الجھی سلجھی زندگیاں

یہ تحریر 913 مرتبہ دیکھی گئی

جن حضرات کا خیال ہے کہ حقیقت پسندانہ ناول اپنے تمام امکانات پورا کر چکا ہے اور موجودہ اور پیچیدہ دور میں ازکار رفتہ معلوم ہوتا ہے وہ غلطی پر ہیں۔ حقیقت پسندانہ ناولوں میں بدلتی دنیا کے مخمصوں،خرخشوں کو سمونے کی آج بھی بڑی گنجائش ہے۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے بیشتر افراد ایسی زندگی گزارتے ہیں جو حقائق سے نتھی ہوتی ہے۔ حقیقت پسندانہ فکشن اپنی حدود میں رہ کر اس زندگی کی بخوبی ترجمانی کر سکتا ہے۔ تجرباتی ناول کامیابی سے لکھنے کے لیے بڑا منفرد ذہن چاہیے۔ ہر مصنف کے لیے کافکا یا بورخیس بننا ممکن نہیں بلکہ وہ ان کی نقل بھی نہیں اتار سکتا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مارکیز کی ہمہ گیر شہرت نے بہت سے ناول نگاروں پر غلط اور منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔
قاسم یعقوب کے ناول “خلط ملط” میں حقیقت پسندی اور اعتدال کی راہ اختیار کی گئی ہے۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ اسے کتنی مقبولیت حاصل ہوگی لیکن اس کے خواندنی ہونے میں کلام نہیں۔ ناول کا پس منظر فیصل آباد سے جو اہم صنعتی اور گنجان آباد شہر ہے۔ ناول کو شہر کی عکاسی سے سروکار نہیں لیکن بیانیے میں آبادی کی گہماگہمی کا احساس ضرور ہوتا ہے۔
ناول میں کوئی مرکزی کردار نہیں بلکہ کئی کردار، جن میں مرد بھی ہیں اور عورتیں بھی، متوازی سطحوں پر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ رئیس جو ایک بینک میں اہم عہدے پر فائز ہے مگر اپنی ملازمت سے غیرمطمئن ہے اور بھیڑبھاڑ میں اسے اپنا دم گھٹتا محسوس ہوتا ہے۔ الگ تھلگ ہو کر زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ قاسم یعقوب نے اس ذہنی کیفیت کو اگورا فوبیا کا نام دیا ہے۔ لیکن یہ مردم بے زاری سے ملتا جلتا کوئی احساس ہے۔ رئیس کے چھوٹے بھائی، وقاص، نے گارمنٹس کی چھوٹی سی فیکٹری لگا رکھی ہے۔ وہ سنی ہے لیکن اس نے ایک شیعہ لڑکی سے شادی کر لی ہے۔ اس وجہ سے جن مفتی صاحب کا وہ مرید ہے خفا ہو گئے ہیں۔ وقاص کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ اپنی بیوی سے نباہ کیسے کرے۔
شہر کی مرکزی جگہ میں راجہ نام کا ایک نوجوان انڈوں کا تھوک بیوپاری ہے۔ پہلے یہ کام اس کا باپ کرتا تھا۔ بعد میں اس نے دکان راجہ کے سپرد کر دی۔ حادثاتی طور پر اس کی خالدہ نامی ایک عورت سے جان پہچان ہو گئی۔ خالدہ پہلے نرس تھی۔ پھر اس نے اپنا کلینک کھول لیا جہاں جائز اور ناجائز ہر طرح کے کام ہوتے تھے۔ راجہ نے خالدہ کو پُرکشش پایا۔ نوجوانوں کو بعض اوقات اپنے سے ذرا بڑی عمر کی عورتوں سے لگاؤ پیدا ہو جاتا ہے۔ اسے کسی طرح کی fixation کہہ لیں۔ یا لاشعوری طور پر راجہ اسے اپنی ماں کا بدل سمجھا ہو۔ ویسے بھی ہمارے معاشرے میں کسی نوجوان کو غیر عورت سے دوستی کرنے اور بے تکلفی برتنے کے مواقع کہاں ملتے ہیں۔ آہستہ آہستہ راجہ کو احساس ہوا کہ اگر خالدہ سے میل جول جاری رہا تو وہ ایسی پستی میں جا گرے گا جو گھناؤنی معلوم ہوتی تھی۔ خالدہ کے کلینک کا نقشہ اور وہاں آنے جانے والے مردوں اور عورتوں کا احوال بڑی سہولت سے بیان کیا ہے۔ قاسم یعقوب کا مشاہدہ اچھا ہے۔ اس سے بڑی بات یہ کہ جو کچھ دکھانا اور سنانا ہواسے کفایت سے بیان کرنے پر قادر ہیں۔
کلینک ہی پر راجہ کی شناسائی ایشال نامی ایک لڑکی سے ہوئی۔ راجہ اور ایشال کی ملاقاتیں کچھ افلاطونی رنگ لیے ہوئے ہیں۔ ایشال شادی شدہ تھی اور خاصی ناخوش کیونکہ اس کا شوہر اس پر جنسی تشدد کرتا تھا۔ پھر شوہر نے اسے طلاق دے دی۔ ایشال نے کسی اور سے شادی کر لی اور فیصل آباد سے چلی گئی۔ راجہ کی کہانی بس یہیں تک ہے۔
وقاص کی بیوی نورین حاملہ ہے۔ اسے یقین نہیں کہ بچہ وقاص ہی کا ہے یا خالدہ کے کلینک میں اس کے ساتھ راجہ کی زبردستی ہم بستری کا ثمرہ ہے۔ بہرحال، بچہ پیدا ہوا، مفتی صاحب کو دعا کے لیے بلایا گیا اور آخر میں نورین نے بچے کو وقاص کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ “یہ لو اپنا بیٹا۔ اسے کفر کے بجائے ایمان عطا کرنا۔ یہ میرے نہیں، تمھارے مسلک کا ہوگا۔” پتا نہیں یہ طنز ہے یا بوجھ اتر جانے کی طمانیت۔
ناول میں آسودگی اور ناآسودگی کی لہریں آتی جاتی رہتی ہیں۔ تمام کرداروں میں سب سے زیادہ استقامت رئیس میں ہے جس نے بینک کی نوکری کو خیرباد کہہ کر، شہر سے ذرا دور جگہ پر اپنا گھر بنانے اور زیتون کا باغ لگانے کا فیصلہ کیا۔ یہاں والتیر کا ناول کاندید یاد آتا ہے جس کے آخر میں ہے کہ “ہمیں کھیتی باڑی کرنی چاہیے۔”
استقامت اپنی جگہ خوب سہی لیکن ناول میں دو ہی کردار، راجہ اور خالدہ، انھیں برا کہہ لیں یا اچھا، جیتے جاگتے معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن رفتہ رفتہ وہ ناول کے مرکز سے ہٹ کر حاشیوں کی طرف منتقل ہو کر غائب ہو جاتے ہیں۔ یہاں ناتمامی کا احساس ابھرتا ہے۔ زندگی بھی تو ایسی ہی ناتمامیوں کا مجموعہ ہے۔
خلط ملط از قاسم یعقوب
ناشر: مثال پبلشرز، فیصل آباد
صفحات: 256؛ 600 روپے