئنگ کلب کی ممبرشپ بھی حسن کے پاس ہے-سیاٹل میں بوئنگ کی فیکٹری ہے ،فیکٹری سے  بننےوالے نئے جہازوں کی آزمائشی پرواز کے لئے فیکٹری سے ملحق رینٹن ائیرپورٹ بھی ہے – ہفتے کے روز ہم وہا ں گئے تھےاور بہت لطف اندوز ہوئے-

واپسی پرہم نے ایک پاکستانی یسٹورنٹ “شاہانہ” میں برنچ کیا- حلوہ پور ی ، نان چنے اور کڑک چائے نے امریکہ میں دیسی لذت کی یاد تازہ کردی -یہ ریسٹورنٹ ایک پاکستانی فیملی مل جل کر بڑی کامیابی سے چلا رہی ہے-

واشنگٹن یونیورسٹی کی سیاحت:  

آج مجھے واشنگٹن یونیورسٹی کی سیاحت کا موقع ملا-سیاحت کا لفظ میں نےاس لئے استعمال کیا ہے کہ امریکہ اور یورپ کی یونیورسٹیاں بند دیواروں والے کیمپس میں قائم ہماری یونیورسٹیوں کی طرح تنگ نظر  طالب علموں کی پیداوار کی فیکٹریاں نہیں ہوتیں بلکہ یہ نئی نسل کووقت کےتقاضوں اور مارکیٹ کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے جدید اور قابل عمل نصابات کی تدریس کے ساتھ ساتھ کلاس روم میں سوالات اورعلمی و سائنسی بحث کےلئے  نکات اُٹھانے والے ذہین طالب علموں کی تشفی کے کلچر کو فروغ دینے میں ہمہ وقت کوشاں رہتی ہیں ان کے وسیع و عریض کیمپس پورے شہر میں پھیلے ہوئے ہوتے ہیں جو یونیورسٹی سٹی کہلاتا ہے یہ درسگاہیں بنیادی طور پرتحقیقی مراکز کاکردار ادا کرتی ہیں یہ قدیم عمارتوں کے پُرسکون علمی ماحول میں اپنی علمی وتحقیقی روایات کو آگے بڑھاتے ہوئے کامیابی کے ساتھ تخلیقی ذہنوں کی تخم ریزی کرتی رہتی ہیں نئی نسل کے یہ اذہان آگے چل کرنت نئی ایجادات کے ذریعے نسل انسانی کی خدمت اوراپنا اوراپنی قوم کا نام روشن کرتے ہیں- یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب ہمارے پاکستانی طالب علم ان غیر ملکی یونیورسٹیوں میں پڑھنے کے لئے آتے ہیں تو وہ بھی مقامی طلبہ کے ہم پلہ ان  تحقیقی کاموں میں آگے آگے  نظر آتے ہیں بلکہ بعض اوقات تواُن سےبھی آگے بڑھ جاتے ہیں، تو ثابت یہ ہوا کہ پاکستانی طلبہ میں ذہانت کی کوئی کمی نہیں ہے بس مسئلہ صرف ماحول ،سہولیات کی فراہمی اورتربیت کاہے-کاش ہمارے ملک کے کرتا دھرتاکبھی اس حقیقت کوسمجھ پائیں! اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

واشنگٹن یونیورسٹی قدیم امریکی درسگاہوں میں سےایک ہےیہ ۱۸۶۰ میں سیاٹل میں قائم ہوئی-اس یونیورسٹی کی پانچ سو کے قریب عمارات اورایک سوچالیس تدریسی وتحقیقی شعبے ہیں-ایمیزون، بوئنگ، نینٹندو،  مائیکروسافٹ جیسےاداروں سےیونیورسٹی کا الحاق ہے بلکہ مائیکروسافٹ کی تو ابتداء ہی واشنگٹن یونیورسٹی کی لیبارٹریوں میں ہوئی ہے کہ ایلن اور بل گیٹ یونیورسٹی کے طالب علم رہےہیں اس یونیورسٹی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کےہم پلہ سوشل سائنسز ، آرٹ، تاریخ اور زبان و ادب کے شعبے بھی موجود ہیں-کل میں  وہاں گیا تو مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ واشنگٹن یونیورسٹی میں دیگر زبانوں کے ساتھ اُردوزبان بھی پڑھائی جا رہی ہے-

واشنگٹن یونیورسٹی دنیا کےبڑے لائیبریری سسٹم کی حامل ہے اور اس کی سوزیلو سنٹرل لائیبریری دنیاکی قدیم لائبریریوں میں سے ایک ہےاس لائبریری کے ساتھ چھبیس دیگر لائبریریاں بھی ملحق ہیں۔ سوزیلو لائبریری کا جرائدوکتب کا نادر و نایاب  ذخیرہ اس کی اہمیت کو دوچند کر دیتا ہےلائبریری کی جادہ پیمائی کے دوران میں نے اپنی تصانیف میں سے چند کتب کا عطیہ بھی اس لائبریری کو پیش کیا-

یہاں واشنگٹن یونیورسٹی کی سیاحت کی چند تصاویر دیکھئے:

ہمارا امریکہ کا سفر اب اختتام کو پہنچتا ہے اور یہ سفرنامہ نما مختصر تحریر بھی ، یار زندہ صحبت باقی!میاں محمد بخش کے اس شعر چکےساتھ اب اجازت دیجئے؀
لے او یار حوالے رب دےاے میلے چار دناں دے
اس دن عید مبارک ہو سی جس دن فیر ملاں گے