’’اللہ میاں کا کارخانہ ‘‘ یا تہذیب کے برزخ میں متحرک روحیں

یہ تحریر 1749 مرتبہ دیکھی گئی

‘‘اللہ میاں کا کارخانہ’’ناول کا یہ نام دو جہتیں رکھتا ہے ۔ایک جہت نام کی بیرونی سطح پر لرزاں ہےجو انسان کے مجبور محض اور تن بہ  تقدیر ہونے کو ظاہر کرتی ہے ۔جیسا کہ ناول نگار لکھتا ہے ‘‘تم چاہے جتنی کوششیں کر لو ہو گا وہی جو اللہ میاں چاہیں گے ’’ دوسری جہت نام کی زیریں سطح پر طنز بلیغ کی صورت موجود ہے ۔ناول کے دیگر کردار جو عمل اور زندگی کے درمیان تال میل بٹھا کر زندگی کرنے کی سعی کر رہے ہیں وہ کامرانی کے جذبہ کے ساتھ زندگی میں رواں دواں ہیں ۔جیسے جبران کے چچا اور ان کے بچوں کے کردار ۔خدا ،انسان اور اختیار کا یہ فلسفہ اس وقت اور زیادہ اجاگرہو کر سامنے آتا ہے۔ جب ناول نگار، جبران اور خدا کے درمیان مکالمہ کراتا ہے ،اس مقام پر عمل و قدر کی داخلی کشمکش پوری طرح جلوہ گر ہو کر سامنے آتی ہے ۔ناول کا یہ حصہ فنکاری کا اعلیٰ نمونہ ہے ۔ناول میں  موجود خدا ،انسان اور اختیار کا سارا فلسفہ چند جملوں میں حل ہو گیا ہے ۔جبران اور خدا کے درمیان مکالمے میں کردار کے عمر کی پیروکاری  ناول نگار کی فنکاری کی بین دلیل بنتی ہے ۔یہ پورا مکالمہ ان سابقہ معلومات سے ایک قدم آگے نہیں بڑھتا جو جبران کو اس کے والد والدہ اور حافی جی سے حاصل ہوئیں ہیں ۔یہاں خدا نور کے ہالہ کی صورت منور ہوا ہے جس کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی ہل نہیں سکتا ۔خدا اور قدر کا وہ روایتی تصور جسے مشرق نے ناگواریوں اورانسانی نارسائی کی صورتوں کو گوارا کرنے کے لیے تقدیر کے جبر کی صورت میں قابل قبول مان لیا ہے۔

ناول نگار اس مکالمے کااختتام اس انداز میں کرتا ہے کہ حافی جی نے جبران کو گولر کے پتے لانے کو کہا ہے۔ درخت کی اونچائی کے پیش نظر حافی جی نے درخت پر نہ چڑھنے کی تنبیہ بھی کی ہےلیکن وہ یہ سوچ کر چڑھ جاتا ہے کہ کون سا حافی جی دیکھ رہے ہیں ۔اس مقام پر حافی جی ایک ذمہ دار مربی کی حیثیت سے باقی رہتے ہیں اور جبران حافی جی کی تنبیہ کی خلاف ورزی کر کے آزادی عمل و اختیار کو بروئے کار لا کر انسانی استعداد کو آزمانے کا کام پیڑ پر چڑھ کر انجام دیتا ہے ۔جبران کے ابا اور ان کے جماعتی رفقاء کے درمیان جبران کا کردار سفید کپڑوں میں ملفوف فرشتوں کے درمیان ننھے انسان کی صورت ظہور کرتا ہے ۔اس ننھے انسان کی خصلتیں ان جماعتی فرشتوں کی ناک میں دم کر کے رکھ دیتی ہیں ۔

جبران کے سوالات اللہ میاں نے مرغی بنائی تھی تو بلی کیوں بنائی ؟یا اللہ میاں نے سردی کیوں بنائی ؟ انسانی جبلتوں کو سامنے لاتے ہیں ۔اس کے بر عکس جبران کے ماں باپ اور حافی جی کی باتیں انسانی جبلتوں اور فطرت کی مکمل طور پر نفی کرتی ہیں ۔عقیدہ ،عقیدت کا سارا فلسفہ اور اس کے گرد بنا گیا کہانی کی صورت یہ بیانیہ جبران کے معصوم اور فطری سوالات کے آگے بند باندھنے کا کام کرتا ہے ۔یہی بیانیہ ہمیں ایک بند گلی میں لا کھڑا کرتا ہے جہاں پر ناول نگار اندھیرے کی رونمائی کر کے سنجیدہ سوال قائم کرتا ہے ۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ کو ن سا سنجیدہ سوال قائم کرتا ہے تو وہ سنجیدہ سوال عقیدہ و عمل کی کشمکش سے متعلق ہے کہ عقیدہ کس طرح بے عملی کو راہ دیتا اور آزادی فکر و شعور کے سامنے بند باندھتا ہے ۔یہاں سوالوں کی نوعیت بالکل معصومانہ ہے اور ان کے جوابات عقیدتمندانہ  ۔مثلا جبران کی ماں کا کہنا ‘‘کہ اللہ تم لوگوں کو ان عبادات کا اجر دے گا ’’ایک مخصوص طرز فکر کی نمائندگی کرتا ہے جس میں تدبر و تفکر کے بجائے جزاء و سزا کا لگا بندھا تصور کارفرما ہے ۔  ( یہ بھی پڑھیں محسن خان کا ناول’’اللہ میاں کا کارخانہ‘‘ ایک مطالعہ – ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی)

ناول کی خوبی یہ ہے کہ یہاں انسانی المیہ کے ساتھ جانور بھی رونق لگاتے ہیں۔ یہ دوپائے چوپائے ذی روح کہیں خود بھی المیہ بنتے ہیں تو کہیں المیے کا سبب بن کر حاضر ہوتے ہیں۔ یہ ناول میں مقصود بالذات نہیں ٹھہرتے بلکہ یہ جبران کی سائیکی اور زندگی میں طاقت کی رسہ کشی کے پیچ کو واشگاف کرتے ہیں۔ محسن خان کلو اور چتکبری کی صورت میں صرف مرغیوں کا بیان نہیں کرتے بلکہ وہ دوایسے رویوں کی نمائندگی کرتے ہیں جو انسان اور مرغی کے مابین مشترک ہیں۔ بچے کی فطرت پر آس پاس اور قریب کے وقوعے کس طرح اثرانداز ہوتے ہیں اس کا بیان محسن خان جبران کے خواب کے توسط سےکرتے ہیں۔ کلو نامی مرغی کو بلی پکڑ لیتی ہے۔اس رات جبران خواب میں اللہ میاں کو دیکھتاہے اور مرغی کے مرجانے پر اپنی اندرونی چوٹ اور غمناک کیفیت کو بیان کرتاہے تو اللہ میاں اس سے کہتے ہیں کہ میں تمھاری اس کالی مرغی کو پھر سے بنائے دیتا ہوں۔ اللہ میاں اپنی بڑی بڑی جیبوں سے کالے پر نکال کر ہوا میں اچھالتے ہیں مرغی پر پھیلائے جبران کے آنگن میں اترتی ہے۔ اس سائیکی کی تشکیل میں صرف اس واقعہ کو دخل نہیں ہے بلکہ جبران کی سائیکی میں اس کی اپنی روایت کے دوسرے قصے بھی موجود ہیں۔ ذرا سا غور کرنےپر ہمارا ذہن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس واقعہ کی طرف منتقل ہوتاہے جہاں وہ موت کے بعد زندگی کے متعلق سوال کرتے ہیں اور مختلف سمتوں میں ڈالے پرندے کے اجزاء کو یکجا کرکے اللہ تعالیٰ پرندے کو زندہ کرتاہے۔ ناول نگار داستانوی انداز میں کھل جا سم سم کی سی ترکیب سے جس طرح اللہ میاں کی جیب سے مرغی کو برآمد کرتاہے وہ اپنے آپ میں لاجواب ہے اور بچوں کی نفسیات اور ان کی طلسم پسندی سے انصاف کرتا ہوا معلوم ہوتاہے۔

نفسیات ہی کے حوالہ سےایک واقعہ کی طرف اور توجہ دلانا چاہوں گی ۔وہ واقعہ جبران کی والدہ کی موت کا ہے ۔جس وقت جبران کی والدہ کو قبر میں اتارا جا رہا تھا اسی وقت ایک پتنگ جو کٹ گئی تھی اسے دانش نے حاصل کر لیا۔جبران کا اس پر ردعمل انسانی نفسیات کا گہرا ادراک کراتا ہے ۔وہ کہتا ہے ‘‘اس دن اگر میری اماں کی جگہ دانش کی اماں مری ہوتیں تو وہ پتنگ مجھے مل گئی ہوتی ۔’’قدرت نے انسانی جبلت میں توازن کی ایک ڈور کھینچ دی ہے ۔غم و خوشی کی یہی ڈور ایک دوسرے کو کھینچے رہتی ہے اور انسان کو بے توازن ہونے سے بچائے بھی رکھتی ہے ۔ ( یہ بھی پڑھیں اللہ میاں کا کارخانہ- ابوالفیض اعظمی )

گدھے کے بیان سے طنز بلیغ پیدا کرنے کی راہ پیدا کی گئی ہے۔ یہاں تہذیبی حصارسے ہٹ کر اس میں جی رہے کرداروں کو دیکھنے دکھا نے کا جتن خوب ہے۔ حافی جی گدھے کی دم میں پیپا باندھنے کی سزا جبران اور خالد کو دیتے ہیں۔ انھیں پھٹکار لگاتے وقت کہتے ہیں:

“ایک وہ مفکر وعالم خلیل جبران تھے جنھوں نے دنیا کو علم کا خزانہ بخشا اورایک یہ شیطان جبران ہیں جنھیں علم سے اللہ واسطے کا بیر ہے۔ ”

” اور ایک وہ خالد بن ولید تھے جو میدان جنگ میں گھوڑے دوڑا کر منافقین اور مشرکین کی صفیں الٹ دیا کرتے تھے اور ایک یہ خالد ہیں جو گدھوں کی دم میں پیپے باندھ کر انھیں دوڑاتے ہیں۔”

ناول نگار گو کہ یہ الفاظ حافی جی کے ذریعے کہلواتاہے ،خالد‌اور جبران کو کٹگھرے میں کھڑا کرتاہے۔ لیکن دراصل ان الفاظ کو خود حافی جی پر الٹ دیتاہے کہ مربی واستاذ حافی جی ہیں۔ بچے ان کے زیر تربیت ہیں ، جو عبرت کی چھڑیاں کھاتے ہیں اور انجام کے طور پرجبران کے والد جیسے کردار معاشرے کو دیتے ہیں جو زندگی کا اسی نوع کا شعور حاصل کرپاتے ہیں جیساپیپے والے گدھے کاہے :

“اگر گدھے کی عقل میں یہ بات آجائے کہ اس کی دم میں بندھا ہوا پیپا اس کے بھاگنے کی وجہ سے آواز پیدا کررہا ہے اور اس کی ٹانگوں کو چوٹیں پہنچا رہا ہے تو وہ گدھا کیوں کہلائے۔ “(٧٤)

خالد بن ولید اور خلیل جبران کا ذکر بھی معنویت رکھتا ہے کہ خلیل جبران علم کا علامیہ ہیں اور خالد بن ولید طاقت کا ۔اور ہمیشہ دنیا علم اور طاقت کے ذریعہ ہی فتح کی گئی ہے ۔

ناول میں کتا بھی موجود ہے اور وہ بھی قطمیر نام کا۔ یہ وفاداری کی علامت کے ساتھ ساتھ تہذیبی تغیر کا بھی نمائندہ نشان ہے۔ نوآبادیاتی عہد میں انگریز جب اپنی تہذیب اور کلچر لے کر آئے تو اس تہذیب کا گماشتہ کتا بھی ساتھ آیا۔ کتا پالنا، اس کی خاص نسلوں کا اہتمام کرنا، اسے لے کر سیر کو جانا،چہل قدمی میں کتے کی ہمدمی کو ناگزیرکرنا یہ نوآبادیاتی اشرافیائی تہذیب کی علامت بن گیا۔ حاکم کی تہذیب کا لازمہ  مرعوب محکوموں میں اب تک چلا آتاہے۔ ورنہ کتا ہماری تہذیب میں گھر کی اندرونی زندگی کا نہیں بلکہ گھر کے باہر کی زندگی کا فعال کردار تھا۔ وہ چوکیداری اور شکارکے کام آتارہا تھا۔ نوآبادیاتی تہذیب نے جو کتاہمیں دیا اس کا روپ ہمارے تہذیبی کتے سے بالکل جدا اور انوکھا نکلا۔ یہاں جبران کے چچا کا کتا قطمیر گو نوآبادیاتی اشرافیائی تہذیب کا غماز  ہے لیکن اصحاب کہف کے کتے کا ہم‌نام ہے اور وفادار جانور ہے اس لیے وہ اپنے صاحب کی موت کے غم میں فوت ہوجاتا ہے۔  جبران کو اس کی موت کا غم سب سے زیادہ ہوتا ہے اور جس طرح چچی جان اسے پھنکوانے کا نظم کرتی ہیں اس سے جبران کو قدرے تکلیف بھی ہوتی ہے۔اسی طرح بکری مسلم تہذیب کی کلاسیک علامت ہے۔ انبیاء کے بارے میں آتا ہے کہ انھوں نے بکریاں چرائی ہیں۔ اور بکرے کی قربانی ہندستان کی مسلم معاشرت کا صدیوں کا تجربہ ہے۔ اس کے علاوہ رسول کا قول ہے کہ بکری کے جھنڈ میں اونٹ اور بھیڑ کے جھنڈ کے مقابلے انکسار ہے۔ اس لحاظ سے بکری کاتصور مسلم تہذیب میں ایک قدیم اور قدرے انسیت رکھنے والا تصور ہے۔ بکری سے جبران کا      لگاؤ اور اس سے مکالمے کی جو صورت ناول نگار نے پیدا کی ہے وہ اچھوتی چیز ہے :

‘‘ جب میں چشمہ لگا کے اس کے پاس گیا تو پہلے اس نے مسکرا کر مجھے دیکھا پھر کہا ۔اچھ ہے ہے ہے  ۔یعنی اچھے لگ رہے ہو ۔میرے ہاتھوں کو سونگھنے اور چاٹنے لگی ۔

بکری سے کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد جب میں اس کے پاس سے جانے لگا تو وہ میری طرف لپک لپک کر زیادہ زور زور سے چلانے لگی ۔جب میں نے اس سے کہا کہ چپ ہو جاؤ حافی جی سو رہے ہیں ،تمہاری آوازوں سے جاگ جائیں گے تو وہ کہنے لگی بھ ہو ہو ہو ۔

میں نے اس سے کہا ابھی توعصر کی نماز میں اتنا وقت باقی ہے اور تم کو ابھی سے بھوک لگنے لگی تو اس نے کہا ۔میں ہیں ہیں ہیں۔وہ یہ کہنا چاہ رہی تھی کہ  میں کیا کروں ۔

آخر میں جب میں نے اس سے پوچھا تم رات میں اتنی زور زور سے چلاتی کیوں رہتی ہو تو اس نےکہا ۔ڈھ ھاھاھا۔یعنی مجھے ڈر لگتا ہے ۔

رات کو ڈر تو مجھے بھی لگتا ہے بلکہ دن کو بھی جنگل میں بھیڑئیے کے خیال سے ڈر لگتا ہے اور جانوروں کو تو سب باتیں معلوم ہو ہی جاتی ہیں ۔میری بکری کو بھی پتہ چل گیا ہو گا کہ مجھے ڈر لگتا ہے ،اس لئے جب میں نے اس سے یہ کہا کہ ہمیں اللہ میاں کے سوا کسی سے بھی نہیں ڈرنا چاہئے تو میری طرف دیکھ کر مسکرانے لگی ۔’’

اس مقام پر ہم نے دیکھا کہ ناول نگار نے مختلف حروف ہجاء سے بکری کی منمناہٹوں میں کتنے با معنی جملے رکھ دئیے ہیں۔ یہ سارے بامعنی جملے جبران کے ذہن کی اپج ہیں۔ ان سے جہاں ایک طرف اس سےبکری سے یگانگت اور انسیت کا پتہ چلتا ہے دوسری طرف ایک خلا اور سناٹےکا بھی احساس ہو تا ہے ۔حافی جی جو اس کے مربی اور نگراں ہیں ان سے بے تکلف گفتگو کی کوئی سبیل نہیں ہو سکتی کہ کسی ساتھی کا خلا وہ ان سے پورا کرے اس لئے بکری ہی اس کا واحد مخاطب بچتی ہے ۔

جبران ایک ترقی پسند روشن خیال فعال اور قابل فخر شہری اور انسان ہونے کا تمام  امکانات رکھتا ہے اور ناول نگار موقعہ بموقعہ ان امکانات کو اجالتا رہتاہے۔

اس ناول کی معاشرتی اور تہذیبی جہت ہمارے ماضی قریب کی ہے۔ یہ معاشرت مختلف وقوعات اور ناول کی بنت میں شامل مختلف اجزاء سے مترشح ہوکر سامنے آتی ہے۔ یہ سلطنت مغلیہ کی روبہ زوال تہذیب کا ایک لحاظ سے امتداد ہے۔ ہم ناول کے شروع میں ایک عرض ناشر سے روبرو ہوتے ہیں۔  جس میں کلکتہ کا ذکر ہے ساتھ ہی خدا بخش کی یاد دلا کر عرض ناشر ختم کر دیا گیا ہے ۔اس کا تعلق ناول سے کیسے نکلتا ہے یہ ایک اہم سوال ہے ۔ اس سوال کی تلاش میں جانے کے لیے ہمیں کلکتہ کی مرکزیت اور نئے ہندستانی شعور کی پرداخت میں اس کے کردار کو ذہن میں لانا ہوگا۔ کلکتہ وہ جگہ ہے جہاں نئی تعلیم کی تحریک وترغیب پیدا کی گئی۔ انگریزوں کے زیر اقتدار نئی تعلیمی پالیسی بنائی گئی اور یہاں قدیم وجدید تعلیم کی بحث شروع ہوئی۔ قدیم تعلیم‌کے حامیوں نے تحفظ اور خدشات کی سائیکی کے زیر اثر اس تقسیم کو قبول کرلیا۔ اس طرح ہند مسلم معاشرے میں دو طبقے اور رویے پیدا ہونا شروع ہوئے۔ یہ دونوں رویے جبران کے چچا اور والد کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ جبران کے والد ولید جو صرف روایتی دینی تعلیم پر قانع ہیں، اپنے بھائی جمیل کوبے دین کہتاہے اور جمیل ،بھائی سے اس لیے شاکی ہے کہ اس نے اپنے بچوں کو عصری تعلیم سے محروم رکھا ہے۔ یہیں پرناول نگار تہذیب اور تعلیم کے فرق کو نمایاں کرتاہے۔ جمیل اور اس کےبچے عصری تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ شطرنج کھیلتے ہیں۔بیوی نے پردہ ترک کردیاہے۔ کتا اندرون خانہ گھر کے فرد کی طرح قیام کرتاہے۔ یہ وہ تہذیب ہے جسے نئی روشنی نے روشن کیا ہے۔ولیدکے گھر میں قرآن نماز تلاوت دعا،طہارت خوف خدا ،موت، آخرت کی زندگی ،پردہ جیسے موضوعات واعمال زندگی کی سرگرمی متعین کرتے ہیں۔ ان ظاہری تغیرات کے علاوہ دونوں قسم کے افراد کے باطنی رنگ کو بھی ناول نگار نے دکھانے کی کوشش کی ہے ۔ جمیل کی بیوی کا رویہ مادہ پرستانہ ہے۔ وہ ولید کی گم شدگی اور اس کی بیوی کی موت کے بعد ان کے بچوں کو اپنے گھر میں ٹھہرانے کے حق میں نہیں ہے۔ انھیں اسٹور میں جگہ دیتی ہے۔ نصرت سے ملازمہ کے کام لیتی ہے۔ جبران کی ایک غلطی پر اسے ہمیشہ کے لیے گھر سے نکال دیتی ہے۔ حافی جی جن سے اس قسم کی غلطی کے بخشنے کا امکان نہیں ، وہ اسے اپنے ساتھ ٹھہرالیتے ہیں۔ کھانے میں ساجھے دار بنا تے ہیں۔ گو اس سے اپنے  ذاتی کام بھی لیتے ہیں لیکن عید کے موقعے پر کپڑوں کے ساتھ ساتھ چشمہ خرید کر پدرانہ شفقت کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ ان دونوں انتہاؤں کے بیچ جمیل کا کردار ہے جس کے ظاہر نے جدید اثر قبول کیا ہے لیکن مادیت نے اسے مسخ نہیں کیا۔ مشرق ومغرب کی کشمکش میں پھنسا یہ کردار باشعوری کی اذیتیں سہتاہے اور چپکے سے مر جاتاہے۔

ان دونوں بیانیوں کے علاوہ مصور کے پاس ایک تیسرا رنگ بھی ہے وہ رنگ رام سیوک کا ہے۔ اس  کردار کا نام ہی بڑی معنویت رکھتا ہے ۔یہ  غیر مسلم سماج کا عکس  ہے اس کردار کے ذریعہ ایک ہی خطہ میں رہ رہے مختلف الخیال افراد کی ایک دوسرے سے  معاملت کو دکھایا گیا ہے ۔ وہ جبران کو کٹوا کہتا ہے ۔وہ اس سے پوچھتا ہے کیا تمہاری بکری مسلمان ہے ۔ناول میں اس کردار کا تعارف جس انداز سے کرایا گیا ہے وہ آپ بھی دیکھیں :

‘‘جنگل میں سناٹا تھا ۔۔شاید چڑیاں کھیتوں میں دانا چگنے گئی ہوئی تھیں ۔میں بکری کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھا ۔جب ہوا چلتی اور سوکھے پتے کھڑکھڑاتے یا درختوں کی شاخیں ہلتیں تو میرا دل دھڑکنے لگتا اور میں جلدی سے زمین پر بیٹھ کر جنگل کے چاروں طرف یہ دیکھنے لگتا کہ کہیں بھیڑیا تو نہیں آرہا ہے اور حفاظت کی دعا پڑھنے لگتا ۔

اسی وقت رام سیوک اپنی گائے لے کر آتا ہوا دکھائی دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’

بھیڑئیے کا خوف اور اسی وقت رام سیوک کا آنا بڑی معنی خیزی رکھتا ہے ۔

ایک کردار رخسانہ خالہ کا ہے ۔جو بے پردہ نکلتی ہے ۔میک اپ کرتی ہے ۔انہیں اسباب سے جبران کے والد اسے بالکل پسند نہیں کرتے ۔اسے گنہ گار اور جہنمی کہتے ہیں ،جبکہ یہی وہ واحد کردار ہے جو ان لوگوں کی مشکل حالات میں مدد کرتا ہے ۔اسی طرح دو قسم کے کتوں کا بیان ہے ایک وہ جس کا نام قطمیر ہے جو مالک کے غم میں مر جاتا ہے دوسرے وہ جو فجر کی اذان کے ساتھ ہی ہو ہو شروع کر دیتے ہیں جیسے اذان کے سر سے سر ملا رہے ہوں ،جنہیں جبران کے والد منحوس نجس کہتے ہیں اور پلنگ کی پٹی سے ان کی پٹائی کرتے ہیں ۔جبکہ جبران کی والدہ ان سے کہتی ہے ‘‘بھلا بے زبان جانوروں سے کیا الجھنا اور پھر وہ بھی تو اللہ ہی کی مخلوق ہے ۔ان کے دلوں کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے ۔ہو سکتا ہے وہ بھی عبادت کرتے ہوں ۔’’ اس پر جبران کے والد کہتے ہیں ‘‘نجس جانور نعوذباللہ عبادت کریں گے ،تمہارے پاکستان میں کرتے ہوں گے ۔’’

یہاں فصل سے پہلے لکھا ہوا وہ جملہ بامعنی ہو جاتا ہے کہ ‘‘جب تم یہ سمجھ رہے ہوتے ہو کہ الو بے وقوف اور منحوس ہوتا ہے تو کچھ لوگ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ وہ بے وقوف اور منحوس نہیں ہوتا ۔’’

گویا خواہ فرد ہو ،جانور ہو یا کوئی اور وہ اپنے آپ میں اچھا برا ،نجس ،پاک،نہیں ہوتا ۔آپ کے دیکھنے کا زاویہ اسے ویسا بنا دیتا ہے ۔

محسن خان نے تہذیبی علامتوں سے خوب کام لیا ہے ۔مسلم تہذیب کی علامتوں میں ایک طرف حافی جی ہیں دوسری طرف مجذوب گدڑی والے بابا ہیں جو گنہ گار بستیوں پر بلائیں نازل کراتے ہیں ۔عادل کے ماموں اور ان کے گھر والے ہیں جو توہمات کا شکار ہیں ۔کوے کے سر پر بیٹھ جانے پر موت کا انتطار کرتے ہیں ۔اسی کے مقابل عالم صاحب ہیں جو ان چیزوں کو توہمات اور خرافات گردانتے ہیں ۔ان کرداروں کے علاوہ جانوروں کو بھی تہذیبی علامت کے طور پر استعمال کیا ،مثلا کتا،بکری ،گائے ،مرغی  وغیرہ ۔

ناول میں ایک دلچسپ چیز ہے کتے کا نام قطمیر ۔جو اصحاف کہف کے کتے کا نام تھا ۔اور جبران کے چچا کے گھر میں مقیم باشندوں کی تعداد ۷ ہے جو اصحاب کہف کی تعداد بتائی جاتی ہے ۔اولا ََیہ خیال آتا ہے کہ ناول سے اس تعداد اور نام کا تعلق بے ربط سا ہے ،کیوں کہ پہلی نظر میں یہ نسبت ادھوری سی معلوم ہوتی ہے لیکن جب ہم اس پہلو پر غور کرتے ہیں کہ یہ ایک خاص تہذیب کے افراد سے متعلق کہانی ہے جس کے یہاں مذہبی علامات و تلمیحات ،عقیدہ و اعتقاد کے دائرہ میں آتی ہیں اور جہاں اس قسم کی مذہبی نسبتیں نجی زندگی میں باعث برکت تصور کی جاتی ہیں ۔وہی نسبت ناول نگار نے اس گھر کے مکینوں  سے قائم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ناول نگار کا نسبت قائم کرنے کا عندیہ جب کھلتا ہے جب ہم گھر کےمکینوں  کے اعمال کو دیکھتے ہیں مثلا جمیل کے دونوں بچے جو ناول میں فقط ایک نام ہیں جن کا کوئی وجود نہیں یہ معاشرے میں بے نام کرداروں کی جگہ لیتے ہیں ۔جبران کی دادی جو بزرگ ہیں اور سننے کی صلاحیت سے تقریبا محروم ،ان سے بات کرنے کے لئے چیخنا پڑتا ہے ۔جبران کا چچا اور چچی ۔جو  طاقت کی نمائندگی کرتے ہیں اور جن میں سے ایک فوت ہو جاتا ہے ۔چچی جو اختیار کا استعمال مظلوموں پر کرتی ہیں ۔نصرت جو معاشرہ میں مجبور وں کی نمائندگی کرتی ہے ۔اور جبران جو قابل قبول نہیں ۔ اصحاب کہف ہونے کی چاہت اس تہذیب میں موجود ضرور ہے لیکن عملی طور پر ایسا ممکن نہیں ہے۔ تہذیب کی بدلتی صورت اور شعور ورویوں کی کشمکش نے اس امکان کو ختم کردیا ہے ، اس لیے یہ مماثلت صرف عدد اور نام کی سطح پر باقی رہتی ہے۔ مظلومیت اور گمنامی کی شرط کو بعض پورا کرتے ہیں اور بعض نہیں کرتے۔ اس طرح بدلتی تہذیب پر اپنی مقامیت اور سابقہ تہذیب کےتئیں موجود رومان ملمع کی صورت میں کس طرح سامنے آتا ہے، اس بات کا یہ اشاریہ قطمیر ہے۔

ناول میں ایک جگہ تتلی کا ذکر آیا ہے جو نیلے اور سفید رنگ کی ہے ۔تتلی زندگی اور امید کی علامت ہے ۔نیلا رنگ طاقت اور ذہانت کی علامت ہے ۔تتلی کا ذکر ایک نئی زندگی کی نوید ملنے سے چند لمحے قبل ہی آتا ہے ۔لیکن تتلی دوہری معنویت رکھتی ہے ۔ایک یہ کہ بچے کی آمد اور تتلی کے شکار ہو جانے سے اس طرف بھی اشارہ ہے کہ بچہ زندگی نہ پا سکے گا ۔دوسرے یہ کہ جبران اس تتلی کی خواہش کرتا ہے ۔اسے پالنا چاہتا ہے ۔یہاں جینے اڑنے اور رنگ کی خواہش جبران سے بھی منسوب ہو جاتی ہے ۔اور جبران جو امید کا استعارہ بن سکتا تھا اڑنے سے پہلے گرفتار ہو جاتا ہے ۔بالکل اسی تتلی کی طرح ۔

خوشی ،غم ،محبت ،نفرت  یہ یونیورسل جذبات ہیں ۔بچوں کے تئیں مشفقانہ اور ہمدردانہ جذبات بھی ساری تہذیبوں میں یکساں ہیں ۔ناول نگار ان نفسیاتی عوامل کو کام میں لا کر جہاں اسے آفاقی رنگ دیتا ہے وہیں جبران کو نمائندہ بنا کر پوری تہذیب کو کردار میں ڈھال دیتا ہے ۔کہانی کے مختلف کردار ،مختلف خیال ،مختلف اعمال سب ناول کے اختتام پر ایک اکائی بن کر ابھرتے ہیں ۔یہ تہذیبی اکائی قارئین کے مخصوص طبقہ کے باطن میں پہلے سے موجود ہے ۔یہ طبقہ  مالیخولیا کا شکار ہے ۔اور اپنے اس مرض میں قبروں پر کتبے لگاتا پھرتا ہے لیکن اسے نہیں معلوم کہ

‘‘قبر کی مٹی کو چاہے جتنا کسا جائے ایک دن پانی کے ساتھ بہہ جاتی ہے ۔’’ جیسا کہ عرض ناشر سے واضح ہوتا ہے کہ ‘‘سرگزشت کے بعض ابواب اور اقتباسات مذہب اور اخلاقیات کی رو سے قابل گرفت اور باعث شر ہو سکتے تھے ،لہذا انہیں حذف کر دیا گیا ہے ۔’’آج بھی ہمارا معاشرہ اس قابل نہیں ہوا کہ سوالوں کو سنجیدگی سے لے اور ان پر غور و خوض کرے ۔آج بھی ذہنوں میں وسعت نہیں ۔برداشت کا حوصلہ نہیں ۔ایک بچے کے سوالوں سے خائف سماج اسے مذہب و اخلاق کی رو سے قابل گرفت قرار دے کر جبران کو ایک بار پھر بے چہرہ و بے زبان کر دیتا ہے ۔اس کی خاموش چینخ جو پہلے ہی صفحے پر اس طور گونجتی ہے اس کی تصویر کے ساتھ  کہ ‘‘یہ میں ہوں ۔۔۔جبران ’’ قارئین تک ادھوری ہی پہنچتی ہے ۔کیوں کہ وہ جس معاشرہ کا فرد ہے اس میں ابھی آئینہ دیکھنے کی تاب نہیں پیدا ہو سکی ہے ۔