امریکا میں ساٹھ دن

یہ تحریر 588 مرتبہ دیکھی گئی

چوتھا صفحہ

بحرالکاہل کی کہانی :

اپنی ایک پرانی نظم کےیہ مصرعےآج مجھے اس وقت بہت یاد آئےجب میں نے ایڈمنڈز(Edmond) کےساحل سے پیوگٹ ساؤنڈز ((Puget Sound کے پانیوں تک کابحرالکاہل کا سفر فئیری میں شروع کیا-

سمندر مجھ سے کہتاہے

کہ اب پتوار کوکھولو

ذرا مجھ کو بتاؤ

تم سے پہلے لوگ جولہروں سےگزرے  ہیں

کہاں پر کھوگئے؟؟

یہ واقعی زندگی کی ایک حقیقت ہے کہ لوگوں کے قافلے سمندروں ، شاہراہوں سے گزرتے رہتے ہیں اور وقت کی گرد میں گم ہو جاتے ہیں؀  اتنابڑھا بشر کہ ستارے ہیں گرد راہ اتنا گھٹا کہ خاک پہ سایہ سا رہ گیا ہنگامہ ہائےکارگۂ روز وشب نہ پوچھ اتنا ہجوم تھا کہ میں تنہا سا رہ  گیا۔  ہجوم میں رہ کر تنہائی کا مزا ہی کچھ اور ہے۔ فیئری کافی بڑی تھی ، اس میں کم و بیش اسی افرادتھے مگر مجھے جو مزا عرشے پر کھڑے ہوکر تند و تیزبرفانی ہوا،تنہائی کی انجمن اورلہروں کی        ُ جلترنگ نے دیا، بیان سے باہر ہے۔حسن اور ماہ وِش تو ہماری،بچوں بچوں کی آؤ بھگت میں لگے رہے-کبھی کیک، کبھی کافی ،کبھی چائے دیتے رہے مگر میں اور میری بیوی (بلکہ فارحہ مجھ سےبھی زیادہ) بلندعرشےسے کافی بدست بے زبانی کی زبان میں بحر الکاہل سےہم کلامی کا لطف اٹھاتےرہے ع

خموشی گفتگوہے،بے زبانی ہےزباں میری

کینیڈا بچاس میٹرز:

ہمارا یہ طویل بحری سفر پورٹ ایڈمنڈز سے شروع ہوا اورکینیڈا کی ساحلی سرحد کے اس مقام پراختتام پذیر ہوا جہاں سے کینیڈا صرف پانچ سو میٹرز کی دوری پر رہ گیا تھا-ویسے تو میری چھوٹی بہن کے دو بیٹے عباس اور علی بھی کینیڈا میں مقیم ہیں مگر کینیڈا کے شہر اتنے طویل فاصلے پر ہیں کہ یہ دونوں بھائی بھی آپس میں شاذ و نادر ہی مل سکتے ہوں گے، ہم وہاں کیا جاتے! بحر الکاہل دنیا کا سب سے بڑا سمندر ہے جو امریکہ ایشیا اور آسٹریلیا کے درمیان واقع ہے۔ سیاٹل سے فئیری کے ذریعےوینکؤور اور وکٹوریہ آئی لینڈ تک باآسانی جایاجاسکتاہے۔ اس سفر کا سب سے بڑامزا وہیل مچھلیوں کا نظارہ ہوتا ہے جو قسمت سے کبھی کبھی جلوہ دکھاتی ہیں مگر یہاں کے ضابطے کے مطابق جب تک وہیل کا نظارہ نہ ہوجائے،آپ بار بار اسی ٹکٹ پرفئیری میں سفر کرسکتے ہیں تاوقتیکہ وہیل نظر نہ آجائے خواہ اس کی دم ہی کیوں نہ ہو۔

ڈاؤن ٹاؤن کی سیر:

کہتے ہیں کہ کسی شہر کا اصل چہرہ دیکھنا ہو تو ڈاؤن ٹاؤن جسے ہماری زبان میں اندرون شہر کہا جاتا ہے ،میں جاؤ۔       مجھے ہمیشہ سے پرانی جگہوں، پرانی چیزوں اور پرانے لوگوں میں دلچسپی رہی ہے- گزشتہ روزقدیم شہر  یعنی ڈاؤن ٹاؤن کی جی بھرکرسیر کی-سیاٹل کا قدیم ترین کاروباری مرکزمچھلی مارکیٹ ہے جوڈاؤن ٹاؤن میں پائک سٹریٹ کےکونے پر واقع ہے۔

پائک فش مارکیٹ:

اس اوپن ائیر مارکیٹ کی بھی عجب کہانی ہے بحر الکاہل کے گہرے پانیوں میں سے حاصل کردہ تازہ مچھلیوں اور دیگر سمندری مخلوق کی گاہکوں کو براہ راست فروخت کی یہ مارکیٹ ۱۹۳۰میں قائم ہوئی اور چار دانگ عالم میں اس  کا شہرہ ہوگیا- سبب اس کا یہاں کے مچھلی فروشوں کا مچھلی  بیچنے کا خاص انداز بنا۔ اس کہانی کے پیچھے ایک اور کہانی ہے۔ ہوا یوں کہ ۱۹۸۶میں یہ مارکیٹ  اس حد تک گھاٹے میں  چلی گئی کہ دیوالیہ ہوگئی  اب سوچ بچار شروع  اور مارکیٹ کو چلانے  کے نئے نئے طریقے سوچے گئےاورطے پایا کہ براہ راست پانی سے نکلی تازہ مچھلی تو پہلے ہی اس مارکیٹ کی وجۂ  شہرت ہے،اب بیچنے کے بھی نئے نئےانداز اپنائےجائیں اور گاہکوں کی توجہ کے لئے نئے  نئےتجربات کیے جائیں ان میں سب سے زیادہ  پرکشش اور موثر حربہ مچھلی دور سے گاہک کی طرف اچھالنا اور بآواز بلند، بہ یک آوازمجھلی فروشوں کا گاہک کا ٹوکن نمبر پگارناتھا۔ اس انداز  کو اس قدر مقبولیت حاصل ہوئی اور میڈیا نےاس کو اتنی شہرت دی کہ نہ صرف امریکہ کے کونے کونے سے بلکہ غیر ممالک سے بھی سیاح یہاں آنے لگے اور تب سے آج تک اس مارکیٹ کی مقبولیت اور شہرت کا یہ عالم ہے کہ روزانہ دس ہزار لوگ یہاں آتے ہیں اورمچھلی  فروشوں کےاس خاص انداز پر دادوتحسین کے ڈونگرےبرساتے نہیں   تھگتے-

لیفٹ بک کارنر:

جس ملک میں بھی جانا ہومیری دلچسپی کااہم محور کتابوں کی دوکانیں ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے ایک بات کا یہاں ذکر کروں گا اور وہ یہ کہ میں نےسیاٹل میں دیکھاکہ کتابوں  کی دوکان  کے باہر ایک کاؤنٹر بنایا   جاتا ہے جس میں لوگ  اپنی وہ کتابیں چھوڑ جاتے ہیں جووہ پڑھ چکے ہوتے ہیں یا جن کی انہیں ضرورت نہیں  رہتی- یہ کتب اوپن شیلف میں ہوتی ہیں جس کاجی چاہے اٹھائے اور مفت لے جائے۔ واہ کیا مزے ہی۔

امریکی گرودوارہ:

پرانے شہر سے واپسی پر ایک گرودوارہ بھی دیکھا،خوبصورت محل وقوع تھااورنام اس کا  گورودوارہ سنگھ سبھا۔ 

اس کے اندر گئے تو ایک نئی دنیا آباد دیکھی اس کی دومنزلہ عمارت میں اوپرکاحصہ مذہبی رسومات جب کہ نچلا سماجی سرگرمیوں کے لئے مختص ہے۔ یہاں ایک وسیع لنگر خانہ بھی ہے جس میں ہمہ وقت انواع و اقسام کے لنگر کا اہتمام ہوتا ہے،کونسی نعمت ہے جو اس لنگر میں میسر نہیں۔ خوان سجے ہیں جن پرانواع و اقسام کے کھانےاور دیسی مٹھائیاں موجود۔ لسی، شربت،چائے کا الگ  کاؤنٹر۔ جتنا اور جو چاہو کھاؤ اور انتہائی عزت کے ساتھ۔ گرودوارہ کے رضاکار باربار انتہائی لجاجت سےسکھوں کےمخصوص انداز میں ہاتھ جوڑتے ہوئے پوچھتے پھر رہے تھے۔ “سرکار کجھ ہور چاہیدا  اے تے حاضر کراں” گوردوارے کے ماحول  کو  دیکھ کرلگا کہ  ہم پنجاب میں پھررہے ہیں   امریکہ میں نہیں۔ پنجابی   میں گفتگو،قمیض شلوار میں ملبوس رنگ برنگی پگڑیاں پہنے ہوئے  سردار ہر جانب رواں دواں ،ساتھ بچے اور عورتیں بھی کیونکہ آج چھٹی کا دن تھا۔ میں بھی اپنی تھالی میں جلیبی ،لڈو،گلاب جامن اورچائےکاکاغذی گلاس لے کر ایک گوشے میں بیٹھ گیا کہ ایک صاحب ست سری اکال،جی آیاں نوں کہہ کرمیرے ساتھ بیٹھ گئے- پنجابی میں گفتگو شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ ان کاتعلق اندرون لاہورسے ہے  اورقیام پاکستان سے قبل ان کے آباواجداد لاہور کے سوہا بازار میں سونے کا کاروبار  کرتےتھے، بعد میں ان  کا خاندان ہوشیار پور انڈیا اور اب امریکہ میں  آباد ہوگیا-بہت نفیس انسان تھے- ان سے اچھی بات چیت ہوئی، انگریزی بول بول اور سن سن جو سمعی اور لسانی کجی تھی ہواہو گئی،دوبارہ آنے کا کچا پکا وعدہ کرکے سردار جی سے رخصت  لی اور گوردوارے سے باہر  آگئے- میں سوچنےلگاکہ گردش ایام انسان کو کہاں کہاں لئے پھرتی ہے۔ غالب نے ٹھیک ہی کہا ہے:

کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جائے دل

انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں

اپنی ان تحریروں کے اولین قاری اور ناقد زینب اور اسجد کی خواہش میں نے پوری کردی ہے کہ اس قسط میں زیادہ قلسقہ نہیں بگھارا مگر اس کو کیا کیا  جائے کہ وہ دونوں آج کل ماں باپ( میمونہ اور علی) کے ساتھ چھٹیاں گزارنے ٹھنڈیانی گئے ہوئے ہیں اور پہاڑوں پر مزے کر رہے ہوں گے، ان کے پاس اب اس تحریر کوپڑھنے کا وقت کہاں ہوگا!!!!!