افغان دوشیزائیں، افغان عاشق، مغربی عکس کار

یہ تحریر 2272 مرتبہ دیکھی گئی

رفیعہ زکریا
مغربی صحافی اور عکس کار پرائے لوگوں کی نجی زندگی کی حدود پھلانگ کر سنسنی خیز کہانیاں کھوجنے کے لیے مشہور ہیں۔ عکس کار سٹیو مٙکّری Steve McCurry کی نیشنل جیوگرافک کے لیے بنائی گئی “افغان دوشیزہ” کی تصویر اس شمارے کی تاریخ میں سب سے زیادہ شہرت پانے والی پہلی پانچ تصاویر میں سے ایک ہے۔ مغربی عکس کاروں میں پردہ اور چار دیواری کو روندنے کے جنون کے طور پر اس تصویر کے بنائے جانے کا واقعہ زبان زد عام ہے۔

سٹیو نے یہ تصویر پاکستان میں واقع افغان پناہ گزینون کی خیمہ بستی میں 1985 میں بنائی۔ اس وقت وہ لڑکی کا نام تک نہیں جانتا تھا۔ سٹیو کا اصرار ہے کہ تصویر لڑکی کی اجازت سے بنائی گئی۔ لیکن وہ واجبی سی اردو اور پشتو بول سکتا تھا جبکہ لڑکی غالباً یہی دو زبانیں بولتی تھی۔ گمان کیا جا سکتا ہے کہ تصویر بنائے جانے میں لڑکی کی مرضی شامل نہیں تھی۔

اس لڑکی کا نام “شربت گُلاء” تھا۔ 2002 میں سٹیو مٙکّری اور نیشنل جیوگرافک نے یک طرفہ فیصلہ کیا کہ وہ اس لڑکی کو پھر سے تلاش کریں گے۔ عالمی سطح پر جیسا تجسس اور مالی امداد پہلی تصویر کی اشاعت پر سامنے آئے، ایک بار پھر ویسا ہی جوش اس اعلان کے بعد پیدا ہوا۔ نئی کھوج سے متعلق انٹرویوز اور مضامین میں کہا گیا کہ نوعمری میں شربت گُلاء کو اس کی مرضی سے گھومنے پِھرنے کی آزادی تھی مگر اب وہ نہ جانے کہاں نقاب میں چہرہ چُھپائے گُمنامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو گی۔

چونکہ کوئی رکاوٹ مغربی میڈیا کو اپنے مقصد کے حصول سے نہیں روک سکتی لہٰذا فوراً اس مہم جوئی کے اخراجات کا بندوبست ہو گیا۔ شربت گُلاء کی عکاسی کے لیے “ٹائم لیپس” اور عکس میں “عُمر کا فرق ماپنے” والی ٹیکنالوجی حاصل کی گئی۔ مقامی مُخبروں کو رقوم کی ادائیگی ہوئی اور آخر کار شربت گُلاء کو نہ صرف ڈھونڈ نکالا گیا بلکہ وہ تصاویر بنوانے پر رضامند بھی کر ل گئی۔ اس سمے شربت گُلاء کی عمر ڈھل چُکی تھی اور وہ پہلے جیسی جاذبِ نظر نہ رہی تھی۔ نیشنل جیوگرافک نے ایک بار پھر “افغان دوشیزہ” کو پسماندگی اور افلاس کے پِٹے ہوئے پیرائے میں پیش کیا۔ سٹیو مٙکّری اور نیشنل جیگرافک نے شربت گُلاء کی از سرِ نو دریافت سے موٹی رقم بنائی لیکن بیچاری شربت گُلاء کو 2016 میں حکومتِ پاکستان نے غیرقانونی طور پر پاکستان میں مقیم ہونے پر گرفتار کر لیا۔ اُس کے پاس افغانستان واپس جانے کے لیے نہ تو ضروری دستاویزات تھیں اور نہ بس کا کرایہ۔

افغانی حرم سراؤں کا احوال نیویارک ٹائمز کے صحافی Rod Nordland نے “The Lovers” کے عنوان سے 2014 میں نیویارک ٹائمز میں شائع کیا۔ یہ مُحبت کے مارے ہوئے ایک افغانی جوڑے کی داستان تھی۔ اس کہانی کے نئے بیانیے میں نارڈلینڈ ایک فوٹوگرافر اور ویڈیو گرافر کے ہمراہ اِس جوڑے کی تلاش میں روانہ ہوتا ہے جو قبیلے کی روایت کے خلاف مرضی کی شادی کر کے کسی نامعلوم مقام پر روپوش ہو چُکا ہے۔ نارڈلینڈ مفرور جوڑے کا ٹھکانہ ڈھونڈنے کے لیے اُس کے رشتہ داروں اور واقفوں پر خوب دباؤ ڈالتا ہے مگر کوئی کُچھ بتانے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ لیکن پُرعزم مغربی صحافی اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوژتا۔ اُسے اطلاع ملتی ہے کہ لڑکے کا باپ اس شادی کا مُخالف نہیں اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ یہ لوگ کہاں مقیم ہیں۔ نارڈلینڈ لڑکے کے باپ کو معقول رقم کے عوض وعدہ لیتا ہے کہ وہ اُسے روپوش جوڑے تک رسائی دے گا۔ افلاس زدہ افغان بوڑھا نارڈلینڈ ٹیم کا قافلہ لے کر دور اُفتادہ گاؤں کی جانب روانہ ہوتا ہے جہاں ذکیہ اور علی چُھپے ہوئے ہیں۔ وہاں پہنچ کر نارڈلینڈ کو معلوم ہوتا ہے کہ علی گھر سے باہر گیا ہوا ہے۔ علی کی نوجوان بیوی گھر میں اجنبیوں کو دیکھ کر زنان خانے میں چُھپ جاتی ہے۔ لیکن نیویارک ٹائمز کا پُختہ عزم فوٹوگرافر اس قدر طویل مسافت کے بعد ہار ماننے کو تیار نہیں۔ یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ وہ چادر اور چاردیواری کی افغانی روایات سے نابلد ہے، فوٹوگرافر زبردستی زنان خانے میں جا گُھستا ہے اور ذکیہ کی تصاویر بنا لاتا ہے۔

علی اور ذکیہ کا قصّہ قلم زد کرتے ہوئے نارڈلینڈ بھول گیا کہ وہ نوآبادیاتی قبضہ گیری کی روایت کو دُہرا رہا ہے جس میں مفتوح خواتین کے تقدس اور تخلیہ کو کُھلے عام پامال کیا جاتا تھا۔ اخبار کے ایڈیٹر کو بھی اس پر کوئی تشویش ہوئی نہ پشیمانی۔ نیویارک ٹائمز میں افغان جوڑے کی تصویریں اور کہانی “رومیو جولیٹ” کی کہانی کے طور پر چٙھپی۔ کسی کو اس پر کوئی شرمندگی نہ ہوئی کیونکہ شربت گُلاء کی تصویر کی طرح یہ قصہ بھی دُنیا بھر میں قارئین کے لیے کافی چٹخارے دار رہا۔

* پاکستانی لِکھاری Rafia Zakaria کے مضمون Afghan Girls, Afghan Lovers, Western Photographers کا آزاد ترجمہ۔ یہ مضمون رافیعہ کی کتاب Veil میں شامل ہے۔