امریکا میں ساٹھ دن

یہ تحریر 864 مرتبہ دیکھی گئی

حصہ اول

ڈاکٹر مظفر عباس اردو ادب کی جانی پہچانی شخصیت ہیں۔تحقیق،تنقید،تدوین،تدریس ان کی دلچسپی کے خاص میدان ہیں۔وہ ہمیشہ ان دلچسپیوں سے جڑے رہے اور انہیں ثمر آور کرتے رہے۔اس انسلاک نے اردو ادب کے دامن میں بہت سے متون کا اضافہ کیا۔ملی شاعری ہو یا داستان شناسی،سفرنامے کی تدوین ہو یا یاد نگاری ان کا قلم زندگی بھر رواں رہا۔اس براقی میں کمی نہیں آئی۔زندگی بھر کے اس انتھک سفر نے انھیں جامعاتی تدریس کا ایک باب بنا دیا ہے۔ڈاکٹر مظفر عباس آج کل اپنے بیٹے کے پاس امریکہ میں مقیم ہیں اور اپنے شب وروز کو لکھنے میں مصروف ہیں۔ٹھیک ہی تو کر رہے ہیں۔نئ دنیا،انجانا دیس،پراے لوگوں میں ایسا کرنے سے دل بہلا رہتا ہے اور بہت دور بیٹھے ہم جیسے لوگوں تک وہاں کی معاشرت کی خبر بھی پہنچتی رہتی ہے۔ڈاکٹر عباس اپنے مدعا کے بیان میں آرایش پر کم اور نفس مضمون پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔وہ سب کچھ جو محسوس کیا اس میں اپنے قاری کو شامل کرنا چاہتے ہیں۔اوراق سبز ان کے اس عمل کا خیر مقدم کرتا ہے اور ان کی دلچسپیوں اور یاد نگاری پر طمانیت کا اظہار کرتا ہے۔اج اس سفر نویسی کی پہلی قسط ہے۔جیسے جیسے یہ ماجرا آگے بڑھتا رہے گا ہم اپنے پڑھنے والوں تک پہنچاتے رہیں گے۔سلیم سہیل

امریکہ میں ساٹھ دن

تاثرات،یاد داشتیں

ڈاکٹر مظفر عباس

پہلا صفحہ:

لاہور سے سیاٹل براستہ استنبول :

کیا بات ہے امریکہ کی- ہر چیز وقت اور پروگرام کے مطابق اور سب سےزیادہ زور قانون کی پیروی پر- مجھے یہاں سب سے زیادہ اچھی بات یہ لگی کہ غریب امیر میں کوئی تمیز نہیں سب برابر۔ انسان کی عزت ہوتی ہے اس کے رتبے کی نہیں – میں کہ ایک سیلانی مزاج شوریدہ سر ٹہرا سیر و سیاحت کا شوقین مگر برا ہو کرونا بہادر کا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کے سارے خواب خاک میں ملا کر حبس دوام نہ سہی تین برس کی گھر میں نظربندی کی سزا سنا دی- کہتے ہیں ہر شر کے پہلو میں خیر ہوتا ہے چنانچہ-ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا- مجھے کیا علم تھا کہ قدرت نے میرے لئے کیا چھپا کر رکھاہے ترکی کی سیاحت کا پروگرام فائنل ہو چکا تھا کہ بن بلائے مہمان کرونا صاحب تشریف لے آئے مگر دیکھئے نیرنگئی عالم کہ اب جو چھلانگ لگی تو براستہ استنبول سیدھے سیاٹل یعنی امریکہ کی- باعث ورودامریکہ یہ ہوا کہ چھوٹا بیٹا حسن اجود جو قبل ازیں مشرق وسطئ کے ممالک میں تھا، گردش روزگار ، اس کو روزگار کے سلسلے میں امریکہ لے آئی -بس پھر کیا تھا-ہماری پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں ،رخت سفر باندھا اور سیدھےامریکہ- یہ جملہ تو ہم نے ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں لکھا ہوگامگر لاہور سے سیاٹل پہنچنے میں ہمیں کم وبیش اٹھارہ گھنٹے ہوا میں معلق رہنا پڑا ، اس میں چار گھنٹے استنبول ائیر پورٹ پر تبدیلئ جہاز کےلئے انتظار کے مزید شامل کر لیجئے یعنی یکمشت بائیس گھنٹے کا سفر- یہاں اتفاق سے ہم نے ایک تاریخ بھی رقم کردی کہ لاہور سے براہ راست سیاٹل کی یہ ترک ائیر لائنز کی پہلی پرواز تھی جس کے ذریعے ہم یہاں پہنچے-

کتب بینی کی ترغیب:

ہمارا عمومی تاثر یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں کمپیوٹر نے کتاب کو تعلیمی نظام سے نکال باہر کردیا ہے- آج میں اپنے پوتوں زین عباس اور کاظم عباس کے سکول دیکھنے گیاگیا تو راستے میں ایک بک شیلف لوہے کےایستادہ ڈبے میں نظر آیا۔ قریب گیا تو دیکھا تمام کتب نہایت سلیقے سے رکھی گئی تھیں جواس عمر کے طالب علموں کے ذہنی معیار اور ذوق کے عین مطابق سائنسی اور دیگر دلچسپ موضوعات پر تھیں- یہاں یہ تذکرہ بھی کردوں کہ میں جب نوے کی دھائی میں برسٹل یونیورسٹی سے پوسٹ گریجوایٹ ڈگری کے حصول کے سلسلے میں برطانیہ میں تھا تو میرے دونوں بچے ساتھ تھے اور ایلمنٹری سکول میں پڑھ رہے تھے-مجھے برطانیہ اور امریکی سکول سسٹم میں کوئی فرق نہیں بلکہ یکسانیت نظر آئی-تاہم یہ سکول کے راستے کی ایستادہ لائبریری ایک نیا تجربہ تھا جو میرے نزدیک بچوں میں کتب بینی کے ذوق کی تخم ریزی کا بڑا موثر ہتھیار ثابت ہوگا-مجھے بتایا گیا کہ ایسے “کتب ڈبے”سکولوں کے راستے میں جگہ جگہ لگائے گئے ہیں اور یہ تمام سسٹم لوکل کمیونٹی خود چلاتی ہے-بچے اپنی پسند کی کتب بلا روک ٹوک نکال کر لے جاتے ہیں اور پڑھ گر سلیقے دوبارہ یہاں رکھ جاتے ہیں -مجال ہے کہ کوئی کتاب چوری ہو یا پھٹی ہوئی ملی ہو-یہ ہے ان قوموں کی اخلاقیات جو ہماری نظر میں راندۂ درگاہ ہیں-علامہ اقبال نے اپنے آباء کے علمی خزانےمغرب میں دیکھے تو کہا تھا؀ مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی /جودیکھیں ان کو مغرب میں تودل ہوتا ہےسی پارہ میرا دل بھی یہاں اپنے آباء کی اخلاقی قدروں پر عمل درآمد کو دیکھ کر خون کے آنسو روتا ہے۔

 ہاں دکھا دے اے تصوّر پھر وہ صبح و شام تو/دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایّام تو

برف کے پہاڑ :

تین سال پہلے جب میں آذر بائیجان گیا تھا تو کوہ قاف دیکھنے کاموقع ملا-بچپن سے جو کہانیاں ذہن میں محفوظ تھیں سب کچھ اس کے برعکس نظر آیا، نہ سنہری پریاں نہ اڑن کھٹولے ،البتہ ایک مشینی اڑن کھٹولہ ضرور ہمیں کوہ قاف کی بلند چوٹی پر لے جانے کے لئے موجود تھا- مجھے برف باری میں پہاڑوں کی سیر ہمیشہ سے پسند ہے-پہاڑ پر چڑھنا اور برفباری سے لطف اندوز ہونا میرے لئے زندگی کا حقیقی لطف ہے-اس ویک اینڈ پر ہم ماؤنٹرینئیر(واشنگٹن )کے سلسلے کے پہاڑ اور وائلڈ پارک دیکھنے گئے- اتفاق دیکھئے کہ برفباری بھی شروع ہوگئی- کیونکہ کیل کانٹے سے لیس تھے اوپر کی طرف چل پڑے -زین اور کاظم نے چڑھنے میں خوب ساتھ دیا، بہت مزا آیا- فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ۔