امریکا میں ساٹھ دن

یہ تحریر 567 مرتبہ دیکھی گئی

چھٹا صفحہ:

چلئے پھر آغازکرتے ہیں اپنی گفتگو کااور پہلے ذکر   انسانی رویوں کا-

تین کہانیاں،تین سبق:

حالی نے کہا تھا؀

فرشتے سے بڑھ کر ہے  انسان بننا

مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ

انسان بننےکےلئےبڑی محنت درکار ہوتی ہے- ہم عام بول چال میں بھی غلط قسم کے افراد سے کہتےہیں-انسان بنو انسان- حالانکہ انسان تووہ پہلے ہی ہوتے ہیں چنانچہ جگر مراد آبادی کی کہی ہوئی بات کوماننا ہی پڑتا ہے؀

جہل خرد نے دن یہ دکھائے

گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے

اس تمہید کا پس منظر یہ ہے کہ آج کچھ گزرے واقعات اور انسان نما سایوں کی دنیا میں سے چند”انسان” مجھے یاد آ رہے ہیں، سنئیے۔

تین سبق،تین کہانیاں:

سن ۱۹۶۸گرمیوں کی چھٹیاں۔میں اوریئنٹل کالج میں سال پنجم کا طالب علم اور سٹوڈنٹس یونین کا سیکرٹری بھی تھا- کالج کا ٹؤرسیر کے لئے مری روانہ ہوتا ہے اساتذہ میں سے ڈاکٹر محمد باقر، ڈاکٹرعبادت بریلوی ،ڈاکٹرعبدالشکور احسن ،ڈاکٹر عبیدالللہ خان ڈاکٹرتبسم کاشمیری شامل تھے ہم لوگ کشمیر پوائنٹ پر پنجاب یونیورسٹی کے ہوسٹل میں قیام پذیر تھے-ہم صبح سویرے سب کہیں نہ کہیں سیر کے لئے نکل جاتےتھے- ایک دن سب لوگ نکلنے کی تیاریاں کر رہے تھے اوربطور منتظم میں اپنی ذمہ داریاں نباہ رہا تھاکہ اچانک میرے سر میں شدید درد ہونے لگا میں نے دوستوں سے معذرت کی اور آرام کے لئے بستر پرلیٹ       گیا- بس کے چلنے کی آواز سے معلوم ہوا کہ سب روانہ ہوگئے ہیں میں نے ابھی کمرے کا دروازہ بند ہی کیا تھا کہ اچانک دستک ہوئی میں سمجھا کہ میراکوئی ساتھی ہوگا لیکن جب دروازہ کھلا تو دیکھا ڈاکٹر عبادت صاحب بہ نفس نفیس تشریف لائے ہیں ساتھ بیگم صاحبہ بھی ہیں- حیران ہوا کہ بس تو گئی ڈاکٹرصاحب کیوں نہیں گئے- بولے میاں کیا ہوگیا ہےتمہیں صبح تو تم ٹھیک تھے؟ ڈاکٹرصاحب ہمیشہ یا تو میرا پورا نام لیتے یا پھر میاں کہہ کر بلاتے تھے میں نے کہا بس سر میں درد ہے-اپنے کمرے سے دوائیوں کاڈبہ لائے مجھے کچھ دوائیاں کھلائیں اوراس دن کا پروگرام  منسوخ کرکے سارا دن میری نگہداشت کرتے  رہے-

دوسری کہانی ، ۱۹۹۱ سن دسمبر کا مہینہ میں فیملی کےساتھ برسٹل میں ہوں کہ والد کے انتقال کی خبر ملتی ہے- ابھی مجھے یہاں آئے ایک ماہ ہی ہوا تھا اور اتنا بڑا سانحہ، پیروں سے زمین نکل گئی-نہ پائےرفتن  نہ  جائے ماندن کروں توکیا کروں ابھی تو یہاں پوراسیٹل  بھی نہ ہوپایاتھا-برٹش  کونسل کے وظیفے پر انگلستان گیا تھا چنانچہ ایجوکیشن آفیسرمس گڈ آل کو فون کیاوہ مجھ سےبھی زیادہ پریشان ہو گئی-کرسمس کے ایام تھے دفاتر بند ہو چکے تھے-یہ بھی شام کو گھر جانے والی تھی مگر میری بات سن کر اپنے پروگرام منسوخ کرکے میری گرانٹ منظورکروائی،جہاز کے ٹکٹ کابندوبست کیا پھر دودن کے بعد کرسمس منانے گھر گئی- یہ ہے انسان اور انسانیت! اسی لئے میں ہمیشہ کہتا رہا کہ ویسے آپ گڈ آل ہومگرمیرےلئےبیسٹ آف آل- تیسری کہانی، ابھی جب حال ہی میں امریکہ بیٹے کے پاس آرہا تھا-ترک ائیرلائینزکی یہ تاریخی اور پہلی فلائٹ تھی لاہور سےسیاٹل براہ راست آرہی تھی ،استنبول پر ٹرانزٹ کے بعد سیاٹل کی پرواز لینا تھی-ائیرپورٹ پرونڈو شاپنگ اورکھا پی کر ہم جہاز میں چڑھے تو ہینڈ کیری بیگ کوکیبن میں رکھتے ہوئے دقت ہو رہی تھی کیونکہ خاصا وزنی تھا- جہاز کے عملے کے ایک ترک نوجوان سے میں نے مدد کے لئے کہا تو ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بولا میں تو سیکورٹی والا ہوں اوریہ میرا کام نہیں ہے ،ادھر اُدھر دیکھ ہی رہا تھاکہ ایک امریکی خاتون جوعمر میں مجھ سے بھی  زیادہ تھیں کھڑی ہوگئیں اور میراہاتھ بٹا کر بیگ اوپر چڑھوادیا، یہ ہوتی ہے انسانیت اوراسے کہتےہیں انسان – یہاں رنگ نسل مذہب عقیدے کا کوئی فرق یا فوقیت نہیں بس آدمی کےانسان بننے کی شرط ہے؀

بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

دیار غیر میں عید:

عیدالفطرلاہورمیں علی کی فیملی کےساتھ منائی تھی، ان  دنوں سیاٹل آنے کا مقصد حسن کی فیملی کے ساتھ بقرعید گزارنا تھا-چنانچہ بڑی دھوم دھام دیارغیر میں عیدمنائی گئی-

صبح سویرے پاکستانی لباس زیب تن  کرکے  بچوں کے ساتھ مسجد روانہ ہوئےسیاٹل میں چارمساجد ہیں اس کے  علاوہ پارکوں میں بھی عیدکی نمازکااہتمام ہوتا ہے-شام کو حسن کے پاکستانی دوستوں نے امریکن سٹائل میں مل جل کر فیملیز عید مِلن پارٹی کا اہتمام کیا جس میں آزمائش کام و دھن کے ساتھ خوب ہلا گلا ہوا- دیار غیر میں وطن   کی عیدکا سماں بندھ گیا۔

آبشارسنوکوالمی:

کل ہم نےایک بہت دلکش آبشارکی سیر کی سیاٹل کے مشرق میں تیس میل کے فاصلے پر یہ آبشار تاریخی اہمیت کی حامل ہے دو سو ساٹھ فٹ آبشار مذہبی تقدس کی حامل بھی ہے بالائی اور نچلے پہاڑوں پر قدیم زمانوں سے آباد سنوکوالمی قبائل کی مذہبی روایات اور اساطیر کے مطابق یہ مقدس آبشار چاند کی بخشش کے طفیل دنیا کے پہلے مرد اور عورت کی جائے تخلیق ہے ان   کا خیال ہے کہ ان کو تخلیق کرنے کے بعد چاند دوبارہ آسمان میں چلا گیا- ان کاعقیدہ ہے ہے کہ آج بھی دنیا کی ہر تخلیق وفنااسی مقدس مقام پر ہوتی ہے قدیم امریکی سنوکوالمی قبائل موجودہ دور میں بھی مراقبہ اور دیگر مذہبی رسوم اسی آبشار کے پہلو میں انجام  دیتے ہیں- 

۱۸۹۸ میں جب پیوگٹ پاور کمپنی نے بجلی پیدا کرنے کے کئے آبشار پر ہائیڈرالک پلانٹ لگانا چاہا تو قبائل نے ہنگامہ کھڑا کر دیا جوبالآخر حکومت کی مداخلت پر قبائل سےمعاہدہ پر منتج ہوا اور طے پایا کہ قدیم امریکی قبائل کے عقائد کا لحاظ رکھتے ہوئےان کے مقدس مقامات کا تحفظ کیا جائے گا-        

یہ تو تھی اس آبشار کی  کہانی مگر اصل بات تو اس کا حسن دلکش فضا اور طلسماتی ماحول ہے جن کو دیکھ کرکوئی بھی   انسان قدرت کی تخلیقی بو قلمونیوں کی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا- دن بھر ان طلسمات کی لطف اندوزی کے بعد شام کو واپس ہوئے-

-امجد اسلام امجد سیاٹل میں:

دنیاکوہم کتنا بڑاسمجھتے ہیں اور وہ ہے کتنی چھوٹی! سات سمندر پارآکر یہ احساس مجھے اس وقت بہت ہواجب حسن نے بتایا کہ سیاٹل کی ادبی محفل امجد اسلام امجد کے ساتھ شام منا رہی ہے حسن نے میز کی بکنگ بھی کروا دی تھی – مجھےبہت خوشی    ہوئی کہ امجد اسلام امجد کا میرا پچاس سال سے زیادہ کا محبت  کا رشتہ ہے، میں ان کو ہمیشہ امجد بھائی کہتا ہوں پھر ہم دونوں کے درمیان کئی ایک اشتراک بھی ہیں سب سےپہلےتویہ کہ ہم دونوں کا تعلق ادب کی تدریس سے  ہے۔ وہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے ڈائرکٹر رہے اور میں نے بھی اس عہدہ پرچارسال کام کیا  ہے- بڑااشتراک یہ کہ ہم دونوں کُھلے ڈُلے لاہوری ہیں یعنی کھل کرقہقہےلگانے والے-  

انجمن نے ایڈمنڈ میں ایک بڑا ہال بک کروایا تھا، الگ الگ میزوں کےگرد پاک و ہند کے سخن فہم خاندان موجود اطراف میں کھانے کی میزوں پر پاکستانی اور دیسی کھانوں کی بہتات جن میں کڑہی سے لے کرلاہوری نان چنے تک سب موجود- چائے،    کافی ،کولڈرنگ کاسٹال الگ سجایا گیا تھا جب چاہو جو چاہو لو اور لطف اٹھاؤ۔  کیا دلکش محفل تھی اور کیا عمدہ انتظام تھا! سامعین بہت با ذوق تھے۔ ذوق وشوق سے امجد کا کلام سنافرمائشیں بھی کیں اوررات گئے تک یہ یادگارمحفل چلتی رہی۔ اس محفل میں پیش کی گئی ایک غزل آپ کے ذوق مطالعہ کی نذر؀

دل کے دریا کو کسی روز اتر جانا ہے

اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے    

اس تک آتی ہے تو ہر چیز ٹھہر جاتی ہے

جیسے پانا ہی اسے اصل میں مر جانا ہے             

بول اے  شام  سفر رنگ رہائی کیا ہے

دل کو رکنا ہے کہ تاروں کو ٹھہر جانا ہے

کون ابھرتے ہوئے مہتاب کا رستہ روکے

اس کو ہر طور سوئے دشت سحر جانا ہے      

میں کھلا ہوں تو اسی خاک میں ملنا ہے مجھے

وہ تو خوشبو ہے اسے اگلے نگر جانا ہے          

وہ ترے حسن کا جادو ہو کہ میرا غم دل

ہر مسافر کو کسی گھاٹ اتر جانا ہے