امریکا میں ساٹھ دن

یہ تحریر 599 مرتبہ دیکھی گئی

دوسرا صفحہ:

نگری نگری پھرا مسافر :

میں کہ ابتداء سے ہی صحرا نورد ٹھہرا، جونہی موقع ملتا بوری بسترا سنبھال کر نکل کھڑا ہوتا-ملک کے اندر تو گاہے گاہے سیاحت کے مواقع ملتے ہی رہے،بھلا ہو حکومت پاکستان کا کہ پہلی مرتبہ بیرون ملک اور وہ بھی انگلستان کی سیاحت کی سبیل پیدا کی- تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ میری پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی ڈائرکٹری کے دوران میں برٹش کونسل نے چاروں صوبوں کے ٹیکسٹ بک بورڈوں سے ایک ایک ایکسپرٹ کو نصاب سازی اور نصابی کتب کی تالیف و تدوین کے مضمون میں برسٹل یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری کے حصول کے لئے کامن ویلتھ سکالر شپ کیلئے منتخب کرکے انگلستان بھیجنے کا فیصلہ کیا-قسمت نے یاوری کی اور میں بھی منتخب ہو گیا- یہ اوائل انیس سو اکانوے کی بات ہے-قصہ مختصر مع اہل و عیال پورا انگلستان دیکھ ڈالا-خوب سیر کی، پڑھا لکھا اور بحمدالللہ ڈگری بدست وطن واپس آگیا-برسٹل یونیورسٹی کے سکول آف ایجوکیشن میں لکھا گیا میراتحقیقی مقالہ Texbook Development in Pakistan and United Kingdom سنگ میل پبلیکیشنز لاہور نے۱۹۹۳میں کتابی صورت میں شائع کیا-اس دوران میں انگلستان کے ساتھ ساتھ لگے ہاتھ فرانس کی سیاحت بھی کر ڈالی پیرس کے ڈزنی لینڈ کے افتتاح کے ہنگام ہم وہاں موجود تھے۔

یہ پہلا در کیا وا ہوا کہ پھر تو یکے بعد دیگرے تمام در ہی کھلتے چلے گئے اور ہم جاگتے رہے کہ ؀

آج کی رات نہ سونا یارو

آج تو ساتواں در کھولیں گے

ور بالآخر یہ ساتواں در بھی کھل گیا اورآج ہم امریکہ میں بیٹھے موج کر رہے ہیں-

برطانیہ کے بعد جس ملک میں طویل قیام اور سیاحت کے مواقع ملے وہ نیل اورفراعنہ کی سرزمین مصر ہے- یہاں ہمارے آنےکا سبب بھی ہمارا محبوب وطن بنا کہ حکومت پاکستان نے ہمارا تقرر “پاکستان چیئر “ پر مصر کی یونیورسٹیوں میں اردو اور پاکستانی ثقافت کی تدریس و ترویج کے لئے سفارتی منصب پر بطور پروفیسر کردیا اور بین الاقوامی شہرت یافتہ یونیورسٹی جامعہ ازہر ہمارامستقر ٹھہرا-مصر ایک ملک نہیں ایک تہذیب کا نام ہے جس کی سیاحت کی تفصیل کے لئے ایک مکمل دفتر درکار ہے لۂذایہ ذکر کسی اور موقع کے لئے چھوڑتے ہیں – ہاں یہاں یہ ضرور کہوں گا کہ برلب نیل مہندسین کے اس خوبصورت اور وسیع اپارٹمنٹ کی حسین یادیں جو حکومت نے میری رہائش کے لئے مہیا کیا تھا آج بھی دل سے محونہ کرسکاہوں-برطانیہ میں تو میرے بچے اور بیگم ساتھ تھے مگر جب مصر آیا تو دونوں بیٹے کالج اور یونیورسٹی میں پہنچ چکے تھے بس سال میں ایک بار گرمی کی چھٹیوں میں آتے تھے ہاں البتہ بیگم صاحبہ کم وبیش ماہ دو ماہ بعد آکر میرے لئے کھانے پکا کر گھر میں موجود بڑے فریج کے حوالے کرکے چلی جاتی تھیں- تنخواہ چونکہ سفارتی سسسٹم کے مطابق ڈالرز میں ملتی تھی پیسے کی فراوانی تھی-یہاں ایک لطیفہ نما قصہ بھی بر سبیل تذکرہ سناتا چلوں ، ہوا یوں کہ سردیوں میں بیگم مصر آئی ہوئی تھیں-سرکاری طور پر ہمیں مکمل فرنشڈ گھر کی سہولت حاصل تھی اور یہ گھر مصری فوج کے ایک ریٹائیرڈ جنرل کا تھا، جنرل فہمی اور ان کی بیگم دونوں انتہائی خلیق اور ملنسار تھے جب بھی میری بیگم آتیں دونوں میاں بیوی ہمارے گھر آتے تھے- گھر میں کمبل تو تھے مگر میں لحاف اوڑھنے کا عادی ہوں چنانچہ میں نے جنرل سے انگریزی کے مختلف الفاظ کے ذریعے سمجھانا چاہا کہ مجھے لحاف چاہئیے ہے جنرل صاحب کو انگریزی اور ان دنوں مجھے مصری عربی بول چال واجبی سی آتی تھی – وہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ اچانک میری بیگم نے مجھ سے پوچھا کہ لحاف کو عربی میں کیا کہتے ہیں؟یہ سن کر جنرل صاحب اچھل کربولےYou mean LEHAF Doctor میں کہا جی ہاں -پھر بولے شام تک مل جائے گا آپ کو- معلوم ہوا کہ جس لفظ کو سمجھانے کے لئے ہم انگریزی میں مغز ماری کر رہے تھے وہ تو عربی ہی سے اردو میں آیا ہے-بہرحال یہ تو جملۂ معترضہ تھا اب اصل مضمون کی طرف آتے ہیں – مجھے اب تک جن ملکوں کی سیروسیاحت کے مواقع میسر آئے ہیں ان میں برطانیہ، فرانس، ناروے، مصر،سعودی عرب ، ایران ،عراق، شام، قطر، دبئی ،بحرین ملائیشیا،ازبکستان، آذر بائی جان، فلپائن اور اب یہ ساتواں درامریکہ شامل ہے-

ساتواں در:

امریکہ آنے کے بعد سے ہی میں یہاں کے نظام مطالعہ کابہ نظر عمیق کر رہا ہوں کہ دیکھ سکوں ہم پاکستانی اپنے وطن میں اب تک کیوں ایک ہی دائرے میں گھوم رہے ہیں اور یہ یہاں تک کیسے پہنچے ہیں کسی نتیجے تکُ پہنچنے کے لئے میں جب تک یہاں ہوں مختلف جہات سے اس بات کا کھوج لگانے کے لیے اس معاشرے کا جائزہ لیتا رہوں گا-

چھتر چھایا:

یہاں امریکہ میں جس طرح مختلف الخیال، متنوع عقائد، رنگ و نسل اور ثقافت کے لوگوں کو آزادی کے ساتھ اپنے اپنے انداز میں زندگی گزارتے دیکھا دل خوش ہوگیا-یہاں مسجد بھی ہے، مندر بھی ، گرجا بھی ہے گردوارہ بھی ،چرچ بھی ہے سینی گاگ بھی- کوئی دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتا، مزے سے زندگی گزارو کوئی نہیں پوچھتا تمہارے منہ میں کے دانت ہیں- اس اعتبار سےاس ملک کے قوانین کی چھتر چھایا نے سب ہی کو اپنی آغوش میں لیا ہوا ہے- اسی کو قانون کی حکمرانی کہتے ہیں-خود میں بھی UVیہاں سیاٹل کے ایمان سنٹر میں باقاعدگی سے نماز با جماعت اور دیگر اوراو و اعمال انجام دے رہا ہوں- یہاں انسان کی خبر گیری پر زور دیا جاتا ہے اس کے عقیدے یا رنگ و نسل پر توجہ نہیں دی جاتی اور یہی در اصل منشائےالۂی بھی ہے؀

یہی ہے عبادت،یہی دین و ایماں

کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں۔

کبھی کبھی سوچتا ہوں انسان پگھلے ہوئے موم کی طرح ہے کہ جس کٹھالی میں ڈالو ویسا ہی ہو جاتا ہے – وہی پاکستانی جو اپنے وطن میں ٹریفک اشارہ کا ٹنے پر سینہ پھلا کر گزر جاتے ہیں امریکہ یا برطانیہ میں بھیگی بلی کی طرح سر جھکا کر قواعد کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں-معلوم یہ ہوا کہ قانون کی حکمرانی اور ان کے نفاذ کی یکسانیت ہی میں طاقت ہے جو سرکش سے سرکش انسان کو بندے کا پتر بنا دیتی ہے- یہ بھی حقیقت ہے کہ قانون کا نفاذ اوپر سے نیچے ہوتا ہے ، جہاں قانون کی پابندی نہ کرنے پر وزیر اعظم کو جرمانہ ہوتا ہو اور طاقتورشخص کی لاش کو قبر سے نکال کر پھانسی پر لٹکایا جا سکتا ہو وہیں قانون کی حکمرانی ہو سکتی ہے ، کاش ہم بھی کبھی یہاں تک پہنچ پائیں!!