افسانوی ادب میں تبدیلیٔ قالب

یہ تحریر 1330 مرتبہ دیکھی گئی

۔۔۔

جرمن زبان کے مشہور ناول نگار اور افسانہ نگار کافکا کی ایک بہت مشہور کہانی قلب ماہئیت Metamorphosis ہے، اس کہانی میں ایک سفری بیمہ ایجنٹ گریگر سیمسا ایک بڑے کیڑے میں تبدیل ہو جاتا ہے، اس کہانی نے مختلف زبانوں کے جدید افسانے کو ایک نیا موضوع دیا ہے۔ یہ موضوع ہے انسان کا جانوری ا دوسری مخلوقات میں تبدیل ہو جاتا۔ فرانسیسی زبان کے ڈرامہ نگار آئنسکو (Ionesco) کے ڈرامے Rhinoceros میں یہ تبدیلی گینڈے کے قالب میں ہوتی ہے۔ اردو میں جدید علامتی افسانے کے پیش رو انتظار حسین کی کہانی ”آخری آدمی“ میں ایک پوری بستی بندروں میں تبدیل ہو جاتی ہے اور انہی کی ایک اور کہانی ”کایا کلپ“ میں شہزادہ مکھی بنتا ہے اور پھر اسے انسان کے قالب میں واپس آنا نصیب نہیں ہوتا۔ آئنسکو کے ڈرامہ میں کردار انسان بنا رہنے کے لیے مضطرب ضرور ہے مگر اجتماعی واردات کی ہولناکی کے سامنے امید بالکل مدھم سی ہے۔

ان مثالوں کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ جدید افسانوی ادب میں تبدیلیٔ قالب بنیادی طور پر ایک دہشت ناک تجربہ ہے اور تبدیلیٔ قالب کا یہ موضوع انسان کے زوال کے موضوع سے منسلک ہے۔ کچھ مثالیں البتہ ایسی بھی مل سکتی ہیں جہاں یہ موضوع دہشت کے بجائے تنظیم ذات کے اعلیٰ مراحل سے مربوط ہو کر نشاط و سرمستی کی کیفیت لیے ہوئے ہے مثلاً ہرمن ہیسے کی کہانی ”پکٹور کی کایا پلٹ“ لیکن جدید افسانے میں زیادہ تر انسان کے ہیرو کے مرتبے سے گر جانے کی کہانی سنائی گئی ہے۔ جدید انسان کے اندر کی شکست و ریخت اور اُس کا فکری انتشار اس استعارے کی مدد سے بیان ہوئے ہیں۔ انسان جو کائنات کی مختلف سطحوں کو کسی وحدت میں ڈھالنے کی سکت رکھتا تھا، ان کہانیوں میں حقیر دکھائی دیتا ہے انتشار وحدت میں نہیں بدلتا اور روحانی بنجر پن کو ختم کرنے کا کوئی طریقہ نہیں رہا۔ ظاہر ہے اس تمام تجربے کو چند ذہنوں کی منتشر سوچ کہہ کر نہیں ٹالا جا سکتا یہ جدید دور کی زندگی کا ایک اذیت بھرا مشاہدہ ہے۔ ان کہانیوں کا تفصیلی جائزہ اس وقت مقصود نہیں ہماری دلچسپی کی بنیادی بات یہ ہے کہ جدید افسانے کے ان نمائندوں نے انسانی زوال کو ظاہر کرنے کے لیے جس علامت کو استعمال کیا ہے وہ داستانوں کے بنیادی رموز میں شامل ہے چنانچہ داستانوں میں اس موضوع کی معنویت تلاش کرنا ضروری ہے۔ جدید افسانہ نگاروں نے ”تبدیلی قالب“، ”قالب ماہئیت“ یا ”کایا کلپ“ کو ایک حتمی تجربے کے طور پر قبول کیا ہے کیونکہ انہیں جدید زندگی میں اس تجربے کے اگلے مراحل کا کہیں سراغ نہیں ملتا چنانچہ وہ اس علامتی واردات کے ایک خاص رخ کو جدید انسانی صورت حال پر منطبق کرتے ہیں۔ لوک کہانیوں، داستانوں اور پریوں کی حکایات میں یہ حتمی تجربہ نہیں بلکہ انسان کے علامتی کائنات میں سفر کے مختلف مراحل میں سے ایک اہم مرحلہ ہے۔ داستانوں میں یہ تبدیلی ’قالب ہمیشہ کسی جانور میں نہیں ہوتی اور خود جانور میں تبدیلی بھی لازمی طور پر زوال کے ساتھ منسلک نہیں یہ دراصل وجود کی مختلف سطحوں میں رابطے کی وضاحت ہے چنانچہ نباتات، جمادات اور حیوانات وجود کے دائرے مختلف درجات ہیں (بدھ مت کی جا تک کہانیوں میں بدھ کا مختلف مخلوقات میں جنم بھی اسی معنویت سے مربوط ہے) قدیم چینی فلسفی چونگ زو خواب دیکھتا ہے کہ وہ تتلی بن گیا ہے اور وہ سوچتا ہے کہ یہ چونگ زور ہے جو خواب میں تتلی کو دیکھ رہا ہے یا تتلی ہے جو خواب میں چونگ زو کی شکل دیکھتی ہے۔ حکایات میں انسان کے پھول، درخت، ستارے، پتھر، چاندی اور سونے میں بدل جانے کا تذکرہ بھی آتا ہے اور یہ سب تبدیلیاں ان حکایات میں مخصوص معنویت رکھتی ہیں۔ (اقتباس)